قسط نمبر 2۔ ایمانداری کی سزا

ہر محکمے میں ڈان موجود ہیں جو ان محکموں کے افسران بلا کو بھیڑ بکریوں کی طرح اپنی مرضی سے ہانکتے ہیں جو ان کے کالے قانون کے سامنے ڈیٹ جائے اسے دن دھاڑے نہیں بلکہ رات کے اندھیرے میں سو الزامات لگا کر باہر پھنک دیا جاتا ہے یہی کچھ پاکستان میں چیئر مین نادرا کے ساتھ ہوا ،کیونکہ اس نے (ن) لیک کے کہنے پر الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کو چھپانے سے انکار کر دیا تھا اس نے اپنے فرائض ایمانداری سے نبھانے کی بات کی تو سزا کے طور پر اسے بر طرف کر دیا گیا جو بعد میں عدالت نے بحال کر دیا ،اسی طرح چیئرمین نیب اور ،چیئرمین پیمرا کے ساتھ بھی ہوا کہ سچ بولنے اور اپنا کام آئین کے مطابق کرنے پر سزا دی گئی ان پر بہت سے چارچز لگا کر ان کو نوکری سے نکال دیا گیا مگر اﷲ ہمیشہ سچ اور ایماندار کا ساتھ دیتا ہے عدالت نے ان کو پھر سے اپنی نوکریوں پر بحال کر دیا ،انسان جب سچائی کے راستے پر نکلتا ہے تو اسے بہت سی مشکلات ،مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،ازمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے مگر وہ اکیلا نہیں ہوتا اس کے ساتھ اﷲ کی مدد ہوتی ہے اس کی دیانت اور سچائی کی طاقت اس کو خوار ہونے سے بچاتی ہے وہ چند لمحوں کے لئے پریشان تو ہو سکتا ہے مگر پھر ہمیشہ کے لئے سرخرو ہو جاتا ہے وہ طاقتیں ،وہ قوتیں وہ ڈان جو اپنی مرضی اپنی غلط خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنے کرتوت چھپانے کے لئے اپنا رعب دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فراعون بن جاتے ہیں اپنے اختیارات اور فرائض کا نا جائز استعمال کرتے ہیں وہ کچھ عرصہ تو اپنی چمک میں رہتے ہیں مگر پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے سیاہ اوراق کا حصہ بن جاتے ہیں دنیا ان کو ظالم کرپٹ اور سیاہ الفاظوں سے یاد کرتی ہے ان کی عبرت کا سبق سب کو بتاتی ہے جب کہ ان کے ظلم کا شکار ان کی فراعونیت کے ستائے ہمیشہ عوام کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں سنہری حروف ان کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔عام آدمی تو اس ملک میں مشکلات سے نہیں نکل پاتا اسے اپنی دال روٹی کی فکر سے فرصت نہیں ہوتی مگر وہ مقتدر طاقتیں جو اس ملک پر قابض رہی ہیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتی وہ ماضی کے نمرودوں کا انجام بھول جاتے ہیں وہ اپنے وقت کے خداوں اور موجودہ قیدوں ، بد نام زمانہ شخصیات سے سبق نہیں حاصل کرتے ،کل عوام دوستی کا نعرہ لگانے والی ن لیک کے رہنما آج ماضی کے ہٹلر سے بھی دس قدم اگے ہیں کل کی حکومت پر تنقید کرنے والی جماعت آج بر سر اقتدار ہے اس نے ضیاء،مشرف،اور زرداری کے دور حکومت کے سیاہ ترین فیصلوں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ،مہنگائی،لوڈشیڈنگ،قرضے ،امریکی غلامی،عوام دشمنی،بے روزگاری،اجاراہ داری ، وڈیرہ شاہی ،اپنی مرضی کے فیصلے،بے حسی لا پروائی،لا قانیت،دہشت گردی،یہاں تک کے غیریب کا نوالہ بھی چھین لیا اور رٹ وہی کے سب اچھا ہے وقت نے اگر ماضی کے خداوں کو معاف نہیں کیا تو ان کو بھی نہیں کرے گا اگر یہ من پسند لوگوں کی تعیناتی اور من پسند رزلٹ کاسلسلہ چلتا رہا تو مقتدر ،امیر اور قابض لوگوں کو تو فائدہ ہوگا مگر عوام جس کے نام پر یہ سب کچھ ہوتا ہے جس کے نام پر یہ فراڈ کئے جاتے ہیں وہ بتاہی بربادی کے آخری دہانے سے بھی گزر جائے گی اس وقت عوام کی جو حالت ہے وہ ان کو پتہ نہیں کہ ایک عام آدمی ،ایک مزدور ،کس طرح اپنی زندگی گزار رہا ہے ،وہ طاقت کے نشے میں مست اپنی ذات کو فائدے پہنچا رہے ہیں عوام کا انہیں کو ئی خیال نہیں کل جو کچھ انہوں نے دوسری حکومتوں کے خلاف کیا آج ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو رہا ہے ،آج یہ خود کو ملک کا وفادار اور آئین کا علمبردار سمجھ رہے ہیں یہ الفاظ ،یہی ردعمل ماضی کے حکمرانوں اور سپوک پرسن کا تھا ،ان کو اس بات سے ہی سبق سیکھنا چاہیے کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا ان پر بھی مشکل ترین وقت آیا مگر یہ کچھ نہ سیکھ سکے سوائے اس کے کہ جھوٹ بولتے جاو اور سب اچھا ہے کی رٹ لگاتے جاو،اداروں کے ملازمین کو سزا دینے یا ان کو برطرف کرنے سے ملک کے نظام ٹھیک نہیں ہو جاتے بلکہ ا س کے لئے دیانت داری ،ایمانداری سے کام کرنا ہوتا ہے،اگر ن لیک نے اپنی یہ روش جاری رکھی ماضی سے کوئی سبق نہ سیکھا تو آنے والا وقت اس کے لئے بھی رحم کی کوئی گنجائش نہیں نکالے گا۔ان کو عوام کے مسائل کی طرف توجہ دے کر مہنگائی اور بے روزگاری سے بچائیں نہ کے اپنی کرسیاں مضبوط کرنے میں اپنا ایمان اور اپنی پہچان بھی گنوا ئیں۔اقتدار میں آنے سے پہلے یہی لوگ عوام کے ہیرو تھے لوگ ان کو ملک کی قسمت بدلنے والا لیڈر سمجھتے تھے ،یہی سیاست دان دوسروں کا پیسہ ملک میں لانے کی بات کرتے تھے،یہی سڑکوں پر عوام کے ساتھ دھرنے دیا کرتے تھے ،مہنگائی اور بے روزگاری دہشت گردی،امریکی غلامی سے نجات کی بات کرتے عوام کو کشکول سے بچانے کی بات کرتے مگر آج یہ اپنی وہ ساری باتیں بھول گئے وہ عوام کا درد جو کل تو ان کو نظر آتا تھا اج ان کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔ایک لمحے کے لئے یہ سوچیں کہ جو کچھ یہ عوام اور اس ملک کے ساتھ کر رہے ہیں اگر کوئی اور حکومت کرتی تو ان کا کیا ردعمل ہوتا۔یہ کب تک اداروں کو کمزور کر کے ان کے ملازمین کو نکال کے یہ اپنی طاقت دیکھائیں گے،یہ کب تک اپنی بے وقوفیوں سے اپنے پاوں کاٹتے رہیں گے،عوام کے مسائل اگر حل نہ کئے اور یہی سب کچھ چلتا رہا تو ان کی اپنی حکومت ان کے گلے کی ہڈی بن جائے گی،اس لئے اپنی نیتیں صاف کر کے عوام ،ملک و قوم کی بہتری کے لئے کام کریں،دیانتداری پر سزائیں دینا چھوڑ دیں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69498 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.