کیا سنا آپ نے پاکستان کے
بزرجمہرو!برطانیہ میں بیٹھے صلیبیوں کے آلہ کار کی بڑھک ؟ کیا کہا اس نے؟
اس سے پہلے بھی اس نے مملکت خداداد کو نقصان پہنچایا اور اب تو کھل کر
سامنے آگیا۔ پاکستان اسکے باپ نے نہیں بنایا بلکہ کروڑوں مسلمانوں کی جانی
، مالی اور عزت آبرو کی قربانیوں کا ثمرہ ہے۔اردوالطاف کی زبان کہاں سے
آگئی۔ اردوزبان پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور زبانوں کی بنیاد پر صوبے یا
ملک نہیں بنا کرتے ۔ بلکہ نظریات پر ان کی تشکیل ہوتی ہے۔ سب زبانیں ہم
مسلمانوں کی ہیں۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ تمام جہانوں کے لیئے رسول بناکر بھیجے
گئے۔ قرآن پاک تمام جہانوں کے لوگوں کے ہدائت ہے جو عربی زبان میں نازل
ہوامگر اس کا موضوع جملہ اہل زبان ہیں۔ اگر فوقیت ہے تو صرف عربی زبان کو
کیونکہ اس زبان میں اذان، نماز ،کلمے ،تلبیہ اور دعائیں و خطبات جمعۃ
المبارک پڑھنا ضروری ہے۔ اگر دیگر کوئی زبان اتنی اہم ہوتی تو مصطفےٰ کمال
کا ترکی زبان میں اذان و نماز و خطبہ کا دیا ہوا حکم آج باقی رہتا ۔ آج
اردوزبان کی اہمیت ہماری ضرورت کے مطابق ہے۔ اردوہم مسلمانوں کی تخلیق اور
مغلیہ دور میں باہمی رابطہ کیلیئے لشکری زبان کی حیثیت سے سامنے آئی۔
لشکروں میں عربی، فارسی اور ہندی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی تو اس نئی
زبان میں انہی زبانوں کا غلبہ ہے۔ برصغیر میں سرکاری زبان فارسی رہی ہے
لیکن عربی زبان بھی اپنے عروج و شباب پر رہی۔ قرآن حکیم کی تفاسیر و تراجم،
احادیث کی شروح اور حواشی عربی اور فارسی پھر اردو ہندی میں موجود ہیں۔ کسی
فرد یا جماعت کو زبانوں کی وجہ سے کوئی فضیلت و برتری حاصل ہرگز نہیں۔ اگر
کوئی کسی غلط فہمی کا شکار ہے اور وہ دعویٰ مسلمانی کرتا ہے تو سید
العالمین ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع پڑھے۔ اسلا م نے تفاخر کی تمام باتیں مٹا
دیں اب صرف تقویٰ ہی اﷲ پاک کے ہاں بڑائی کا ذریعہ ہے۔ یہاں تک تو میں نے
زبانوں کے بارے عرض کیا ۔ ایم کیو ایم والے وہ کالی بھیڑیں ہیں کہ آج تک
انہوں نے اپنے مفادات اور بھتہ خوری کے لیئے سیاست کی ۔ کبھی میاں نواز
شریف صاحب کو انکی ضرورت پڑی تو کبھی پرویز مشرف کو اور سب سے زیادہ زرداری
صاحب نے ان کو استعمال کیا کیونکہ وہ ان کی ضرورت تھے اور انہی کے ذریعہ
اپنے پانچ سال پورے کرگئے۔ ان پانچ سالوں کے دوران متعدد مرتبہ ایم کیو ایم
نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور من مانے سودے کرکے حکومت میں شامل ہوتے
رہے۔ زرداری نے کونسا اپنے گھر سے انہیں کچھ دیا۔ وہ خود بھی اس ملک کو لوٹ
رہے تھے شا مل اقتدار لوگوں کو بھی مزے کرائے۔عشرت العباد وہ ہستی ہے کہ جس
کے خلاف لاتعداد مقدمات درج ہیں مگر کمانڈو صاحب کے مقرر کردہ گورنر کو
ہٹانے کی کس میں ہمت ہے ۔ ان کے خلاف بڑا اپریشن ہوااور عقوبت خانوں کی
تفاصیل میڈیا نے عوام تک پہنچائیں۔ سیاستدانوں نے اس دہشت گروپ کو سیاسی
جماعت کی حیثیت دے کراپنے اقتدار کی خاطر کراچی ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دی۔
کوئی سیاستدانوں سے پوچھے کہ تم برطانیہ جاکر دہشت گردی کے سرخیل سے
