پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے
تو معلوم ہوتا ہے کہ چند ہی شخصیات ایسی گزری ہیں جنہوں نے ایک اعلیٰ و
مقدس نصب العین کے ساتھ وابستگی میں اپنی عمریں لٹا دیں اور جاتے ہوئے ایسے
ان مٹ نقوش ثبت کر گئیں جو ایک عرصے تک یاد رکھے جائیں گے۔ان شخصیات میں
اقبال کے شاہیں کی عملی تصویر پیش کرنے والے نرم دم گفتگو و گرم دم جستجو
قاضی حسین احمدؒ بھی ہیں جو عمر عزیز کا بیشتروقت اقامت دین کی تحریک کو
ودیعت کر نے کے بعد ۵ اور ۶ جنوری ۲۰۱۳ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا
ملے۔دلوں پہ راج کرنے والے ہردل عزیزقاضی صاحب اپنے حلقہ یاراں کو توسوگوار
چھوڑ گئے مگر جاتے جاتے وہ نقوش پا بھی چھوڑ گئے ہیں جو نہ صرف تحریک
اسلامی بلکہ ملت اسلامی کے لیے کامیابی کا زینہ ثابت ہوں گے۔
شب ظلمت میں اجالے کی خبر دیتے ہیں
یہ ہیں وہ لوگ جو پیغام سحر دیتے ہیں۔
قاضی صاحب ایک ہمہ پہلو (Multi Dimentional)شخصیت کے مالک تھے ۔فراصت مؤمن
کی جیتی جاگتی تصویر ، نگہ بلند و سخن دلنواز و جان پرسوز جیسی قائدانہ
صلاحیتوں کے آئینہ دار درویش صفت ، آزاد منش ، صاحب بصیرت ، دور اندیش اور
مستیٔ کردارسے بھرپورطبیعت کے انسان تھے ۔وہ راست بازی حق گوئی، ایثار اور
حسن اخلاق، خلوص ، انکسار اور تواضع کا پیکرتھے ۔ آپ تقریر اور تحریر دونوں
میں اﷲ کی برہان دکھتے تھے۔ دین کی سربلندی کے لیے لڑنے والے سرفروش سپاہی
بھی ہیں، مجاہدین کے پشتیبان بھی اور خوئے دلنوازی کے حامل قائد تحریک
بھی۔ایک طرف ظالم کی ا ٓنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارتے ہیں تو دوسری جانب
مظلوم کے لیے آنکھیں بچھا کر درد آشنائی کرتے ہیں ۔ آپ کبھی جمال الدین
افغانی کا کردار ادا کرتے ہیں اور کبھی سلطان ٹیپو کی تلوار بن جاتے ہیں ۔غرض
انکی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر نا کسی ایک لکھاری کے بس میں نہیں ۔ان
کی شخصیت کا جو پہلو انہیں دیگر قائدین سے ممتاز کرتا ہے وہ انکی رجحان ساز
(Trend Setter) شخصیت ہے۔انہوں نے نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ قوم کو نئے
رجحانات سے متعارف کرایا ۔ ان کی شخصیت کے اس پہلو سے نہ صرف جماعت اسلامی
نے استفادہ کیا بلکہ عالم اسلام کی دیگر جماعتوں نے بھی انکے طرز عمل کو
مشعل راہ بنایا۔
ْ
قاضی صاحب اسم با مسمی واقع ہوئے ہیں ان کے نام کے تینوں اجزاء قاضی ، حسین
اور احمد ان کی شخصیت کے سے جھلکتے ہیں ۔آپ امت مسلمہ کی وحدت کے داعی تھے
اور آپ نے اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کرنے کے لیے دیواروں کو گرا کر پل
باندھنے کے کٹھن فیصلے کیے۔ آپ نے مختلف مسالک کے علماء کوجن کے مابین
اختلافات کی خلیجیں حائل تھیں ایک دوسرے کے قریب لایا ۔اس سلسلے مین آپ نے
پہلے ملی یکجہتی کونسل اور بعد ازاں متحدہ مجلس عمل کی داغ بیل ڈالی ۔آپ نے
