اصلی سندھی کون ہے؟

آج کل ایک بار پھر سندھ کے مقامی اور غیرمقامی کی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ دراصل متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے ٹیلی فونک خطاب سے اس بحث نے جنم لیا ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سندھ میں مقیم مختلف لسانی اکائیوں کے تعلقات پر اپنا نقطۂ نظر عوام کے سامنے پیش کیا، جس پر پیپلزپارٹی اور قوم پرستوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ کئی شہروں میں ایم کیو ایم مخالف مظاہرے ہوئے، جبکہ اندرون سندھ لسانی بنیاد پر کشیدگی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔

سندھ مختلف زبانیں بولنے والوں کا مسکن ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے صوبے کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہوگئی ہے، جبکہ دیہی علاقوں میں سندھی بولنے والوں کی اکثریت بستی ہے۔ اندرون سندھ پنجاب سے نقل مکانی کرکے آنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، اس کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں ملک کے شمالی علاقوں سے آنے والے افراد بھی لاکھوں کی تعداد میں رہتے ہیں۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں بھی کئی کئی قومیں آباد ہیں، وہاں بھی مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں اور لسانی بنیاد پر کچھاؤ بھی پایا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود وہاں لسانی تنازعات ایک حد میں ہیں، البتہ سندھ کی صورت حال اس حوالے سے خاصی مختلف ہے۔ یہاں زبان اور قوم کی بنیاد پر منظم فسادات ہوتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں مقیم لسانی اکائیاں ایک دوسرے سے کھنچی کھنچی سی رہتی ہیں۔

مستقل باشندے کی بحث سندھ کے سیاست دانوں کا پسندیدہ اور مستقل موضوع ہے، اس لیے کہ یہ بحث ان کی سیاست کے لیے آکسیجن کا کام دیتی ہے۔ وہ اسی کی آڑ میں عوام کے جذبات بھڑکا کر انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرف پی پی پی ہے، جو خود کو وفاقی جماعت کہتے نہیں تھکتی، مگر سندھ پہنچ کر وہ ایک قوم پرست جماعت کا روپ دھار لیتی ہے۔ دوسری طرف ’’پروفیشنل‘‘ قوم پرست ہیں، جن کی دکانوں پر صرف نفرت ہی بکتی ہے۔ کچھ گروپ ایسے بھی ہیں جو سندھ کو پاکستان کے ساتھ دیکھنا نہیں چاہتے۔ ان کے منہ سے بھی انگارے ہی نکلتے ہیں اور بعض لوگوں نے کراچی کو مشق ستم بنایا ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک خود کو سندھ کا بیٹا اور دوسرے کو اجنبی قرار دیتا ہے۔ ہر لسانی گروہ کسی نہ کسی معنی میں خود کو سندھ کا اکیلا وارث قرار دینے پر بضد ہے اور اس دعوے کے پیچھے وہی ایک بات ہے کہ ہم مستقل باشندے ہیں، باقی سب بعد کی پیداوار ہیں۔

اگر مستقل غیر مستقل باشندے کی بحث کو تاریخ کی کسوٹی میں پرکھا جائے تو کچھ اور ہی منظرسامنے آتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ’’سید‘‘ سندھ میں رہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر تو بغیر ’’شجرے‘‘ والے ہیں، جن کے پاس شجرۂ نسب کے نام پر جو قصے کہانیاں ہیں ان کے مطابق بھی ان کے آباؤ و اجداد چند صدی قبل سندھ میں آئے تھے۔ لازمی بات ہے، جو سیدہے، وہ سندھ کا قدیم ترین باشندہ نہیں ہوسکتا۔ اب صوبے کی سیاست پر چھائے ہوئے سیدوں کے بارے میں فیصلہ آپ خود کرلیں کہ انہیں فرزند زمین قرار دیا جائے یا نہیں؟ بھٹو خاندان بھی سندھ کا ایک بڑا نام ہے۔ اس خاندان کے بارے میں مؤرخین کی دو آراء ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے بھٹو جیلسمیر (بھارتی علاقہ) کے راجپوت ہیں، جو 18ویں صدی کے آغاز میں سندھ منتقل ہوگئے تھے۔ کچھ محققین کہتے ہیں یہ قبیلہ دراصل بھارتی صوبہ حصار کے گاؤں بھٹہ کا رہائشی ہے اور یہ گاؤں آرائیوں کا تھا۔ یعنی بھٹو آرائیں ہیں۔ یہ دونوں باتیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں، وہ خود کو راجپوت سمجھتی تھیں۔ بھٹو آرائیں ہوں یا راجپوت، ایک بات واضح ہوگئی کہ یہ خاندان بھی سندھ کا پرانا باشندہ نہیں ہے۔ ایک اور مزے کی بات، ذوالفقارعلی بھٹو کے والد سرشاہنوازبھٹو پاکستان بننے سے قبل ریاست جوناگڑھ منتقل ہوکر وہاں کے وزیراعظم بن گئے تھے۔ وہ پاکستان بننے کے بعد دوبارہ سندھ آئے۔ اب یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ 1947ء کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجروں اور جوناگڑھ سے آنے والے بھٹو خاندان میں کیا فرق ہے؟

