ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں ایک لائیو کانفرنس ہو رہی
تھی جس میں دنیا بھر سے لوگ پرویز مشرف سے براہ راست گفت وشنید کر رہے
تھے،اس پریس کانفرنس میں انتہائی معروف صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود بھی موجود
تھے،دوران کانفرنس جب بھی ڈاکٹر شاہد مسعود مخاطب ہونے کی کوشش کرتے تو ان
کو سوال کرنے سے روک دیا جاتا یاکسی اور کو ان پر بولنے کا موقع دے دیا
جاتا،دو تین دفعہ جب ڈاکٹر نے بولنے کی کوشش کی تو مشرف نے انہیں دیکھ لیا
اور اپنی طبیعت کے عین مطابق انہیں دبانے کے لیے انہی پر سوال داغ دیا،آگے
ڈاکٹر شاہد مسعود تھا پرویز مشرف کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ شخص
انہیں یو ں لاجواب کر دے گا،پرویز مشرف نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو بولنے دیں
میں کافی دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ بہت بے چین ہے ویسے ڈاکٹر مجھے ایک بات تو
بتاؤ بھئی تم کدھر آگئے اس پیشے میں، اپنا شاندار اور مقدس فرض چھوڑ کے
کہاں صحافت میں یخ مارنے آگئے ،بندے کو ہمیشہ وہ کام کرنا چاہئے جو اس کا
شعبہ ہو اور جس کو وہ سمجھتا ہو،ڈاکٹر شاہد مسعو د نے صرف ایک جملے میں
مشرف صاحب کی تسلی کرا دی،ڈاکٹر شاہد مسعو د نے کہا سر یہ بات آپ کر رہے
ہیں،اس وقت دنیا ساری دیکھ رہی تھی کہ کس طرح مشرف صاحب آئیں بائیں شائیں
کرنے لگے کہ ہاں ہاں ٹیلنٹ ہو تو بندے کو دوسری فیلڈز میں بھی پنجہ آزمائی
کرنی چاہیے۔مجھے یہ ساری بات اس لیے یاد آئی کہ چکوال میں ایک کیبل نیٹ ورک
کے خلاف لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے حکم امتناعی جاری کیا،ظاہر ہے کچھ
نہ کچھ خلاف قانون ضرور تھا جس پر معزز عدالت کو کیبل نیٹ ورک کو کام روک
کر اپنا سسٹم لپیٹ لینے کا حکم جاری کرنا پڑا،میرا موضوع کیبل نیٹ ورک ہے
نہ اس سے غرض کہ یہ کون لوگ ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں،افتتاحی تقریب نے
بہت کچھ آشکار کر دیا تھا ،خیر اس سب کے باوجود ہمیں اس سے کوئی سروکار
نہیں کہ شہر سب کا ہے اور کم از کم میری رائے میں ہر شخص اور گروپ کو اپنا
کاروبار کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے تاہم جو اصول ضابطے اورقاعدے قانون
گورنمنٹ آف پاکستان نے جاری کر رکھے ہیں ان کی پاسداری ہر شخص و ادارے پر
لازم ہے،اس نئے نیٹ ورک کو کام سے روکنے کا حکم جاری ہونے کے بعد چکوال کے
مقامی اخبا میں ایک اشتہار چلتا رہا اور وہی میرا آ ج کا موضوع ہے،اشتہار
شروع میں تو کیبل نیٹ ورک کے بارے میں مگر مچھ کے آنسو بہاتا تھا اور آخر
میں ایک نصیحت یا کہاوت اور نہایت ہی خوبصورت بات پر ختم ہو تا تھا جو کچھ
جوں تھی،کہ اﷲ تعالیٰ اجارہ داریوں کے خلاف ہے،یہ پڑھ کر میں بھی حیران ہو
