عدالت کا کٹہرا

پاکستان میں آزاد عدلیہ کی کہانی آزادیِ نسواں سے ملتی جلتی ہے جس میں آزادی کے بعد واپسی کا کوئی امکان نہیں ہوتا ۔آزادی حاصل کرنے کے بعد کون ہے جو حاصل کردہ آزادی کو لوٹاناچا ہے گا ؟ عدلیہ کی آزادی کا نعرہ پوری قوم کے دل کی آواز تھی اور اس کیلئے قوم نے تاریخی جدوجہد کی تھی اور جب تک اسے آزاد نہ کروا لیا چین سے نہیں بیٹھی۔اس راہ میں اسے سخت آزمائشوں سے بھی گزرنا پرا لیکن اس کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔ عدلیہ تو آزاد ہوگئی لیکن عدلیہ کو خود سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کرے تو کیا کرے؟۔کبھی انتظامی امور میں مداخلت کرتی ہے، کبھی حکومتی اختیارات میں مداخلت کرتی ہے، کبھی اشیاء کی قیمتیں مقرر کرتی ہے، کبھی سی این جی گیس کی بندش کے خلاف فیصلے صادر کرتی ہے اور کبھی قیمتیں بڑھانے کے احکامات کو رد کر دیتی ہے۔ عدلیہ کی اس مہم جوئی کو روکنا اب کسی کے بس میں نہیں ہے کیونکہ عدلیہ نے ایک دفعہ اپنے جن اختیارات کو مجتمع کر لیا ہے اب عدلیہ ان اختیارات کو کسی بھی حالت میں واپس کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔جنرل پرویز مشرف کے خلاف موجودہ مقدمہ بھی عدلیہ کی اسی آزادانہ روش کا شاخسانہ ہے کیونکہ اس مقدمے کو قائم کرنے کا حکم چیف جسٹس آف پاکستان افتحار محمد چوہدری کی عدالت نے دیا تھا جس کی جنرل پرویز مشرف سے مخاصمت سے دنیا آگاہ ہے۔یہ بات تو کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ پی پی پی کے پانچ سالہ دور ِ حکومت میں عدلیہ اور حکومت کے درمیان سنگین کشیدگی رہی لیکن میاں برادران مزے سے حکومت کرتے رہے اور کسی نے ان کی جانب دیکھنے کی زحمت بھی گورا نہ کی حالانکہ میاں برادران کے خلاف بھی بہت سے مقدمات عداتوں میں زیرِ سماعت تھے۔ میا ں شہباز شریف ایک حکمِ امتنا عی ( سٹے آرڈر) پر پا نچ سال حکومت کر گئے جبکہ پی پی پی کے وزیرِ اعظم یوسف ر ضا گیلانی کو اپنی وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے ۔دوسرے وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کو بھی سولی پر لٹکائے رکھا گیا ۔وہ خط جس کا تین سالوں تک ڈ ھول پیٹا گیا اس سے کوئی بھی مثبت نتیجہ بر آمد نہ ہوسکا۔ سوئیس عدالتوں میں پڑے ہوئے وہ ڈالرز جن کی کہانیاں سن سن کر پاکستانی عوام کے کان پک گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہ نکالا جا سکا حالانکہ عوام کی خواہش تھی کہ سوئیس عدالتوں میں پڑ ے ہوئے ڈالر ملک میں آئیں تا کہ اس کی معاشی حالت بہتر ہو ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ میں پی پی پی کا دفاع کر رہا ہوں بلکہ میں تو اپنی آزاد عدلیہ کے رویوں کی بات کر رہا ہوں۔ بات اس اصول کی ہے جس کی توقع عدلیہ سے رکھی جا رہی تھی اور جس کا اس نے قوم سے وعدہ کیا تھا اسے عدلیہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔افتحار محمد چوہدری کے بیٹے ارسلان افتحار چوہدری کو تو حکم ِ امتناعی بھی مل جاتا ہے اور ا س کا مقدمہ بھی ٹھپ کر دیا جا تا ہے لیکن دوسروں کے ساتھ کھلے عام انتقامی رویوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔آزاد عدلیہ کے اسی طرح کے یک طرفہ رویے تھے جن کی وجہ سے افتحار محمد چوہدری کے سارے حامی عدلیہ کے جانبدارا نہ رویوں سے دل برداشتہ ہو کر اس کا ساتھ چھوڑتے چلے گئے جن میں بیرسٹر اعتزاز احسن،اطہر من اﷲ ۔سردار لطیف کھوسہ،عاصمہ جہانگیر اورعلی محمد کرد جیسے وکلا بڑے نمایاں تھے۔ عدلیہ کی آ زادی کی جنگ لڑنے والے یہ نامور وکلا ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ افتحار محمد چوہدری کی عدالت سے غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچااور عدلیہ کو جس طرح کے انصاف پسندانہ رویوں کا اظہار کرنا چائیے تھا وہ اس میں ناکام ہو ئی ہے۔

