بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ’’رسوائی‘‘

ایک ماہ قبل ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بدعنوانی کے حوالے سے سالانہ رپورٹ 2013ء جاری کی تھی جس میں۔ صومالیہ، شمالی کوریا اور افغانستان دنیا کے بدعنوان ترین ممالک، پاکستان میں بہتری آئی جبکہ بھارت جوں کا توں رہا۔ ڈنمارک اور نیوزی لینڈسب سے کم کرپشن والے ممالک ہیں۔ فہرست میں شامل 177ممالک میں سے دو تہائی اب بھی 50 پوائنٹس سے نیچے ہیں۔ رپورٹ 177 ممالک کے لوگوں سے انٹرویو کے بعد مرتب کی گئی۔ بدعنوانی سے پاک ممالک کیلئے 100 نمبر رکھے گئے اور مندرجہ بالا ممالک نے اس میں صرف 8 پوائنٹس حاصل کئے۔ پاکستان 28 پوائنٹس کے ساتھ 127 ویں مقام پر ہے جبکہ بھارت 36 پوائنٹس کے ساتھ 94 ویں نمبر پر ہے۔ بھارت کو مسلسل دوسرے برس یہی سکور ملا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ برس کے مقابلے میں ایک پوائنٹ کی کمی ہوئی ہے۔ فہرست میں کہا گیا کہ اقتدار کا غلط استعمال، خفیہ سودے اور رشوت خوری عالمی سطح پر معاشروں کو برباد کررہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں افغانستان کی حالت سب سے خراب بتائی گئی ہے جسے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی فہرست میں 8 پوائنٹس ملے ہیں اور وہ فہرست میں 175 ویں مقام پر ہے۔ 100 پوائنٹس والے ملک کو تقریباً بدعنوانی سے پاک سمجھا جاتا ہے۔ سری لنکا بھارت سے بہتر پوزیشن میں ہے جسے فہرست میں 37 پوائنٹس کے ساتھ 91 واں مقام حاصل ہے۔ رواں سال پاکستان کرپشن زدہ ممالک کی عالمی رینکنگ میں 27 ویں سے 28 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ معمولی بہتری خوش آئند ہے، کرپشن کیسز میں سزائیں نہ ملنے سے اداروں میں من مانیاں جاری ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی صوبے نے کرپٹ وزراء کو فارغ کیا ہے۔ عدلیہ اور میڈیا کا کرپشن روک تھام میں اہم کردار ہے، بیرونی سرمایہ کار کرپشن کی وجہ سے پاکستان کا رخ کرنے سے کترانے لگے ہیں۔ یہ رپورٹ پاکستان نہیں بلکہ عالمی سطح پر تیار کی گئی دنیا کے ممالک کے درمیان کرپشن کی رینکنگ کے حوالے سے جاری ہوتی ہیں۔ رواں سال خوشگوار طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک درجہ کرپشن کم ہوگئی ہے۔ اس برس بنگلہ دیش بھی کرپشن میں ہم سے آگے رہا۔ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے منشور میں تو ابھی تک کرپشن کے حوالے سے بہت سخت اصول رکھے گئے جس کا عملی مظاہرہ خیبر پی کے حکومت میں شامل دو وزراء کو کرپشن ثابت ہونے پر فارغ کرنے کی صورت میں نظر آیا ہے۔ چین میں کرپشن کی سزا موت مقرر کی گئی ہے لیکن ہمارے ہاں اسے جرم سمجھا نہیں جاتا ہے، موجودہ حکومت کا ابھی تک کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا لیکن پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں غریبوں کے نام پر اپنے جیب بھرے گئے ،روٹی کپڑا اور مکان کے منشور کا نعرہ رکھنے والی پارٹی نے ’’کرپشن‘‘ کرنے کے لئے ایک ایسے منصوبے کو چلایا جس سے غریبوں کو تو ذلت ہی میسر آئی لیکن امراء کے خزانوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔پیپلز پارٹی حکومت کی جانب سے غریبوں کے لیے شروع کیے جانے والے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے منصوبے کی تشہیر پر 3.15 ارب روپے خرچ کیے گئے۔پارلیمنٹ کی جانب سے منظوری کے بعد اکتوبر 2008 میں قیام کے ساتھ ہی اس وقت کی پروگرام کی منتظم سابق رکن اسمبلی فرزانہ راجہ نے صرف ایک سال 2008-2009 کے درمیان پروگرام کی تشہیر پر 93 ملین روپے خرچ کر ڈالے۔سن 2009-2010 کے دوسرے مالی سال کے دوران اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات اور نجی ٹی وی چینلز پر اشتہاری مہم کی مد میں 65 ملین سے زائد رقم پانی کی طرح بہا دی گئی۔لیکن یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اگلے مالی سال یعنی 2010-2011 میں پیپلز پارٹی حکومت نے حاتم طائی کی سخاوت کے مزید ریکارڈ توڑتے ہوئے اشتہاری اخراجات کی مد میں 83 کروڑ سے زائد رقم لٹا دی۔اس حوالے سے ملکی معیشت پر سب سے زیادہ بھاری سال 2011-2012 کا ثابت ہوا جہاں اس منصوبے پر سب سے زیادہ رقم خرچ کی گئی اور 956 ملین روپے(97 کروڑ 60 لاکھ) کسی حکومتی ادارے کی جانب سے ایک مالی سال کے دوران کسی منصوبے کی تشہیر پر خرچ کی جانے والی سب سے بڑی رقم ثابت ہوئی۔