شدید اختلافات کے باوجوداشتراک عمل کو ممکن بنایا امت مسلمہ کے بکھرے دھڑوں
کو ملا کر سیدنا حسین ؓ کی سنت کو زندہ کیا اور نبی مجتبیٰ احمد مصطفی ﷺ کی
امت کو جسد واحد کی طرح مجتمع کرنے کا حق ادا کیا۔موجودہ دور میں یہ
پاکستان بلکہ عالم اسلام میں میں ایک نئے رجحان کے طور پہ سامنے آیا کہ ایک
عظیم مقصد کی خاطر اپنے اختلافات کو بھلایا جائے اور باہم دست و گریبان
ہونے کے بجائے ایک دوسرے کا دست و بازو بن کے آگے بڑھا جائے ۔قاضی صاحب نے
جو شجرکاری کی مذہبی قیادت اس کے پھل کی شیرینی و حلاوت سے اب آگاہ ہو چکی
ہے۔وہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام عالم اسلام میں محبت و یگانگت کی فضا کے اس
رجحاں کے خالق ہیں ۔پاکستان میں موجود مذہبی قیادت نے ان سے استفادہ بعد
میں کیا جبکہ دیگر ممالک میں موجود اسلامی تحریک نے ان کے اندر چھپی اس
صلاحیت کا لوہا پہلے ہی مان لیاتھا۔ انہوں نے دیگر ممالک میں موجود اسلامی
تحریکوں کو قریب لانے اور امداد باہمی کی فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا
کیا ۔ دیگر ممالک میں کام کرنے والی اسلامی تحریکوں کے درمیان اختلافات کے
تصفیے کرائے۔سوڈان میں صدر عمر البشیر اور ڈاکٹر حسن ترابی کے درمیان تصفیہ
کرایا اسی طرح افغانستان میں برسوں سے متحارب انجنیئر گلبدین حکمتیار اور
پروفیسر برہان الدین ربانی کے مابین جنگ بندی کرائی ۔قاضی صاحب کی ان
کاوشوں کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو امت مسلمہ کی مؤثر جماعت خیال کیا
جانے لگا۔
بطور امیر قاضی صاحب نے جماعت اسلامی کو عوامی رنگ عطا کیا۔ پاکستان اسلامک
فرنٹ ان کی رجحان ساز سوچ کا ایک کارنامہ ہے۔ اگرچہ اس امر پہ ان سے جماعت
اسلامی کے ایک وسیع حلقے نے اختلاف بھی کیا مگر اس سے قطع نظراس نئے رجحان
کی بدولت جماعت اسلامی مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں
مقبول ہوئی اور لوگوں کا ایک ہجوم جماعت اسلامی کی دعوت سے متاثر ہو کر
حلقہ اثر میں شامل ہوا۔اس تجربے کا مقصد یہ تھا کہ عوام میں اسلامی تحریک
کا ایک سیاسی شعبہ متعارف کرایا جائے جو مستقل طور پر سیاسی امورکو نمٹائے۔
اس طرح جماعت اسلامی کو پھلنے پھولنے کے لیے زیادہ مواقع میسرآئیں گے۔جماعت
اسلامی دعوت و تربیت کا کام کرے گی اور اسی کے ذمہ دار افراد کی سرکردگی
میں سیاسی شعبہ (Political Wing) یعنیاسلامک فرنٹ کی سیاسی میدان میں خدمات
انجام دے گا۔اس تقسیم کارسے افراد پہ ذمہ داریوں کا بوجھ بٹ جائے
گااوراستعداد کار میں اضافہ ہو گا۔یہ تجربہ بعض وجوہات کی بنا پر پاکستان
میں تو کامیاب نہ ہوا مگر عالم اسلام کی دیگر اسلامی تحریکوں میں اسے
پزیرائی ملی اور اب تیونس، لیبیا، مراکش، مصر،ہندوستان، ملائشیا اور دیگر
ممالک میں اپنا بھی لیا گیا ہے اور اس کے ثمرات بھی سمیٹے جا رہے ہیں۔ اس
