سردار خالد ابراہیم خان جموں کشمیر پیپلز پارٹی
کے بانی ہیں یہ سابق صدر آزاد کشمیر غازی ملت سردار ابراہیم خان کے فرزند
ہیں ۔یہ بڑے ہیں کھرے،بے باک،سچے اور با اصول سیاستدان ہیں۔انکی سب سے بڑی
خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے حلقے کے اندر اپنے کسی ووٹر یا سپوٹر کے لیے آج تک
تھانے یا کچہری میں سفارش کرنے نہیں گئے۔حالانکہ آزادکشمیر کی سیاست میں جو
ممبر اسمبلی مقامی انتظامیہ پر گرفت رکھتا ہے یا جو تھانہ کچہری کلچر کو
فروغ دیتا ہے وہی الیکشن بھاری اکثریت سے جیت کر اسمبلی میں پہنچتا ہے۔لیکن
سردار خالد ابراہیم خان کی سیاست کا انداز اس کے بالکل بر عکس ہے یہ میرٹ
پر نوجوانوں کو آگے لانے کے خواہاں ہیں،یہ تھانے اور کچہری کے اندر پسند و
ناپسند کے آفیسر تعینات کرواتے ہیں اور نہ ہی کسی ملزم یا مجرم کی سفارش
کرتے ہیں یہ بااصول اور با کردار لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جب یہ دیکھتے
ہیں کہ انکے ساتھ چلنے والا قانون اور آئین کی خلاف ورزی کر رہا ہے یا قاعد
و ضوابط سے ہٹ کر چل رہا ہے تو یہ اسی وقت اس شخص سے کنارہ کشی اختیار کر
لیتے ہیں۔مسلم کانفرنس کے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں جب چار مرتبہ وزیر
اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے چار وزیر اعظم تبدیل کیئے گئے تو
سردار خالد ابراہیم خان نے منافقت کی اس سیاست کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے آزاد کشمیر اسمبلی سے مستعفی ہو کر رہتی دنیا تک اپنے اصول ،اور
خوداری کی ایک مثال قائم کی ہے ۔آزاد کشمیر کی موجودہ لیڈر شپ میں اگر میری
کوئی پسندیدہ شخصیت ہے تو وہ سردار خالد ابراہیم خان ،انکے بعد سابق وزیر
اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان،اور تیسرے نمبر پر چوہدری طارق فارق
ہیں راجہ فاروق حیدر خان اور سردار خالد ابراہیم خان اپنی دھن کے پکے انسان
ہیں یہ کبھی بھی بیک فُٹ پر نہیں جاتے لیکن چوہدری طارق فاروق کبھی کبھی
حالات کے پیشِ نظر ڈنڈی مار جاتے ہیں۔
میں یہ کالم نہیں لکھنا چاہتا تھا مگر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی اور
تاریخ سے نابلد لوگوں نے جو تاریخ کا کچومر نکالا اس کو دیکھ کر مجھ سے رہا
نہ گیا ۔ سردار ارشاد خان مرحوم کی سالانہ برسی کے موقع پر سردار خالد
ابراہیم خان کا بیان جو انھوں نے تحریک آزادی کشمیر کے بارے میں بات کر تے
ہوئے سردار عبدالقیوم خان پر کڑی تنقید کی یہ بیان آزادکشمیر کے اخبارات
میں شہ سرخی بنا اور وہاں سے ہوتا ہوا سوشل میڈیا تک پہنچ گیا۔ہر کسی نے
اپنے اپنے خیالات پیش کئے کوئی یہ بیان پڑھ کر کھل کر ہنسا ،کسی نے داد دی
،کوئی اپنی انگلی کو دانتوں میں دباتا رہا تو کوئی تاریخ کی گہرائی میں اتر
گیا۔مسلم کانفرنس کی قیادت کے خلاف بات کرنے والوں پر ’’مری ‘‘ والے ناراض
ہو جاتے ہیں اور ’’مر ی‘‘ والے جس پر ناراض ہو جائیں تو اس شخص کے لیے آزاد
کشمیر میں کوئی جگہ نہیں بچتی ،وہ یا تو کسی تھانے میں ہوتا ہے یا پھر ساری
