بھارت میں عام آدمی پارٹی کی جانب سے چنے گئے
دہلی کے وزیر اعلی کیجریوال کی کامیابی اور کارناموں کی دھوم چہار جانب
سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔یعنی وہ کہنے کی حدتک کام نہیں کررہے بلکہ اپنے
کہے ہوئے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے جارہے ہیں انہوں نے ایوان سے 70 میں سے
37 ممبران کا اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرلیاہے اور بی جے پی اور کانگریس کی
کارکردگی پر سوالیہ نشانات کی ایک لمبی لائن چھوڑ دی ہے۔بھارت کی عام آدمی
پارٹی کے وزیر اعلی نے اپنے عہدے پر براجمان ہونے کے بعدچین کی بانسری نہیں
بجائی اور نہ ہی وزیروں مشیروں کی ایک فوج تیار کی بلکہ مسائل اورمعاملات
کے حل کیلئے خود ہی کمر کس لی۔عوام کو ریلیف دینے کیلئے پانچ چھ دنوں میں
وہ کردکھایا جو کہ انڈیا کی تاریخ میں شاید کبھی کسی نے کیا ہو۔بجلی پر
سبسڈی دینے کا کارنامہ اور صاف پانی کی ترسیل کے حوالے سے اقدامات ان کی
کارکردگی پرچار چاند لگا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاست کو صاف
شفاف بنانا ہے۔ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرنا ہے۔لال نیلی بتی والی گاڑیوں
کا کلچر ختم ہونا چاہئے۔ ان کے مطابق جنہوں نے کام کرنا ہوتا ہے ملک و قوم
کی خدمت کرنا ہوتی ہے وہ بغیر کسی کے انسٹرکشن کے کام کررہے ہوتے ہیں۔انہیں
کام کے کرنے کا کہنے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔لیکن جو لوگ ہٹ دھرم کام چور
اور فرائض سے پہلوتہی برتنے والے ہیں۔فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں
رشوت اور کمیشن کے دلدادہ ہیں ان کے لئے ہمارے شہر، ضلع ،صوبہ اور ملک کی
زمین تنگ ہونے والی ہے۔بلاامتیاز و بلا تفریق سب کا احتساب ہوگا۔negligency
دکھانے والے کو چاہے میرا بھائی رشتہ دار یا عزیز ہی کیوں نہ ہو اس کو
بھگتنا پڑے گا۔ اسے نشان عبرت بنادونگا۔لہذا اس قماش کے سب لوگ اپنے قبلے
درست کرلیں۔عام آدمی فیصلہ کریگا کہ ان کی جانب سے کئے گئے اقدامات ان کی
فلاح و بہبود کیلئے کارآمد ہیں یا نہیں۔
ویلڈن ! وزیر اعلی کیجریوال نہ یہ ثابت کر دیکھایا ہے کہ انسان اگر کچھ
کرنا چاہے۔ملک وقوم کو سنوارنا چاہے تو پھر لیم ایکسوز(Lame Exceuse)کام
نہیں آتے ۔بھئی جو کام عوام کی فلاح وبہبو د میں فی الفور کیے جاسکتے ہیں
ان کو تو کم از کم پایہ تکمیل کو پہنچا دیا جائے۔ ڈیم بننے اور بنانے میں
ٹائم لگے درست۔بجلی کی پیداوار بڑھانے میں ٹائم لگے گا درست، دہشت گردی پہ
قابو پانے کیلئے وقت درکار ہے درست مان لیا۔ انڈسٹری لگانے ، کارخانے بنانے
میں ٹائم فریم کار فرما ہے درست۔لیکن! لیکن! کیا مہنگائی کو کم کرنے کیلئے
بھی ٹائم درکار ہے ،بے روزگاری کم کرنے کیلئے کس چیز کا انتظار ہے؟ کشکول
توڑنے کی ہمت کیلئے کونسا ہتھوڑا لانے کی ضرورت ہے، ڈرون گرانے کیلئے کیا