گیا کہ یہ بات وہ لوگ کر رہے ہیں کہ جو خود اجارہ داری قائم کیے بیٹھے
ہیں،میری مراد پریس کلب چکوال سے ہے،پریس کلب عموماً ہر جگہ صحافیوں کا
پلیٹ فارم ہوتا ہے جس سے خاص طور پر علاقائی اور چھوٹے صحافیوں کو ہر وقت
تحفظ کایہ احساس رہتا ہے کہ ایک مظبوط فورم اور سنئیر صحافی ان کی پشت پر
ہیں،پریس کلب کی بلڈنگ ہر جگہ حکومت مہیا کرتی ہے کہ کہنے کی حد تک ہی سہی
صحافت ریاست کا چو تھا ستون ہے،آج کل کے تیز رفتار دور اور الیکٹرانک میڈیا
کی چکا چوند کے بعد ورکنگ جرنلسٹ کے لیے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں کہ پریس
کلب میں ان کی نمائندگی ہے یا نہیں کیوں کہ پریس کلب کے لیے ا لگ سے وقت
نکالنا پڑتا ہے جوعموماً مشکل ہو جاتا ہے،تاہم اس مظبوط فورم سے جڑے رہنا
ہر صحافی کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ موج کی اصل طاقت دریا میں ہی ہوتی
ہے،اس میں شبہ نہیں کہ پریس کلب کے کرتا دھرتا صحافیوں نے پریس کلب کے لیے
بے شمار قربانیاں دی ہیں اور ان صحافیوں میں خواجہ بابر سلیم کا ذکر نہ
کرنا صحافتی بددیانتی ہو گی جس کا کم از کم میرا قلم متحمل نہیں ہو
سکتا،اور کئی دفعہ تو حیرانی بھی ہوتی ہے کہ ایک پورے ادارے کو خواجہ بابر
سلیم اکیلے چلا کیسے رہے ہیں کیوں کہ میں خود اس ادارے کا حصہ رہا ہوں اور
اکثریت وہاں کھانے پینے اور موج اڑانے کی شوقین ہے جنہیں اس سے کوئی سروکار
نہیں کہ بجلی گیس کے بل اور اسٹاف کی تنخواہیں کہاں سے آتی اور کیسے ادا
ہوتی ہیں،میں نے ایک فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی تھی کہ ہر صحافی سے ماہانہ
کچھ نہ کچھ چندہ جمع کیا جائے بے شک وہ انہی کے اوپر خرچ کیا جائے شروع میں
اس پر عمل کیا گیا اور کچھ لوگوں نے چندہ جمع کرایا بھی مگر پھر چراغوں میں
روشنی نہ رہی، ان سب باتوں کے باوجود اگر پریس کلب ایک سرکاری عمارت ہے تو
اس میں ہر صحافی کو نمائندگی ملنی چاہیے اور اختلاف رائے برداشت کرنے کا
حوصلہ بھی ہونا چاہیے،اب جب بھی کوئی اہم شخصیت پریس کلب میں آتی ہے تو
سوائے دو تین لوگوں کے کوئی بھی صحافی موجود نہیں ہوتا صرف سیٹیں بھرنے کے
لیے عام لوگ بلا لیے جاتے ہیں جس سے اس ادارے اور اس کے کرتا دھرتاؤں کی
شخصیت کا کوئی عمدہ اور بہتر امیج پبلک کے سامنے نہیں جاتا،پچھلے دنوں ملک
تنویر اسلم سیتھی نے یہاں پر علاقائی صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے انہیں
پلاٹس دینے کا اعلان کیا جو کہ نہایت خوش آئند ہے کیوں کہ یہ لوگ خدائی
خدمات گار ہیں اکثر ادارے اور مالکان ان لوگو ں سے بیگار کی طرح کا،م لیتے
ہیں مگر ادائیگی ایک دھیلا بھی نہیں کرتے ایسی صورت میں کسی منسٹر کی طرف
سے ایسا اعلان نہایت خوشگوار عمل ہے،تاہم اس میں جناب ڈی سی اوصاحب جو اس
معاملے میں نہایت پرجوش دکھائی یتے ہیں کوایک بات مدنظر رکھنا ہو گی کہ