ملاقاتیں کیوں کرتے ہو۔ بھتے کی رقم اسے پہنچ جاتی ہے اور وہ وہاں سے زہر
اگلتا رہتا ہے۔ الطاف کئی مرتبہ اپنا مافی الضمیر بیان کرچکا ہے مگر ہر بار
اسکے ترجمان اس کی باغیانہ گفتگو کی توجیہات کرتے رہتے ہیں ۔ مگر اس دفعہ
تو اس کے الفاظ واضح ہیں ان میں ذو معنی ہونے کا کوئی شائبہ تک نہیں۔انکے
وکلاء صفائی کا کہنا کہ وہ حق مانگتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس ملک کے دیگر
عوام کو جو حقوق حاصل ہیں بلا تفریق مقبوضہ پاکستان(ہند) سے آنے والے ہر
مسلمان بھائی کو حاصل ہیں ۔
کیا انہیں کاروبار کی اجازت نہیں؟ کیا انہیں مئیر بننے اور اسمبلی ممبر
بننے پر کوئی پابندی ہے؟ کیا عشرت العباد انکا گورنر نہیں؟ کئی حکومتوں اور
خاص کر پی پی پی کی حکومت میں انہوں نے اقتدار کے مزے نہیں لوٹے؟ الطاف یا
اسکے ترجمان اب عوام کو دھوکا نہیں دے سکتے ۔ سنڈھے کی طرح رینگ رینگ کر
آوازیں نکال کر اب وہ کسی پر اپنا جادو نہیں چلا سکتا۔ آئین پاکستان میں
اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جاچکا ہے۔ یہ ایک اہم زبان ہے اور
ہماری جدوجہد ہے کہ اردومرکزی اور صوبائی دفاتر میں اب ملکہ کی حیثیت حاصل
کرلے۔ اسی طرح عدالتی زبان اب اردو ہونی چاہیئے۔الطاف کے یہ الفاظ کہ اردو
صوبہ بنائیں گے اور علیحدہ ملک بھی بن سکتا ہے۔ وہ پاکستان کی وحدت کی طرف
رجوع کرے اور اپنے باغیانہ الفاظ واپس لیتے ہوئے پاکستان کے عوام سے معافی
مانگے۔ شیخ مجیب الرحمن بننے کی کوشش نہ کرے ۔ مشرقی پاکستان بھارت کی سازش
سے علیحدہ کیا گیااور انشاء اﷲ جلد ہی وہ دن آنے والا ہے کہ مشرقی پاکستان
متحدہ پاکستان کی اکائی ہوگا۔ سندھ باب الاسلام ہونے کے ناطے مقدس سرزمین
ہے۔ سچے مسلمان اورر مخلص پاکستانی بنے۔ ملک کے عوام کو معلوم ہے کہ الطاف
کی سوچ کا تعلق دین اسلام سے ہے نہ انسانیت سے ہے۔ لوٹ مار، بھتہ خوری اور
قتل و غارت گری اور بے رحمی اسکی فطرت میں ہے۔ اس مرحلہ پر حکومت کی جانب
سے الطاف کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہ کرنا بھی تعجب خیز ہے۔ پاکستان کے
باغی کو انٹرپول کے ذریعہ واپس لاکر غداری کا مقدمہ چلا کر قرار واقعی سزا
دی جائے۔ پرویز مشرف نے حسب روائت حکومت سنبھال لی۔ کیونکہ ان سے پہلے بھی
جرنیل صاحبان حکومت کرتے رہے اور ان لٹیرے سیاستدانوں سے بہتر رہے۔ انہوں
نے اپنے دور اقتدار میں کسی موقع پر ایمرجنسی لگانا مناسب سمجھا تو لگادی۔
آئین کہاں ٹوٹا۔ وہ تو اپنی بہتر حالت میں موجود ہے بلکہ اسکو لگے بھدے
پیوند بھی اتار دیئے گئے ہیں۔ اس نے اپنے تئیں جنہیں شرانگیز اور ملکی
مفادات کے خلاف سمجھا انکے خلاف کاروائیاں بھی کیں ۔ انکے لیئے سپیشل عدالت
بنائی گئی۔ کہیں یہ عدالت بھی وہی تو نہیں جس نے پاکستان کے وزیر اعظم کو
سزائے موت دی؟ انصاف کی دھجیا اڑانے والے جج اﷲ کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔
اس موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا کیونکہ معاملہ عدات میں ہے۔خیر یہ ذکر
تو صرف اس لیئے کیا کہ الطاف نے جو ملک توڑنے کی بات کی وہ پرویز مشرف کے
اقدامات سے زیادہ مہلک ہے۔ موجودہ حکومت ، چیف جسٹس آف پاکستان اور افواج
پاکستان کے سالار اعلیٰ الطاف کے خلاف بلاتاخیر کاروائی کریں۔ |