نئے رجحاں کی بدولت جماعت اسلامی ایک دینی تحریک کے ساتھ ساتھ قومی دھارے
کی سیاسی جماعتوں میں بھی شمار ہونے لگی۔ گویا جماعت اسلامی جو قطرہ قطرہ
جمع ہونے والے خالص پانی کی ایک جھیل بن چکی تھی قاضی صاحب نے اسے دریا کی
روانی عطا کر دی۔ ٓپ کی زیر قیادت جماعت اسلامی نے دھرنوں ، ملین مارچ ،
انسانی ہاتھوں کی زنجیر اور دیگر نئے طریقوں سے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ
کیا۔اب دیگر جماعتیں بھی انہی طریقوں کو اپنا رہی ہیں ۔
جماعت اسلامی جیسی تنطیمیں معاشرے کے صالح اور شریف افراد پہ مشتمل ہوتی
ہیں اور شرفاء کا وطیرہ ہے کہ وہ جنگ وجدل سے اعراض کرتے ہیں ۔اس شرافت کو
معاشرے کے عاقبت نا اندیش لوگ بزدلی اور کمزوری گردانتے ہیں اور بزور طاقت
عوام کو حق کے راستے سے ہٹانے کی سعی کرتے ہیں اسکے نتیجے میں عوام کی
اکثریت مرعوب ہو کر ظالموں کا ساتھ دینے پہ مجبور ہوتی ہے ۔معاشرے کے اس
رجحان کو بدلنے کے لیے قاضی صاحب نے اولاً پاسبان اور بعد ازاں شباب ملی کی
بنیاد رکھی ۔اس کا مقصد یہ تھاکی معاشرے کے صالح اور تربیت یافتہ نوجوانوں
کو دہشت پھیلانے والے افراد کے مقابل لاکھڑا کیا جائے۔ قانون و شریعت کی
حدود میں رہتے ہوئے دست یزید کو روکا جائے۔اس رجحان کی وجہ سے ملک کے
مزدوروں، کاشتکاروں اور کمزور طبقات کو معاشرے کے بااثر افرادکے قہر سے
نجات ملی اور وہ جبر ناروا سے مفاہمت کے بجائے سربکف ہو کر اس کے مقابلے کے
لیے تیار ہونا شروع ہوئے ۔ظلم کے پروردہ لوگوں کو اپنے مزموم ارادوں کی
تکمیل کچھ رکاوٹ کاسامنا کرنا پڑا۔جماعت اسلامی کو انہوں نے آب رواں
بنایاتھا تو موج دریا بھی انہوں نے خود ہی عطا کر دی۔
ملک کے قبائلی علاقوں کو قومی و سیاسی دھارے میں لانے کے لیے آواز قاضی
صاحب نے ہی بلند کی۔ انہوں نے ان علاقوں میں جماعت اسلامی کی تنظیم سازی کی
اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ وہ متعدد بار سیاسی پروگراموں میں شرکت
کے لیے قبائلی علاقوں میں گئے اور اس پاداش میں انہیں نظربندی اور گرفتاری
کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ آپ نے قبائلی عوام پر ڈرون حملوں کے خلاف پہلی بار
آواز بلند کی۔آج ہر سیاسی جماعت اس مؤقف کو اپنا رہی ہے اور قبائلی علاقوں
کو سیاسی حقوق دلانے کی بات کرتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے سلگتے مسئلے کے
حل کے لیے آپ نے صوبے کی سیاسی قیادت سے روابط استوار کیے ۔ قوم پرست
جماعتیں جماعت اسلامی کو طفیلی جماعت سمجھتی تھیں اور پنجاب سے عناد کا
رویہ رکھتی تھیں قاضی صاحب کے طرز سیاست کی بدولت وہ جماعت اسلامی کے قریب
آئیں اور اب وہ قومی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کربات چیت کررہی ہیں ۔قاضی صاحب
نے علاقائیت اورصوبائیت کی طرف بڑھتے عفریت کو ملک وملت کے مفادات کے لیے
سوچنے کے رجحان میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
