وکلاء کا نفسیاتی تجزیہ

جب ہم کسی طبقہ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس میں سے ایسا عنصر اپنے آپ مستثنیٰ ہوتا ہے جو نیک اور شریف النفس ہوتا ہے۔ اسی طرح وکلاء میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو صرف حق کا ساتھ دیتے ہیں اور جھوٹے کا مقدمہ لڑتے ہی نہیں ہیں۔ تو یہ بے چارے ہمیشہ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں، اس طبقہ سے معذرت کے ساتھ بات کو آگے بڑھائیں گے۔ کیونکہ میرے موضوع کا تعلق وکلاء کے مخصوص اجارہ دار اور مفاد پرست عنصر کے ساتھ ہے لہٰذا زیریں سطروں میں لکھی گئی تحریر میں وکلاء کا یہی عنصر مراد ہے۔

آج کل دہشت گردی کے ساتھ ساتھ وکلاء گردی کے بڑے چرچے ہیں۔ دراصل میڈیا نے عدلیہ بحالی تحریک میں وکلاء کا سافٹ امیج ایسا بنایا کہ عوام سے ان وکلاء کا حقیقی چہرہ چھپ گیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ تحریک کے دوران بھی بہت سے ایسے واقعات پے درپے ہوتے رہے جس میں وکلاء اپنے اصلی روپ میں نظر آئے۔ کسی پر کالا رنگ پھینکنا، مخالف وکیلوں کا گھیراؤ کرنا، مخالف کو گالم گلوچ کرنا، سڑکوں پر پاکستانی فوج کو گالیاں دینا۔ بلکہ اس وقت پاکستانی فوج کے خلاف دو طبقہ ہی سر گرم تھے ایک مذہبی عسکریت پسند اور انکے ہمنوا، دوسرے وکلاء۔ لیکن یہ سب کچھ عدلیہ بحالی کے خوبصورت نام میں چھپ گیا تھا۔ ورنہ عوام کو معلوم تھا کہ جب کچہری میں داخل ہوں تو کس طرح وکیل کے منشی سے لیکر انصاف کے اوپر کی سطح تک کی ہر شے مئوکل کے پیسے سے حرکت کرتی ہے اور ان میں سے ہر ایک فرد کی نظر اس کی جیب پر ہوتی ہے۔

یہ طبقہ وکالت کو محض پیشہ کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان کی ذہنی کیفیت اور تربیت اور اعمال اور اس سے پیدا ہونے والے نتیجہ کو سامنے رکھنا ہے۔ وکلاء کا ذہنی ارتقا اس پر ہوتا ہے کہ انہوں نے مخالف فریق کو ہر صورت میں چت کرنا ہے چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق۔ یہ منصف مزاج نہیں ہوتے بلکہ پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں اور پیشہ کا مطلب پیسہ کمانے کا ذریعہ اور زیادہ پیسہ کمانا ہی کمال سجھا جاتا ہے۔ چنانچہ زیادہ پیسہ انکا مقصود ہوتا ہے، انصاف،عدل، انسان دوستی انکے سامنے نہیں ہوتی جیسے حقیقی قاتل کا وکیل اپنے قاتل مؤکل کو رہائی دلوانے کیلئے کسی دوسرے کو ناحق قاتل قرار دلواتا ہے چاہے اسے پھانسی کی سزا ہی کیوں نہ ہوجائے۔