زندگی وطن کے غدار کا لیبل ماتھے پر لیے پھرتا ہے اگر اس سے بھی بچ جائے تو
اسے راندہِ درگاہ بنا دیا جاتا ہے مگر سردار خالد ابراہیم خان نے جرآت مندی
اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور تاریخ کے اصل حقائق عوام کے سامنے رکھے مگر ۔
تحریک آزادی کشمیر کے لیے اچھا یا برا کردار ادا کرنے والے سردار عبدالقیوم
خان کے ساتھ انھوں نے اپنے والد محترم سردار ابراہیم خان کا نام نہیں لیا
حالانکہ کشمیریوں کو غلامی کی اس چکی میں ڈال کر تیسری نسل تک اقتدار کے
مزے لوٹنے والے سردار عبدالقیوم خان کے ساتھ اس’’ کا رِ خیر ‘‘ میں سردار
ابراہیم خان،چو ہدری غلام عباس،اور کے ایچ خورشید برابر کے شریک تھے
۔کیونکہ قیام پاکستان کے وقت جب آزادی کی تحریک چلی تو شیخ عبداﷲ پاکستان
تشریف لائے اور قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کا ٹائم مانگا مگر
،سردارابراہیم خان،اور چوہدری غلام عباس اور کے ایچ خورشید کی ملی بھگت کے
ساتھ شیخ عبداﷲ کو دو دن تک قائد اعظم کے ساتھ ملاقات نہ کرنے دی اور ہر
جگہ پر روڑہ اٹکایااور شیخ عبداﷲ رنجیدہ ہو کر واپس سرینگر گئے اور بھارت
کے ساتھ الحا ق کا نعرہ لگا دیا۔اسکے بعد کیا ہوا یہ سب کشمیر ی اچھی طرح
جانتے ہیں سردار ابراہیم خان اور سردار عبدالقیوم خان ایک دستے کی قیادت
کرتے ہوئے سرینگر بھی جا رہے تھے مگر مقبوضہ پونچھ شہر سے ملحقہ ضلع حویلی
کے گاؤں دیگوار پہنچ کر انکی میٹنگ ہوئی اور طے پایا کہ اگر سرینگر اور
جموں بھی پاکستان میں شامل ہو گئے تو ہمیں کون پوچھے گا لہذا طے پایا کہ اس
پار ہم اور اُس پار تم اور شیخ عبداﷲ کے ماتھے پر غداری کا لیبل لگا کر خود
واپس آ گئے۔(اس میٹنگ کے چشم دید گواہ آج بھی زندہ جاوید ہیں )۔حال ہی میں
سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے شیخ عبداﷲ کے نظریات کو
صحیح قرار دے کر اپنے والد محترم کی اس غلطی کاازالہ تو کر دیا تھا مگر
انکے اس بیان نے کشمیری قوم کے سر شرم سے جھکا دیئے تھے اور ساتھ ہی ساتھ
تحریک آزادی کشمیر کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے دو لاکھ سے
بھی زائد شہداء کی روحوں کامذاق اڑایا تھا)۔پھر ان یک روزہ جہاد کے مجاہدوں
اور بغیر جنگ کے غازیوں نے ملی بھگت سے اقتدار کے خوب مزے لوٹے ایکٹ 74 کی
دستاویزات پر دستخط کر کے کشمیر کا رہا سہا حصہ گلگت بلتستان بھی پاکستا ن
کے قدموں میں ڈال دیا اور خود ’’مجاہد اول‘‘ اور ’’غازی ملت‘‘ کا اعزاز لے
کر باقی ماندہ آزاد کشمیر پر مسلط رہے ۔انکی باہمی رضامندی اور ملی بھگت ہی
کا نتیجہ ہے کہ آج دھیر کوٹ میں سردار عبدالقیوم خان کا آبائی گاؤں’’جولی
چڑھ‘‘ غازی ملت کے نام سے منسوب ہو کر ’’غازی آباد‘‘ جبکہ راولا کوٹ میں
سردار ابراہیم خان کا آبائی گاؤں ’’پھجڑ ‘‘ مجاہد اول کے نام سے منسوب ہو
کر ’’ مجاہد آباد‘‘ بن گیا ہے جو رہتی دنیا تک کشمیریوں کی غلامی بے بسی و
بے کسی کا منہ چڑھاتا رہے گا۔اور پھر نیلہ بٹ کا وہ ڈرامہ جس میں یک روزہ
جہاد اور اس جہاد کے لیے چلنے والی پہلی گولی تاریخ کی سب سے مہنگی گولی