قاضی صاحب نے اندرون ملک ہی ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھائی بلکہ جہاں جہاں
خون مسلم کی ارزانی دیکھی وہاں جہاد کا علم بلند کرنے والے مسلمانوں کی
سیاسی ، مالی و سفارتی پشتیبانی کی۔ جماعت اسلامی اول روز سے ہی" ــ ایک
ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے "کا نعرہ لے کر اٹھی تھی قاضی صاحب نے نیل
کے ساحل سے تابخاک کاشغر اس نعرے کو سچ ثابت کر دکھایا۔آپ نے
جہادافغانستان، جہاد کشمیر کے موقع پر مجاہدین کی پشتیبانی بھی کی اور
مجاہدین کے مؤقف کو گلی گلی کوچہ کوچی عام کیا جس کے نتیجے میں پوری قوم
مجاہدین کی پشت پہ کھڑی ہو گئی۔پاکستان کے طول و عرض میں ایک مجاہد کلچر
پروان چڑھا ۔ جہاد کی اصطلاح اتنی عام ہوئی کہ اسے ا ٓکسفورڈ ڈکشنری میں
بھی شامل کر لیا گیا۔ اسکے علاوہ بوسنیا ، کوسوو، فلسطین اور عراق کے مظلوم
مسلمانوں کا دکھڑا تمام دنیا کے سامنے لایا اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ
دیگر اسلامی ممالک کے کانوں میں آذان حق دی۔ ان کوششوں کی بدولت پاکستانی
عوام کے دل دنیا کے دیگر مسلمانوں کے لیے دھڑکنے لگے بلکہ عوام کی اکثریت
کے اس رجحان کے پیش نظربوسنیا اور کوسوو کے مسئلے میں تو حکومت پاکستان نے
بھی بھرپور کردار ادا کیا۔
قاضی صاحب ذاتی طور پہ ایک درد آشنا شخصیت تھے اور اس درد آشنائی نے جماعت
اسلامی کو ایک اور رجحان سے متعارف کرایا۔جماعت اسلامی میں شعبہ خدمت خلق
کے نام سے ایک شعبہ موجود تھا جو خدمت خلق کے جذبے سے فلاح انسانیت کا کا م
کرتا تھا قاضی صاحب نے اسے الخدمت فاونڈیشن کے نام سے توسیع دے کر ملک گیر
سطح پر منظم کیا ۔اﷲ کے فضل سے الخدمت فاؤ نڈیشن اس وقت قومی اور بین
الاقوامی سطح کی نجی تنظیموں (این جی اوز) کی طرز پہ کام کر رہی ہے۔ 2005
کے زلزلے، سوات آپریشن اور 2010 کے بد ترین سیلاب میں جب حکومت نے متاثرین
کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا تھا اس وقت الخدمت فاونڈیشن نے ان کے
زخموں پہ مرہم رکھااو امداد و بحالی کی بے مثال خدمات انجام دے کر ایک
تاریخ رقم کی جن کا اعتراف سیکولر طبقات اور اسوقت کے حکمرانوں نے بھی
کیا۔الخدمت فاونڈیشن کراچی سے خیبر اور کوئٹہ سے کشمیر تک اپنے وسیع نیٹ
ورک کے ذریعے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے میں ہمہ تن
مصروف عمل ہے۔ جماعت اسلامی اس وقت ملک میں 45 کے قریب ہسپتال چلا رہی ہے
ان میں بعض تدریسی (ٹیچنگ) ہسپتال بھی شامل ہیں ۔ اسکے علاوہ مراکز صحت اور
ایمبولینس سروس کا ایک جال ہے جو کسی بھی ناگہانی آفت سے نمٹنے کے لیے ہر
دم تیار ہے اور عام حالات میں بھی مریضوں کو سہولت فراہم کرتا ہے۔
ْ
قاضی صاحب ایک علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے لہذا علم سے وابستگی ان کی
شخصیت کا خاصا تھا ۔ انہوں نے حرا سکول سسٹم کے تحت ایسے سکولوں کی بنیاد