امر مانع ہے؟رشوت، کرپشن کو ختم کرنے کیلئے کس پیمانے کی ضرورت ہے ۔کونسی
پارٹی اور کمیٹی کی تشکیل ہونا ہے ۔گیس،بجلی ،پٹرولیم کی آسمان کو چھوتی
قیمتوں کو کون کنٹرول کریگا۔تعلیم کو عام کرنے کیلئے ، صحت کو بنیادی
سہولیات دینے کیلئے کون سے لوگ درکار ہیں۔اسی طرح ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس،
وزائے اعلی ہاؤسز، سیکریٹریٹ، پارلیمنٹ ہاؤس، لاجز وغیرہ میں کام کرنے پر
تعینات بے کار اور نام نہاد ملازمین کی فوج ظفر موج کو کم کرنے کی طرف توجہ
کیوں نہیں دی جاتی۔ان تمام ہاؤسز کے بے جا اخراجات پر قدغن کیوں نہیں لگ
سکتی؟ پروٹوکولز پر اٹھنے والے شاہی اخراجات کم کرنے کیلئے کس کی اجازت
درکار ہیں۔ بیرون ملک دورہ پر جانے کیلئے طائفے کلچر ختم کردینے میں کیا
قباحت ہے۔ صدر ہاؤس کیلئے پندرہ لاکھ کی پینٹنگ خریدنے کی کیا مجبوری ہے؟
ہاں! یہ سب کام کرنے کیلئے آپ کے پاس لوگ موجود ہیں ۔صرف ان کو استعمال
کرنے کی ضرورت ہے۔ان کو سدھانے اور سدھارنے کا عمل درکار ہے۔اگر یہ لوگ کام
نہیں کرسکتے ہیں وزیر ومشیر نااہل ونالائق ہیں تو صرف ان کو ’’سکون ‘‘کیلئے
گھر بھیج دیا جائے ۔پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار !کچھ تو ہوش کے ناخن
لے لو۔ اپنے ہمسایوں سے سبق حاصل کر لو ۔جو کام تم چھ ماہ ،چھ سال ،ساٹھ
سالوں میں نہ کرسکے وہ چھ دنوں میں کرنے جارہے ہیں ۔وہ بھی گوشت پوست کا
انسان ہے اس کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے۔اس کے جذبات واحساسات یقینا اسے
اکساتے ہونگے اس کے عزیز واقربا بھی ہیں ان کی خواہشات بھی ہیں ۔لیکن اس نے
ان تمام باتوں کو پس پشت ڈال کر وہی کیا ہے کہ جس کا اس نے اپنی عوام سے
وعدہ کیا تھا ان کے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس نے ان کے
اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش نہیں کی ۔ان کے جذبات واحساسات پر اپنے
جذبات و خواہشات کو قربان کردیا۔ اپنے ملک وعلاقے کی عوام کے سامنے سرخرو
ہوگیا۔ ابھی تو ابتدا ہے ۔ جبکہ مملکت خداداد میں وزیر مشیر تو دور ایک
یونین ناظم یا کو نسلر کے عزیز واقربا سنبھالے نہیں سنبھلتے ۔خاندان کے
خاندان اپنے آپ کو ناظم اور کونسلر گردانتے ہوئے ملکی قانون کو روندتے
دکھائی دیتے ہیں ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملازمین حتی کہ افسران تک
کو جرات نہیں ہوتی کہ ان سے باز پرس بھی کرسکے سزا تو درکنار ۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ کہتے تھے کہ کاش ہمارا وزیر اعلی بھی شہباز
شریف جیسا ہو۔جو ہماری فلاح و بہبود کیلئے کام کرے۔ لیکن اب حالات پھر اپنی
پرانی ڈگر پر آرہے ہیں۔ کیا عوامی خدمت کے جذبات کا دریاپرسکون ہونے جارہا
ہے؟کیوں ملک و قوم کی فلاح پر سیاست غالب دکھائی دے رہی ہے؟براہ کرم ایسا
مت کیجئے اور خلق خدا اور ملک و قوم کی بقا و فلاح کیلئے پھر سے اپنی ہمت
جتائیے اور عام آدمی کی فلاح کیلئے کام کیجئے۔ |