آپ دیکھیے کہ اگر کسی نے فراڈ کر کے کسی کو متاثر کیا ہو۔ متاثرہ فریق اگر انصاف لینا چاہے تو وہ اپنے مؤقف کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے وکیل کا سہارا لیتا ہے۔ فراڈ کرنے والا شخص بھی عدالت میں پیش ہونے کیلئے وکیل کھڑا کرتا ہے اور اس وکیل کو تمام صورتحال سے آگاہ کرتا ہے۔ کیونکہ وکیل کو تمام حقائق صحیح بتانا لازمی ہوتے ہیں۔ فراڈ کرنے والے کے وکیل کو معلوم ہوتا ہے کہ میرے مؤکل نے فراڈ کیا ہے۔ بعض مرتبہ تو فیس کمیشن کی صورت میں ہوتی ہے کہ مقدمہ میں کامیابی کی صورت فراڈ کی گئی رقم کا اتنا حصہ وکیل کا ہوگا۔ چنانچہ وکیل جانتے ہوئے بھی کہ میرا مؤکل بدعنوان جھوٹا اور دغا باز ہے اس کا دفاع کرے گا اور اپنے گھڑے ہوئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کیلئے مضبوط دلیل بھی لائے گا۔ معاملہ صرف وکیل کے ذاتی جھوٹ پر نہیں رکتا بلکہ مقابل فریق جو کہ سچا ہے اور حق پر۔ اس کے سچ کو جھوٹا ثابت کرتا ہے۔ یعنی وکلا انصاف کی عمارتوں میں جھوٹ کا جرم کرتے ہیں۔ اصل چیز ہوتی ہے کہ کونسی پارٹی پیسے والی اور طاقتور ہے عموماً بدعنوانی کرنے والے طبقہ کا تعلق جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ سے ہوتاہے۔ یا وہ انکا قریبی ہوتا ہے اسی بنیاد پر تو وہ فراڈ کرتا ہے۔ لہٰذا عموماً بدعنوان لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وکلاء جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔ اور سچ کو جھوٹ کہنا ان کا کمال ہوتا ہے۔ اور یہ بدعنوان لوگوں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔

غازی علم الدین شہید نے عدالت میں جھوٹ بولنے سے انکار کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر وہ یہ جھوٹ بول دیتے کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا تو وہ پھانسی کی سزا سے بچ سکتے تھے۔ دراصل ہمارے معاشرہ میں جھوٹ کا مزاج تھا ہی نہیں ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب انسان سے حیاء چلی جاتی ہے تو اس کے لئے کچھ بھی کرنا مشکل نہیں رہتا۔ تو جب تک ہم میں مسلم دور حکمرانی کے اثرات زندہ رہے ہمارا ضمیر زندہ تھا۔ جوں جوں ہم اپنے مسلم دور حکمرانی سے دور ہوتے گئے ہم میں اعلیٰ اخلاقیات ختم ہوتی گئیں۔ برطانیہ کی تین سو سالہ عہد میں ہم نے یہ تمام چیزیں یعنی غلامی، دھوکہ، فریب، جھوٹ، بدعنوانی، بدتہذیبی، اخلاق سے گری حرکات سیکھیں ہیں۔

عموماً ایسا بھی ہوتا ہے کہ وکیل مقدمہ میں جان ڈالنے کیلئے ایک الزام میں سے کئی سارے الزام نکالتا ہے۔ مثلاً دو خاندانوں میں تنازع ہوگیا ہے اور اب نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے تو لڑکی والے طلاق کیلئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں اور وکیل کا سہارا لیتے ہیں تو وکیل صاحب لڑکی والوں کی طرف سے سادہ مقدمہ نہیں درج کروائیں گے بلکہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے اور یہ لکھوائیں گے کہ خاوند نشہ کرتا ہے، عورت کو بدکاری پر مجبور کرتا ہے، مارتا پیٹتا ہے، گھر میں بدمعاش لوگوں کا آنا جانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور لڑکے والوں کی طرف کا وکیل بھی کچھ کم نہیں کرتا وہ لکھواتا ہے کہ لڑکی آوارہ ہے، فحاشی کی طرف راغب ہے،غیر لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یعنی وکلاء جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں۔ چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ انسانوں کے درمیاں انس و محبت پیدا کرنے کی بجائے نفرت اور دشمنی کو فروغ دینے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔

اگر مقدمہ چند دنوں میں نبٹ جائے تو اس میں پیسہ کمانے کے مواقع کم ہوتے ہیں چنانچہ وکیل مقدمہ کو لمبا سے لمبا کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایک مقدمہ میں سے کئی کئی مقدمات نکالے گا۔ ایسے ایسے حربہ اختیار کرے گا کہ بات پھیلتی جائے۔ سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ اور پھر اس سر نو کاروائی۔ پھر یہ چونکہ جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اس لئے انکی کوشش ہوتی ہے کہ مخالف کو بات کرنے اور اپنا مؤقف پیش کرنے سے روکا جائے۔ گویا یہ حق بات سننے کے عادی نہیں ہوتے۔