چکوال میں پریس کلب ہر گز صحافیوں کا نمائندہ آفس نہیں ہے شہر کے لگ بھگ 70
فی صدصحافی پریس کلب سے باہر اور 90 فی صد محض اجارہ داری کی وجہ سے پریس
کلب کے رکن نہیں ہیں ، پریس کلب چکوال شاید ملک کا واحد کلب ہے جس کی
نمائندگی حاصل کرنے کا کوئی باضابطہ طریقہ کار ہے نہ کبھی پبلک کے کسی فورم
پروضع ہی کیا گیا ہے کہ اگر کوئی صحافی اس میں شامل ہونا چاہے یا اس کی
رکنیت حاصل کرنا چاہے تو کیا طریقہ اختیار کرے ،کیوں کہ صر ف چند لوگوں کی
اجارہ داری اس پریس کلب پر قائم ہے انہیں یہ اجارہ داری نصیب ہو مگر اگر
ایسی کوئی اسکیم آتی ہے تو ہر صحافی کو بلاشرکت غیرے اس میں شریک کیا جانا
چاہیے جس کے لیے بہترین طریقہ ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس ہے جس سے راہنمائی لی
جا سکتی ہے، اس اسکیم میں صرف چکوال شہر نہیں بلکہ ضلع بھر کے صحافیوں کو
شامل کیا جانا چاہیے،کیوں کہ بے شمار لوگ ہم سے بھی کہیں کم وسائل میں ارد
گرد کے علاقوں مثلاً تلہ گنگ ،چوا سیدن شاہ،کلر کہار،دندہ شاہ بلاول اور
ڈھڈیال میں اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں،ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفس کے پاس
تمام ورکنگ جرنلسٹ کا ڈیٹا موجود ہے تفصیلات وہاں سے لی جائیں تاکہ نہ صرف
یہ اسکیم صاف اور شفاف ہو بلکہ ذاتی پسند و ناپسند کی چھا پ بھی اس کے قریب
نہ آسکے۔ پلاٹس صرف اور صرف صحافیوں کو ہی دیے جائیں جس کے لیے تعلیمی
اسناد کے علاوہ مستند صحافتی ادارے کا سرٹیفکیٹ جس میں صحافت کرنے کا کم از
کم پانچ سالہ تجربہ واضح ہو کم از کم اہلیت قرار دیا جائے،تعلیمی اسناد پہ
بہت سے دوستوں کو اعتراض ہو سکتا ہے تو کم از کم میٹرک کی سند ہی سہی کوئی
نہ کوئی معیار تو ضرور قائم ہونا چاہیے،یہاں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کا
شمار صرف سنیئر نہیں بلکہ سینئر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کبھی
اسکول کی شکل دیکھی نہ قلم دوات سے ہی کبھی واسطہ رہا، اس کے علاوہ منسٹر
صاحب کو خود بھی اس اسکیم پر مکمل نظر رکھنا چاہیے تاکہ کہیں کو ئی گڑ بڑ
نہ ہو سکے کیوں کہ اسکیم صحافیوں کے لیے ہے اورپٹواریوں و محکمہ مال پر
صحافیوں کا ہاتھ ویسے ہی بیٹھا ہو اہوتا ہے،کہیں بھی کسی بھی قسم کی گڑ بڑ
نہ ہو ڈی سی او صاحب چکوال کے لیے اس کی شفافیت اولین ترجیح ہونی چاہیے،اس
کے لیے ضلع بھر کے صحافیوں کے نمائندوں سے بات چیت کی جائے اور اس کے طریقہ
کار میں ان سے نہ صرف معاونت لی جائے بلکہ انہیں اس میں باقاعدہ شامل کیا
جائے،اسے کسی بھی صورت کسی ایک گروہ یا گروپ کی صوابدید پر نہ چھوڑا جائے
ورنہ دوسروں کو اﷲ تعالیٰ اجارہ داریوں کے خلاف ہے کا درس دینے والے اس ا
سکیم کے بھی اجارہ دار بن جائیں گے،،،،،،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے
|