مطالعہ پاکستان جنسی تعلیم اور مسلم لیگ

مطالعہ پاکستان کا اخراج اور جنسی تعلیم کا آغاز نصاب تعلیم میں ہونے والا ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت میں یہ اقدام انتہائی زیادتی ہے۔ اصل میں یہ حکومت مسلم لیگ کی نہیں مسلم لیگ نوازشریف کی ہے جسے عرف عام میں مسلم لیگ ن کہتے ہیں۔ کئی مسلم لیگوں کی وجہ سے یہی کچھ ہوتا ہے جو ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مسلم لیگ ق کے لئے قائداعظم کی نسبت اچھی بات ہے مگر جب آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر قائداعظم تھے تو اسے مسلم لیگ ق نہیں کہا گیا تھا۔ بہرحال یہ معاملہ اپنی مسلم لیگ کی پہچان کے لئے ہے۔ مسلم لیگ کے اتحاد کے لئے مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کی کوششیں یاد رکھی جائیں گی۔ تب مرحوم پیر پگارا اور چودھری شجاعت نے مجید نظامی کو مکمل تعاون کا یقین دلایا تھا۔ انہیں پورا اختیار دیا کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہے۔ چودھری شجاعت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ آپ متحدہ مسلم لیگ کے صدر بن جائیں۔ قائداعظم کے پاکستان کے لئے قائداعظم کی مسلم لیگ کا ہونا بہت ضروری ہے اور یہ ایک مسلم لیگ ہو گی۔

اب یوم قائداعظم کے حوالے سے چودھری شجاعت کی صدارت میں چھوٹے چودھری نے مطالعہ پاکستان کو نصاب تعلیم میں شامل رکھنے کو لازمی قرار دیا۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے ”غیر پاکستانی“ رویے کا یہ مظاہرہ بہت افسوسناک ہے۔ ایک مسلم لیگ کے اس مطالبے اور دوسری مسلم لیگ کے اس مظاہرے پر غور کریں۔ غور و فکر کریں اور فکرمند ہو جائیں۔ دوسری سب مسلم لیگوں سے گذارش ہے کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ ایک مسلم لیگ کے لئے نوازشریف کو مجید نظامی کی خواہش کا احترام کرنا چاہئے۔ یہ بات نوازشریف کی حکومت کے لئے بہت مفید ہے۔ چودھری شجاعت نے پچھلی رنجشوں پر ”مٹی پاﺅ“ کے بعد نوازشریف کو حمایت کی پیشکش کی ہے۔ انہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پیر پگارا پہلے ہی نواز لیگ کے حامی ہیں۔ دوسری مسلم لیگوں سے رابطے کے بعد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی کوششوں کے رنگ لانے کا یہ بہترین موقعہ ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ پاکستان کے واحد صدارتی انتخاب میں بابائے قوم کی جانثار بہن مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مسلم لیگ کی امیدوار تھیں اور ان کے مقابلے میں جنرل ایوب خان بھی مسلم لیگ کے امیدوار تھے۔ تب جنرل ایوب مادر ملت کے حق میں دستبردار ہو کر مسلم لیگوں کو متحد کر دیتے تو آج پاکستان کی تاریخ اور تقدیر مختلف اور شاندار ہوتی۔

اس کے بعد نصاب تعلیم کا کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ ملک میں صدارتی نظام ہوتا اور یہ بہترین جمہوری نظام ہے۔ امریکہ میں اس کا تجربہ بہت کامیاب ہے۔ ہم امریکہ کی مرضی کے بغیر اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی نہیں چلاتے تو پھر یہ کام کیوں نہیں کرتے۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی کالم بناﺅں گا۔ ہمارا نصاب تعلیم کئی بار بدلا گیا ہے۔ ہر حکومت میں حکمرانوں، سیاستدانوں، نام نہاد ماہرین تعلیم نے معاملات کو الجھایا ہے۔ ہمارا نصاب تعلیم بدل بدل کر بھی ہماری معاشرتی اور تہذیبی زندگی نہیں بدل سکا۔ نہ دین کے جینوئن اور کشادہ اثرات مرتب ہو سکے نہ دنیا کے روشن پہلو اور ثمرات ہم تک پہنچ سکے۔ ایک غیر عملی کی صورتحال ہمارے تعلیمی اداروں پر غالب رہی۔ نصاب تعلیم نہ نصاب زیست بن سکا نہ نصاب پاکستان بنا۔ نوجوان بی اے کرنے کے بعد بھی زندگی اور پاکستان کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ اچھا انسان اچھا مسلمان اچھا شہری اچھا پاکستانی بننا تو اُن کے نصیب میں نہیں۔ نہ نصاب تعلیم میں ہے۔ وہ عام طور پر بھی کسی حوالے سے کوئی رائے نہیں رکھتے اور نہ ہی کوئی کام کرنے کے لئے مہارت دیانت اور استقامت رکھتے ہیں۔

