بد قسمت عوام

زمانہ قدیم کی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس ایک غلام تھا وہ آدمی خود توچَھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتا مگر اپنے غلام کو ِاسی آٹے سے نکلا ہوا چھلور کھلا تا تھا چھلور کھا، کھا کر وہ غلام اپنے مالک سے بہت تنگ تھا اسی بنیاد پر اس نے مالک سے اپنے آپ کو فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا اس کی خواہش پر اس کے مالک نے اسے فروخت کر دیا اب جس آدمی کے پاس وہ پہنچاوہ خود چھلور کھاتا اور اس اس میں سے بچ جانے والے بھوسے کی روٹی غلام کو کھلاتا وہ غلام وہاں بھی تنگ آگیا اور اپنے فروخت کر دینے کا مطالبہ کر دیا اب کی بار وہ فروخت ہو کر جس کے پاس پہنچا وہ نہ خود کچھ کھاتا اور نہ ہی اسے کچھ کھانے کو دیتا الٹامالک نے اس کا سر منڈواکر اس کوچراغ کے رکھنے کی جگہ بنا دیا جہاں وہ رات کے ہوتے ہی چراغ میں بتی جلا کے اس کے سر پر رکھ دیتا یہاں رہتے ہوئے اسے کافی عرصہ ہو چکا مگر اس نے اپنے فروخت کر نے کا مطالبہ نہ کیا اس کے جاننے والوں نے جب وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میں اس وجہ سے چپ ہوں کہ کہیں میرا اگلا مالک ایسا نہ ہو جومیری آنکھ میں تیل ڈال کر اس میں آگ لگا کر بطور دیوا استعمال نہ کرئے اس خوف سے میں نے اپنے فروخت کرنے کا مطالبہ نہیں کیا یہ تو ایک کہانی تھی جو آپ نے سنی اور کئی بار پڑھی بھی ہوگئی اس کو قسمت کہتے ہیں کئی بار انسان کی قسمت اچھی ہوتی ہے تو اس کے کام خود بخود سنور جاتے ہیں مگر اگر قسمت اچھی نہ تو کئی ایسے کام جو اچھے ہونے چاہیے برے ہو جاتے ہیں بات کی جائے پاکستان کے عوام کی قسمت کی تو وہ کافی بد قسمت ہی ثابت ہوئے ہیں نوئے کی دہائی کے بعد پاکستانی عوام میں اپنے حقوق کے حصول کی جدو جہد کا آغاز ہوا جس کی بنیادی وجہ رسائل جرائد اور اخبارات وغیرہ تھے جن کو لکھنے لکھانے اور پبلش کرنے میں کچھ آزاد کیا گیا اس میں تیزی اس وقت آئی جب 2006میں سابق صدر جنرل مشرف نے نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس دینے شروع کیے بات ہو رہی تھی قسمت کی تو پاکستانی ہر بار اپنی قسمت کو بنانے کے لئے کچھ نہ کچھ قربانی دیتے آئے ہیں مگر اس قربانی کا صلہ نہ ان کو کھبی ماضی میں ملا ہے اور نہ کھبی مستقبل میں ملنے کی امید ہے اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی جمہوری حکومت آتی یا جاتی ہے تو عوام مٹھائیاں تقسیم کرتے نظر آتے ہیں کھبی عوام آمریت کو خوش آمدیدکہتے نظر آتے ہیں ان سب کے پیچھے اگر دیکھا جائے تو وہ ان کے وہ ارمان ہیں جنھیں وہ کسی بھی حکومت سے پورے ہونے کی توقع کرتے ہیں سابق دور حکومت میں عوام کے صبر کا جو امتحان لیا گیا اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اسی غلام کی طرح اپنے فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا مگر اب کی بار حکومت جس طرح سے ان کا متحان لے رہی ہے اس کے آگے نہ بولنے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ایسا نہ ہو اگلی باری آنے والا حکمران ان کی چمڑی اتارے لے اور رات ،رات بھر ان کو کھڑا رکھنے کا اعلان کر دے بعض اوقات ہم اپنے اچھے دنوں کے لئے کوشش کرتے ہیں کہ شاید اگلی بار کوئی اچھا حکمران نصیب ہو جائے اور ہمارے حالات اچھے ہو جائیں مگر ہر بار ایسا کیا ہوتا ہے کہ ہمارے وہ حالات جو پچھلی بار کچھ بہتر تھے اگلی باری میں اور بھی خراب ہو جاتے ہیں یہاں ایک قول حضرت شیخ سعدی کا بیان کرتا چلوں کہ حضرت فرماتے ہیں کہ اگر تم نے ملک حا لات کو خراب کرنا ہے تو حکمرانی کے منصب پر کسی صنعتکار (بزنس مین ) کو بٹھا دو ،یہاں اس قول کو بیان کرنے کا مقصد کسی کی ذات کو نشانہ بنانا ہر گز نہیں بلکہ یہ اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ آج ہم اپنی چاروں طرف نظر پھیر کے دیکھ لیں کہ ہمارے کتنے حکمران ہیں جو صنعتکار ہیں جو سرمایہ دار ہیں جو تاجر ہیں ایسے لوگ جب ملکی حکمرانی میں قدم رکھتے ہیں تو ان کے لئے سب سے پہلے عوام نہیں بلکہ اپنا کاروبار ہوتا ہے اور اسی لئے وہ پہلے عوام کے لئے نہیں بلکہ اپنے کاروبار کے لئے اپنے منافع کے لئے سوچتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ملکی حالات ایسے ہو جاتے ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے مہنگائی کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں اور حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔آپ خود سوچیں کہ جب بھی عوامی افادیت کا کوئی بل غلطی سے اسمبلی میں پیش ہو جائے تو یہ لوگ (اثر رسوخ والے)اسے روکوا لیتے ہیں اور اگر اسی اسمبلی میں ان کے لئے مراعات کا بل پیش ہو جائے تو حکومت تو حکومت اپوزیشن بھی اس کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آ تی ہے جب کسی ملک میں ایسا ہوتا رہے گا تو کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہاں کے معاشی ،معاشرتی اور اقتصادی، حالات بہتر ہوں ایسے میں تو عوام کا بھوکا مرنا لازمی ہو جائے گا اب جس نہج پر حالات پہنچ چکے ہیں عوام تو اپنے فروخت کر دینے کا مطالبہ بھی نہیں کر سکتے کیونکہ پچھلے ساٹھ، ستر سالوں سے وہ جب بھی فروخت ہوئے اگلے مالک نے ان کی وہ درگت بنائی کے وہ سابق مالک(حکمران ) کو نئے والے مالک (حکمران )سے بہتر تصور کرنے لگے تاریخ اس بات کی گواہ ہے اور یہی سب سے بڑی وجہ ہے جب بھی کوئی جمہوری حکومت آئی عوام نے مٹھائیاں تقسیم کی جب اس کا تختہ الٹا گیا عوام نے مٹھائیاں تقسیم کی جب بھی کو آمر آیا عوام نے مٹھائیاں تقسیم کی جب کو ئی آمر گیا عوام نے مٹھائیاں تقسیم کی ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے عوام کو بھی اپنا مستقبل اسی غلام کی طرح نظر آتا ہے جو اپنے نئے مالک (حکمران ) کے اچھے ہونے کی امید میں تاریکی کی طرف چلا گیا کیونکہ جب ہمارے حکمران ہی پاکستان کے لئے پاکستانی مظلوم عوام کے لئے نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا ۔

اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں اس کے لئے ضروری ہے کہ کھانے پینے اور روز مرہ کی اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس میں کمی کی جائے جو مہنگائی کو بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ہے روزمرہ کی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال پر لایا جائے پرائس کنٹرول کمیٹیاں فعال کی جائیں تاکہ مہنگائی کی اس بے رحمانہ لہر کو کم کیا جا سکے غریب مہنگائی کی چکی میں نہ چاہتے ہوئے پس رہا ہے اس کو بھی چین و سکون میسر ہو سکے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227149 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More