معاملہ سابق صدر پرویز مشرّف کا۔۔۔؟

سابق صدر جنرل (ر)پر ویز مشّرف پر آ ئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس کے ڈراپ سین کا اندازہ لگانا کسی کے لئے مشکل نہیں لیکن اس ڈرامہ کے پیچھے جو محرکات اور مقاصد کا رفرما ہیں، شاید اس کا اندازہ بہت کم لو گوں کو ہے حکومت یا اس کے ہم نوا سیاستدان پر ویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلا کر جو مقاصد حاصل کرنا چا ہتے ہیں ، اس سے زیادہ نقصان دہ اور خطرناک وہ مقصد ہے جو پاکستان کے دشمن پاکستان کے آرمی چیف کو غدار ثابت ہو نے کے بعد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔موجودہ حکومت کے نا سمجھ حکمران پرویز مشرف کے ٹرائیل اور عدالت آ تے ہو ئے اچانک بیمار پڑ جانے کو اپنی ایک کامیابی سمجھتے ہو نگے کیو نکہ ایسا ہو نے سے میڈیا کی توجہ مہنگا ئی، لوڈ شیڈنگ،سی این جی کی بندش جیسے سنگین مسائل سے ہٹ کر پر ویز مشرف کی بیماری یا بیرونِ ملک جانے پر مرکوز ہو گئی ہے مگر انہیں اندازہ نہیں کہ پاکستان کے ایک سابق آ رمی چیف پر غداری کا مقدمہ قائم کرنے ، اسے غدار گرداننے سے کیا مسائل جنم لے سکتے ہیں ؟، ہم سب یہ جا نتے ہیں کہ 1999میں جب نواز شریف کی حکو مت تھی ،تو کس طرح یکے بعد دیگرے انہوں نے احمقانہ طریقہ سے آرمی چیف بدلے، معیشت کو کس طرح پامال کیاگیا،اور جب نواز شریف کی حکومت ختم کی گئی تو لوگوں نے خوشی میں مٹھائیاں تقسیم کیں لیکن جو بات زیادہ قابلِ ذکر اور قابلِ تو ّ جہ ہے ، وہ یہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999کو نواز شریف حکومت کو کس نے ختم کیا ؟ کس نے نواز شریف کو ہتھکڑیاں پہنا ئیں ؟ کس کے سامنے نواز شریف کا رنگ اڑ گیا تھا ؟ کس کے سامنے نواز شریف کا چہیتا سیف ا لرحمن روتا رہا ؟کیا پرویز مشرف نے نواز شریف کو گرفتار کر نے کا حکم دیا تھا ؟ یقینا جواب نفی میں ہے۔ نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کو جب گرفتار کیا جا رہا تھا تو پر ویز مشرف فضا میں تھے، ہو ائی جہاز میں سوار تھے، اس کے جہاز کو پاکستان میں اترنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی جس کی وجہ سے اسے جان کے لا لے پڑے ہو ئے تھے وہ اس پوزیشن ہی میں نہیں تھے کہ حکومت کے خلاف کو ئی ایکشن کرتے ،زمین پر جو بھی کا روائی کی گئی خواہ وہ جہاز کو بحفاظت لینڈ کرنے کے اقدامات تھے یا نواز شریف کوبمعہ ان کے ساتھیوں کے گرفتار کرنے کی کا روائی تھی ، سب کچھ ان کے ساتھیوں نے کیا، مگرکتنی عجیب بات ہے کہ آج غداری کا مقدمہ صرف اور صرف پرویز مشرف کے خلاف قائم کیا گیا ہے ۔مگر ہمیں شاید اس لئے یہ عجیب نہیں لگتا کہ ہم ماضی میں بھی یہی کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم نے قائدِ اعظم کے ساتھ ان کے زندگی کے آ خری دنوں میں کیا کیا؟ لیاقت علی خان کے ساتھ کیا کیا؟ سابق صدر ایوب خان کے ساتھ کیا کیا؟ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کیا کیا؟ ضیاء ا لحق کا انجام کیا ہوا ؟ گویا ہم نے اپنا یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہما را جو بھی حکمران تخت سے اترے گا، اس کو ہم تختہ تک لے جانے میں کو ئی کسر نہیں چھو ڑیں گے۔

اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ 12اکتوبر 1999کے اقدام کے خلاف نہیں بلکہ ۳ نومبر ۲۰۰۷ کے اقدام پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے جو اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت بعض لوگوں کو بچانا چاہتی ہے جبکہ ایک شخص کو تختہ دار تک پہنچانے کی مذ موم کو شش کر رہی ہے۔مذموم لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ انصاف نہ صرف ہو نا چاہئے بلکہ انصاف ہو تا ہوا نظر بھی آ نا چا ہئے ۔جبکہ اس کیس میں انصاف ہو تا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ،۔نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی بھی اس عجیب و غریب غداری کے مقدمہ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔اگر انصاف ہی کرنا ہے تو پھر بارہ اکتوبر1999سے بسم اﷲ کیجئے اور اس جمہو ریت کی بساط لپیٹنے والے تمام افراد خواہ وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان، سابق چیف جسٹس افتخا ر چو ہدری ہو یا پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج صا حبان ۔ سب کا ٹرائیل کیجئے اور جنہوں نے آئین توڑا ہو یا توڑنے میں مدد کی ہو ، سب کو تختہ دار تک پہنچا دیجئے۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر خدا را ! دشمنوں کے عزائم کو سمجھنے کی کو شش کیجئے جو پاک فوج کو بدنام کرکے کمزور کرنے کے درپے ہیں ، کیونکہ پاک آرمی ہی پاکستان کی سلامتی کی ضامن ہے جب تک پاک فوج اپنے پاؤں پر کھڑی ہے، کو ئی مائی کا لعل پاکستان کو توڑ نہیں سکتا ، بناء بر ایں دشمن کی یہ کو شش ہے کہ کسی طرح پاک آرمی کو بدنام کیا جائے اور کسی ملک کے لئے اس سے زیادہ اور کیا بد نامی کی بات ہو سکتی ہے کہ اس کے آرمی چیف کو غدار ثابت کرکے سزا دی جائے۔

مناسب ہو گا کہ مو جو دہ حکومت لاحاصل کو ششوں کی بجائے عوام کو درپیش مسائل کی طرف توجہ دے،عوام اس وقت مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری اور بد امنی جیسے عذاب سے دوچار ہے ، پرویز مشرف عوام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کو عوام نے ووٹ اپنے مسائل حل کرنے اورمشکلات میں کمی لانے کے لئے ووٹ دئیے ہیں لہذا نواز شریف کو اپنی تمام تر توجہ عوام کے مسائل کی طرف مرکوزرکھنی چا ہئے۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284940 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More