پیپلز پارٹی حکومت کے آخری سال بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جہاں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اخبار کے صفحات اور قیمتی اوقات میں چینلز کی زینت بنا اور اس سال بھی غریبوں کے لیے دنیا کا بہترین پروگرام قرار دیے جانے والے اس منصوبے پر اشتہارات کی مد میں 609 ملین روپے کا خرچ آیا۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی موجودہ انتظامیہ کے سینئر آفیشل کا کہنا ہے کہ حالانکہ اس منصوبے کا مقصد ان گھرانوں کو وسائل کی فراہمی تھا جنہیں اپنے گزر بسر میں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن اس میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کرتے ہوئے امیر طبقے کی جیبیں بھری گئیں۔ ملک کی تاریخ میں آج تک کسی بھی ادارے کی جانب سے اشتہاری مہم پر اتنے بڑے پیمانے پر رقم خرچ کرنے کی مثال نہیں ملتی، صرف کسی منصوبے کی تشہیر پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس طرح کی جارحانہ اشتہاری مہم کی قطعا کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس پروگرام کا مقصد لوگوں کو فائدہ پہنچانا تھا۔ ان عوامی نمائندوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اس عوام الاؤنس کے سب سے زیادہ مستحق لوگ کون ہیں۔ اس پروگرام کے لیے ایک مہنگی اشتہاری مہم کی گئی جہاں تھوڑی سی احتیاط اور کام کی بدولت ان مہنگے اشتہاری بلوں کے بغیر باآسانی کام ہو سکتا تھا جن کی ادائیگی پروگرام کے اختتام پر کی گئی۔اس منصوبے پر اب تک 165 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں جس میں سے 85 فیصد ادائیگی حکومتی خزانے سے کی گئی، اس میں سے 15 سے 16 فیصد امداد کی مد میں ملنے والے پیسوں سے ادا کیے گئے جس کی حکومت پاکستان بعد میں سود سمیت ادائیگی کرے گی۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قانون دان موجودہ قومی اسمبلی میں بتدریج اس منصوبے کے فنڈ میں بد انتظامی کا معاملہ اٹھاتے رہے ہیں جس کے جواب میں حکومتی اراکین کی جانب سے پارلیمنٹ کو شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کی یقین دہانی کرائی گئی۔آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر نے 2010-2011 اور 2011-2012 کی رپورٹ میں بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں غیر ضروری اخراجات اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی تھی اور یہ معاملہ تاحال قومی اسمبلی کی پبلک اکانٹس کمیٹی کی توجہ کا منتظر ہے۔ن لیگ کا حصہ بننے والے پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر انور بیگ اس پروگرام کے موجودہ سربراہ ہیں۔ میڈیا کو دیے گئے اپنے مختلف بیانات میں وہ سابقہ انتظامیہ کی زیر نگرانی منصوبے کو ہونے والے مالی نقصان کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تمام دستیاب فورمز پر منصوبے کی مکمل تحقیقات کا ارداہ رکھتے ہیں۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اب تک کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے آ چکی ہے ‘ اس مد میں رکھی گئی رقم اگر بجلی پیدا وار کرنے کے لئے مختص کی جاتے تو ملک میں ایک سال کے لئے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جاتا جس سے صنعتیں چلتیں اور غریب آدمی کو روزگار کے مواقع میسر آتے۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں اربوں روپے ضائع کئے گئے حالانکہ ایک ہزار روپے سے کسی کے معیار زندگی میں کیا بہتری لائی جاسکتی ہے۔اس پروگرام سے جس طرح عوام کی تذلیل کی گئی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا،ایک ایک ہزار کے لئے سارا سارا دن خواتین کو لائنوں میں لگایا گیا تو دوسری طرف نوسربازوں کی بھی چاندی ہوئی انہوں نے بھی عوام کو لوٹا،اب موجودہ حکومت کو چاہئے کہ اس منصوبے کو شفاف اور احسن طریقے سے چلائے،انکم سپورٹ پروگرام کی رقوم گھروں تک پہنچائی جائیں تا کہ نو سربازوں کے ہاتھوں بھی عوام نہ لٹے اور رسوا بھی نہ ہو۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197465 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.