اسمبلیوں میں جعلی ڈگریاں رکھنے والے کیا جانیں کہ اُن کے بچے کیا پڑھ رہے ہیں۔ وہ پاکستانی بچے تو بالکل نہیں ہوتے۔ نجانے کس کے بچے ہوتے ہیں۔ انہیں تاریخ عالم تاریخ اسلام اور تاریخ پاکستان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ مشرقی پاکستان کبھی ہمارے ملک کا حصہ تھا۔ انہیں کشمیر اور دوسرے پاکستانی مسائل کا پتہ نہیں۔ انہیں پاکستان کے جغرافیہ کا کوئی علم نہیں۔ انہیں قائداعظم کے ساتھیوں کا علم نہیں پہلے وزیراعظم اور اُن کے وزیروں کے نام معلوم نہیں اسمبلیوں میں جن ممبران کے پاس ”جینوئن“ ڈگریاں ہیں۔ انہیں قومی ترانہ نہیں آتا۔

پاکستان بننے کے بعد تعلیمی اداروں سے کوئی قابل ذکر آدمی نہیں نکلا۔ بڑا آدمی ہونا تو بڑی بات ہے؟ جتنے بڑے لوگ ہیں وہ قیام پاکستان سے پہلے کے ہیں۔ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے علاوہ بھی کچھ نام لئے جا سکتے ہیں تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان کو نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی کوششیں بے مثال ہیں۔ اس شاندار پاکستانی فورم سے نصاب تعلیم کو پاکستانی اور اسلامی بنانے کے لئے ایک تحریک چلائی جا رہی ہے۔ نصاب تعلیم کے پاکستانی ہونے کے لئے قائداعظم کی زندگی کی مکمل کہانی پہلی جماعت سے آخری جماعت تک نصاب کا لازمی حصہ ہو۔ اس سے بڑھ کر ہمیں اسلامی نصاب تعلیم کے لئے سیرت رسول کا پورے کا پورے زمانہ اپنے زمانے کے ساتھ مربوط کرنا چاہئے۔ رسول کریم رحمت اللعالمین تھے۔ سارے جہانوں کے لئے رحمتوں کی اس برسات اور پھوار سے لوگ نہال بحال اور خوشحال ہوں۔ یورپ اور امریکہ نے سیرت رسول سے استفادہ کیا ہے۔ ہم آج اُن کی مثالیں دیتے ہیں۔ ان کے قانون کے تعلیمی ادارے لنکنز ان میں دنیا کی بڑی قانون ساز شخصیتوں میں پہلے نمبر پر محمد کا نام لکھا ہوا ہے۔ محمد علی جناح نے وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسی مثال کو سامنے رکھا۔ ہم اگر پیغمبر عالم محسن انسانیت رسول کریم حضرت محمد کے آخری خطبے اور پاکستان کے حوالے سے قائداعظمؒ کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے پہلے خطاب کو اپنے سامنے رکھیں تو ہم دنیا کی بہترین قوم بن سکتے ہیں۔ رسول اعظم اور قائداعظمؒ کی زندگیوں کا مطالعہ ہمارے نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بن جانا چاہئے۔

تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کی ضرورت پر کھل کر اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانوں کی ازدواجی زندگی کو اچھی طرح مستحکم رکھنا ایک مسئلہ ہے جس کا حل دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اب نوجوان شادی ہی نہیں کرتے۔ اس لئے زندگی ہموار اور خوشگوار بنانے کیلئے کسی نصاب تعلیم میں کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ اس کے علاوہ آنے والی عملی زندگی میں مختلف چیلنجز اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے رہنمائی بڑی ضروری ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو تو یہ معلوم نہیں کہ ٹریفک میں کس طرح رویہ رکھنا ہے۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے رویوں کے حوالے سے کوئی آگاہی ہمارے نصاب تعلیم میں نہیں ہے۔ زندگی کے مکمل احتساب بلکہ خود احتسابی کا شعور ہمارے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کا لازمی جزو ہونا چاہئے۔ حکومتوں کو حکمرانی اور من مانی سے فرصت نہیں۔ وہ قومی اور غیر حکومتی معاملات کی طرف کیوں توجہ دیں گے؟ وہ بھول گئے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ذمہ دار ترین عہدوں پر تشریف فرما ہیں۔

ABDUL SAMI KHAN SAMI
About the Author: ABDUL SAMI KHAN SAMI Read More Articles by ABDUL SAMI KHAN SAMI: 99 Articles with 105263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.