ایک بات جس کا آج کل بڑا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ۳ نومبر ۲۰۰۷؁ کی بنیاد پر محض اس لئے دائر کیا گیا ہے کیونکہ ۳ نومبر۲۰۰۷؁ کا اقدا م پارلیمنٹ سے توثیق شدہ نہیں تھا جبکہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹؁کے اقدام کی پارلیمنٹ نے توثیق کر دی تھی اور توثیق شدہ اقدام میں ساری پارلیمنٹ ملوث ہوتی لہذا پوری پارلیمنٹ کو سزا نہیں سنائی جا سکتی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی شب خون کی پارلیمنٹ توثیق کر دے تو کیا وہ شب خون جرم نہیں رہتا؟در اصل عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اس طرح کی کہانیاں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے دہرائی جا رہی ہیں جو کسی زمانے میں جنرل ضیا الحق کی حاشیہ بردارہوا کرتی تھی۔جنرل ضیاالحق نے۵ جولائی ۱۹۷۷؁کو ذولفقار علی بھٹو کی آئینی حکومت کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا تھا جسے نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے جائز قرار دیا تھا جبکہ آٹھویں ترمیم کے تحت ان اقدامات کی توثیق پارلیمنٹ نے بھی کر دی تھی۔ جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں ہی ذولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا ڈرامہ بھی رچایا گیا تھا ۔ابھی تو اس قتل کا بھی حساب ہونا باقی ہے کیونکہ اس عدالتی قتل کی ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں زیرِ التوا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ ا۔یسے حقائق منظرِ عام پر آجائیں اور کئی ایسے چہرے بھی بے نقاب ہو جائیں جھنیں سزا بھی ہو جائے ۔میاں برادران بھی اس میں ایک اہم فریق ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی تو جنرل ضیا الحق کے منہ بولے بیٹے تھے ۔قدم بڑھاؤ نواز شریف کا نعرہ شائد اس وقت کام نہ آسکے گا۔اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ میاں برادران کو جنرل ضیا الحق ہی سیاست میں لایا تھا لہذا میاں برادران کی پوری کوشش ہو گی کہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھا یا جائے جس سے ان کے گلے میں بھی پھندا ڈالے جانے کا امکان پیدا ہوجا جائے اور شائد یہی وجہ ہے کہ میاں برادران ۱۲ اکتوبر۱۹۹۹؁ سے بدکتے ہیں۔ اگر میاں برادران ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹؁ کے شب خون پر مقدمہ دائر کرتے ہیں تو اس بات کے قوی امکانات ہوں گئے کہ میاں بردران بھی مستقبل میں اس فیصلے کی زد میں آ جائیں لہذا یہی فیصلہ کیا گیا کہ ۱۲ اکتوبر کی بجائے ۳ نومبر۲۰۰۷؁ کی ایمرجنسی کو کو بنیاد بنا کر جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے تا کہ اپنے ملوث ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جائیں۔

۳ نومبر ۲۰۰۷ ؁سے غداری کے مقدمے کا ایک مقصد ان ججز کو بچانا ہے جھنوں نے جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو آئینی جواز مہیا کیا تھا۔ میاں برادران کے ساتھ عدلیہ نے ہمیشہ مصالحانہ اور دوستانہ رویہ اپنایا اور بوقتِ ضرورت انھیں آ کسیجن مہیا کرتے رہے ۔کچھ تو حقِ نمک ادا کرنا بنتا ہے لہذا اگر میاں برادران حقِ نمک ادا کر نے کے نتیجے میں عدلیہ کو بچانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنا کام کرنے دیجئے اور تاریخ کو اپنا کام کرنے دیجئے۔ایک تاریخ وہ ہے جسے حکمران لکھتے ہیں اور ایک تاریخ وہ ہے جسے وقت کا کاتب لکھتا ہے۔جب وقت کا کا تب تاریخ لکھے گا تو اس میں یہ لکھا جائیگا کہ عدلیہ کا رویہ جانبدارانہ تھا اور ایک مخصوص فریق کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تھا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور وکلا تحریک میں ایک انڈرسٹینڈنگ تھی۔مسلم لیگ (ن) نے وکلا تحریک کی بھر پور مالی ،سیاسی اور اخلاقی امدادکی تھی اور افتحار محمد چوہدری کی بحالی میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔یہ بھی درست ہے کہ پی پی پی نے بھی وکلا تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس نے ہاتھ ہولا کر لیا تھا کیونکہ پی پی پی کی قیادت کو یہ اشارے مل رہے تھے کہ معزول ججز بحال ہونے کے بعد ان کی حکومت کا تایا پانچہ کیا جائیگا لہذا ان کی بحالی سے اجتناب کیا جائے ۔پی پی پی نے اسی فارمولے پر عمل کیا اور ججز بحالی میں تاخیری حربے استعمال کئے لیکن مارچ ۲۰۱۰؁ میں لانگ مارچ کے خوف سے ججز بحال ہوئے اور پھر وہی ہونے لگا جس کے بارے میں خدشہ ظا ہر کیا جا رہا تھا۔پی پی پی کے خلاف مقدمات کا ڈھیر لگا دیا گیا۔سید یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری میں ججز بحالی پر کافی اختلاف پایا جاتا تھا لیکن وزیرِ اعظم ہونے کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کا اختیار یوسف ر ضا گیلانی کو حاصل تھا اور ان کا فیصلہ ججزبحالی کے حق میں تھا ۔آصف علی زرداری نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وزیرِ اعظم کی رائے کو فوقیت دے کر ججز بحالی کے فیصلے کو تسلیم کر لیا اور یوں تمام معزول ججز بحال ہو گئے ۔لیکن عجیب اتفاق یہ ہوا کہ بحال کی گئی عدلیہ کے ہاتھوں ہی یوسف رضا گیلانی کو اپنی وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھو نے پڑے جو پارلیمانی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے ۔کیا جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی ایسا ہی انصاف ہونے والا ہے جس میں ذا تی انتقام ،ضد،ہٹ دھرمی اور انانیت کا سانپ پھن پھلائے فریق مخالف کو ڈسنے کیلئے بے تاب ہوگا یا واقعی انصاف ہوتا ہوا نظر آئیگا جس میں آئین شکنی کے تمام کرداروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائیگا ؟

Tariq Butt
About the Author: Tariq Butt Read More Articles by Tariq Butt: 629 Articles with 515782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.