رکھی جو تعلیم کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی اسلامی خطوط پر تربیت کی ذمہ داری
بھی اٹھائیں ۔ قاضی صاحب کی خواہش تھی کہ ملا اور مسٹر کی تفریق کو کتم کیا
جائے۔ اس سوچ کو معاشرے میں پذیرائی ملی۔ جماعت اسلامی کی تقلید میں دیگر
مذہبی جماعتوں اور اداروں نے بھی ایسے ادارے قائم کیے۔یہاں تک کہ دینی
مدارس نے بھی اپنے خود کو عصری تعلیم سے ہم آہنگ کرنا شروع کر دیا۔ اب ہر
شہر میں ایسے اداروں کی بہتات دیکھنے کو ملتی ہے ۔اسلامی جمہوری اتحاد کی
حکومت مین تو اس رجحان کو حکومتی سطح پہ بھی اپنایا اور مسجد مکتب سکول
شروع ہوئے ان سکولوں کی وجہ سے پرائمری تک کی تعلیم کافی حد تک عام ہوئی۔
قاضی صاحب کی سوچ تعلیم کو عام کرنے تک ہی محدود نہ تھی بلکہ انہوں نے ایسے
ادارے قائم کیے اور ان کی سرپرستی کی جوسماجی، معاشرتی ، سیاسی اور اقتصادی
مسائل پہ تحقیق کر کے مستقبل کی حکمت عملی وضع کرتے ہیں ۔ان اداروں کی جاری
تحقیق کے نتیجے میں تحریک اسلامی اس وقت دور جدید کے مسائل سے نبرد آزما
ہونے کی حکمت عملی سے مکمل طور پہ لیس ہے۔اسکے علاوہ جماعت اسلامی کا
لٹریچر مختلف زبانون میں ترجمہ کر کے متعلقہ علاقوں میں فراہم کیا جاتاہے
جس سے تحریک اسلامی کو عالمگیر وسعت ملی ہے۔
قاضی صاحب کے نئے رجحانات کی بدولت جماعت اسلامی ملک کی وہ واحد جماعت بن
گئی ہے جس کے پاس ہر شعبہ زندگی کو سنوارنے کے لیے اپنی حکمت عملی موجود ہے
مثلا جماعت اسلامی کے پاس خارجہ و داخلہ پالیسی ہے اور وہ عملی طور پر اسکا
مظاہرہ بھی کر رہی ہے ۔اسکے پاس اقتصادی پالیسی ہے جسے وہ اپنی تنظیم اور
اداروں پہ لاگو بھی کر رہی ہے ،اسکے پاس سماجی خدمت کا ایک مربوط جال ہے
اور علم و ادب میں اسکی حیثیت مسلم ہے۔غرض جماعت اسلامی اس قابل ہو چکی ہے
کہ قوم کی قیادت اور مسیحائی کر سکے ۔وہ اس وقت ہمیں داغ مفارقت دے گئے جب
ان کی لگائی کھیتی پک کر تیار ہونے کو تھی۔
ستم کا آشنا تھا وہ سبھی کے دل دکھا گیا
کہ شام غم تو کاٹ لی سحر ہوئی چلا گیا
قاضی صاحب کی رحلت ایک قومی المیہ ہے۔ ان کے چلے جانے سے جماعت اسلامی ہی
نہیں بلکہ امت مسلمہ ایک ملنسار، جری ،نڈر اور دور اندیش قائد سے محروم
ہوگئی ہے۔افراد کو دنیا میں ایک خاص مدت تک رہنا اور پھر داعی اجل کو لبیک
کہ دینا ہوتا ہے۔ مگر قائد تو وہ ہوتا ہے جو ایسے چراغ روشن کر جائے کہ
رہتی دنیا تک قافلے ان کی روشنی میں اپنی منزل کا تعین کرتے رہیں۔انہوں نے
زندگی میں جو رجحانات اپنی جماعت اور امت مسلہ کو عطا کیے ہیں امید ہے کہ
آئندہ قیادتیں ان سے رہنمائی لیتے ہوئے وہ اقدامات کریں گی جن سے ان کی
جدائی کا خلا پورا ہو سکے اور بدلتے وقت اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے کچھ
مزید رجحانات معتارف کرائیں گی جو امت مسلمہ کو دوبارہ عظمت کے بلند
آسمانوں پہ لے جائیں ۔ |