آصف زرداری کا خاندان بھی بلوچستان سے سندھ میں آکر آباد ہوا تھا۔ بیشتر سندھی قوم پرست بھی ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بلوچستان سے آئے تھے۔ معروف قوم پرست رہنما بشیر قریشی جو سندھودیش تحریک کے سرگرم رہنما تھے، یہ 1947ء کے بعد سندھ آنے والوں کو ’’دھاریہ‘‘ یعنی اجنبی اور غیر کہتے تھے، مگر کہا جاتا ہے کہ ان کا خاندان بھی 1939ء میں ہندوستان سے سندھ آیا تھا۔

اب کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں بھی مستقل اور غیرمستقل کی بحث زوروں پر رہتی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے مقیم سندھیوں اور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے آنے والے اردو بولنے والوں کو یہاں کا مستقل باشندہ تصور کیا جاتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے اردو بولنے والے خاندانوں میں سے بہت سے خاندان ایسے ہیں جو 70ء کے بعد کراچی آئے ہیں، بلکہ ایک سیاسی رہنما کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ ان کا خاندان 1985ء میں کراچی آیا تھا۔ اس شہر میں آپ کو بہت سے ایسیپختون، پنجابی اور ہزارہ وال خاندان مل جائیں گے جو 1947ء کے آس پاس کراچی میں آکر بس گئے تھے۔ پھر وہی سوال سامنے آگیا، 1985ء میں آنے والے کراچی کے مستقل یا مقامی باشندے اور 1950ء میں شمالی علاقوں سے کراچی میں آنے والے غیر مقامی یا غیرمستقل کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہی معاملہ اندرون سندھ مقیم پنجابیوں کا ہے۔ جب انگریز نے1901ء میں سکھر بیراج بنائی تو اسے ایسے افراد کی ضرورت تھی جو سندھ کی ویران زمینوں کو آباد کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے پنجابیوں، خاص طور پر آرائیوں کو بڑی منت سماجت کے بعد سندھ میں آباد ہونے پر راضی کیا۔ آرائیں کاشت کاری میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، انہوں نے اپنی محنت سے ویران زمینوں کو لہلہاتے کھیتوں میں بدل دیا۔ آج 1901ء میں آئے خاندانوں کے بچوں کو ’’غیر‘‘ کہا جاتا ہے۔

ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ جو سیاست دان مقامی اور غیرمقامی کی باتوں کو ہوا دیتے ہیں، خود ان کے پاس کوئی ایسی متفقہ تعریف نہیں ہے، جس سے کسی کے مقامی یا غیرمقامی ہونے کا تعین کیا جاسکے۔ جی ایم سید کے فارمولے کے مطابق 1951ء میں لیاقت علی خان اور نہرو کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ہندوستان سے آنے والے ’’دھاریے‘‘ ہیں۔ انہوں نے ایک اور فارمولا بھی بتایا تھا، ان کے نزدیک جو شخص پانی کے ن کو غنّہ کے ساتھ بولتا ہے وہ سندھی ہے۔ لازمی بات ہے جی ایم سید کے یہ دونوں فارمولے اردو بولنے والوں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم تقسیم ہند کے بعد کراچی آنے والوں کو یہاں کا مستقل باشندہ تصور کرتی ہے۔ سندھی بولنے والوں کو تو اس پر جو اعتراض ہے، وہ واضح ہے، کراچی میں بسنے والے پختونوں، پنجابیوں اور ہزارہ والوں کو ایم کیو ایم کا یہ فارمولا قبول نہیں ہوگا، کیونکہ یہ لوگ بہت سے اردو بولنے والے خاندانوں سے بھی پہلے سے کراچی میں مقیم ہیں۔

مقامی اور غیرمقامی کی یہ بحث کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ جب کسی کے پاس کوئی حتمی تعریف ہی نہیں ہے تو اس مسئلے کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟ ہر گروہ کے پاس اپنے مفاد کا فارمولا ہے۔ یہ ایک سیاسی ڈگڈگی ہے،سیاست دان اپنے مطلب کے لیے یہ ڈگڈگی بجا دیتے ہیں اور ہم لوگ ایک دوسرے کے گریبانوں پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ عرصے سے یہ تماشا ہورہا ہے۔ الطاف حسین کے بیان پر ہڑتال کی کال دینے والے ایاز لطیف پلیجو کی بیشتر رشتہ داریاں اردو بولنے والوں سے ہیں۔ کچھ سمجھے؟!
 

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102075 views i am a working journalist ,.. View More