ثابت ہوئی۔جس کی قیمت وصول کرتے کرتے 67 سال گزر گئے۔چالیس سال مسلم
کانفرنس نے اقتدار میں گزارے عوام کا ہر طریقے سے استحصال کیا۔ظلم و جبر کا
بازار گرم کیئے رکھا،لوگوں کے بنیادی حقوق تک چھین کر انہیں بھکاری بنا کر
پوری دنیا کے سامنے پیش کیا فنڈز لیے اور اپنی تجوریاں بھریں،قوم کو تعلیم
سے دور رکھا ،ہسپتال اور سکول آج تک برائے نام ہیں،زکام اور بخار کے علاج
کے علاوہ اور کوئی علاج آزاد کشمیر کے کسی ہسپتال میں ممکن نہیں تھا ۔ایم
ایچ اور سی ایم ایچ آرمی کے کنٹرولڈ ادارے تھے جہاں سویلین کو بھی علاج کی
سہولت کسی حد حاصل تھی ۔یوں نیلہ بٹ سے چلنے والی پہلی نام نہاد گولی کے
عوض پوری کشمیری قوم کا چالیس سال اقتدار میں رہ کر اور مجموعی طور پر 65
سال تک استحصال کیا اور گولی کی قیمت بھی خوب وصول کی،پچھلے دنوں کسی منچلے
نے سوشل میڈیا پر عالمی دنیا سے مطالبہ بھی کیا تھا کہ نیلہ بٹ کے یک روزہ
جہاد اور دنیا کی مہنگی ترین گولی کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا
جائے۔تاہم ابھی تک بھی ’’مجاہد اول‘‘ کہتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کا مستقبل
روشن ہے۔ہو گا جی لیکن صرف ’’جولی چڑھ‘‘ کی حد تک۔میں نے اپنی پوری عمر میں
جب بھی ’’مجاہد اول ‘‘کا کوئی بیان پڑھا ،یا کوئی تقریر سنی تو انھوں نے
صرف یہی کہا کہ مسئلہ کشمیر نازک موڑ پر کھڑا ہے،یا پھر یہ کہا کہ مسئلہ
کشمیر بہت جلد حل ہو جائے گا،کتنا جلد یہ معلوم نہیں لیکن ایک بات ہے کہ
انھوں نے مسئلہ کشمیر کو جس نازک موڑ پر لا کر کھڑا کیا اور چالیس سال تک
بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لوٹے مسئلہ کشمیرآج تک اُسی نازک موڑ پر کھڑا
ہے نہ آگے جانے دیا اور نہ پیچھے ۔اور67 سال بیت گئے یہ بات سنتے سنتے اب
کشمیری قوم بھی کنفیوژن کا شکار ہو گئی ہے اور ہر عام آدمی بھی یہ سوچنے پر
مجبور ہے کہ اس ناز ک موڑ سے مسئلہ کشمیر آگے کب بڑھے گا ۔اب پہلی گولی بھی
متنازع بن چکی ہے ۔آپ نیلہ بٹ جائیں پہلی گولی وہاں سے چلی،آپ جنجال ہل
پلندری جائیں پہلی گولی وہاں سے چلی۔آپ واپس باغ ہڈاباڑی آ جائیں پہلی گولی
وہاں سے چلی حتیٰ کہ آپ جس پوائنٹ پر مرضی چلے جائیں وہاں ہر آدمی کی اپنی
سیاسی دکان اور دعویٰ ہے کہ پہلی گولی اس نے یا اسکے آباؤ اجداد میں سے کسی
نے چلائی ہے اب اس پہلی گولی کو ڈھال بنا کر یہاں کیا کیا ہوا سب کے سامنے
ہے۔قوم کو صرف اور صرف جھوٹ پر مبنی تاریخ پڑھائی گئی۔کسی نے بھی قوم کو سچ
سے آگاہ نہیں کیا۔ مجھے اپنی کشمیری قوم کے بڑوں کے اصل حقائق ان الفاظ میں
پیش نہیں کرنے چایئے تھے مگر کیا کروں ؟میں تاریخ کو مسخ نہیں کر سکتا۔آج
سے پچاس سال یا سو سال بعد کوئی مورخ جو صحیح تاریخ لکھنے والا مورخ ہو
گاجب وہ تاریخ لکھے گا اور جب وہ میرے یہ الفاظ پڑھے گا یا آنے والی نسلوں
میں سے کوئی پڑھے گا تو یقینا وہ یہ سچ ضرور لکھے گا اور یہ بات پورے وثوق
سے کہے گاکہ منافقت اور مفادات کی اس سیاست اور رسوم ورواج اور برادری ازم
اور علاقائی تعصب سے لبریزاس معاشرے میں سچ لکھنے والا بھی کوئی تھا۔ |