جیسے پورے معاشرے میں طبقات ہیں اسی طرح وکلاء کے طبقہ میں بھی طبقات ہوتے ہیں۔ وکلاء کا اوپر کا طبقہ تو حکمران طبقہ اور سیاست دانوں، سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی کرپشن چھپاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں نچلے طبقہ کو کبھی پھلنے پھولنے نہیں دیا جو بھی کام ہوا چاہے وہ عوامی ہمدردی کی آڑ میں ہو اس کا فائدہ اسی بالائی طبقہ کو پہنچتا ہے۔ وکلاء کا نچلاء طبقہ نیچے کے لڑائی جھگڑوں کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔ کیونکہ صلح اور امن سے انکے کاروبار کی مندی ہوتی ہے۔

ایک نئے وکیل نے اپنے وکیل دوست سےپوچھا کہ کامیاب وکیل ہونے کیلئے کیا ضروری ہیں۔ اس کے دوست نے کہا کہ وکیل کا پس منظر کسی دیہات سے ہو کیونکہ دیہات میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے، مویشیوں کو پانی پلانے پر جھگڑے، زمین کے جھگڑے، پانی کی باری پر جھگڑے، اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے لئے کسی ترقیاتی کام پر سٹے آرڈر لینا، وغیرہ وغیرہ۔ اگر تمہارا تعلق شہر سے ہے تو اپنا گھر یا دفتر ایسے علاقے میں بناؤ جہاں کے لوگ طبعاً جھگڑالو مزاج کے ہوں۔ چنانچہ ہمارے ارد گرد ایسے مقدمات کی بھرمار ہے جو مقدمہ دادا نے کیا آج اس کی پیشیاں پوتے بھگت رہے ہیں۔ شہروں کے اندر ایک فٹ زمین کی ملکیت پر جھگڑا اور اس کا مقدمہ ۲۰سے ۳۰ سال تک چلا۔

مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں اس طبقہ کی تحلیل نفسی کی جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے۔
یہ منصف مزاج نہیں ہوتے بلکہ پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں۔
انکے پیش نظر انصاف، عدل، انسان دوستی نہیں ہوتی بلکہ اپنے مؤکل کو جتوانا ہوتا ہے۔
یہ جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔
سچ کو جھوٹ کہنا ان کا کمال ہوتا ہے۔
جھوٹ کو فروغ دیتے ہیں۔
چھوٹی سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
انسانوں کے درمیاں انس و محبت پیدا کرنے کی بجائے نفرت اور دشمنی کو فروغ دینے کی ذہنیت رکھتے ہیں۔
یہ حق بات سننے کے عادی نہیں ہوتے۔
حق بات کو دبانا انکی فطرت بن جاتی ہے۔
یہ بدعنوان لوگوں کے نمائندہ ہوتے ہیں۔
ان کے پیشہ کے فروغ کا تعلق معاشرہ میں جھگڑا اور فساد سے ہے تو یہ طبعاً لڑائی جھگڑے کو پسند کرتے ہیں۔

اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا یہ طبقہ سماج کی خیر خواہی کے لئے کوئی کردار بغیر مفاد کے ادا کرسکتا ہے؟ کیا ان کی تحریک قابل اعتبار ہوسکتی ہے؟ نچلے طبقہ کے کچھ وکیل تو خلوص سے اس تحریک میں شامل ہوگئے تھے مگر ان کے گھر کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے تھے۔ اوپر کے طبقہ کے وکیل جنہیں مارچ ۲۰۰۷ سے عوامی ہمدردی کے مروڑ ہورہے ہیں ان کی فیسیں تو عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں کم از کم ایک لاکھ سے ان کی فیس کا آغاز ہوتا ہے۔ ان میں سے بیشتر سیاسی وکیل ہیں جن کا بیک گرواؤنڈ سرمایہ دارانہ یا جاگیردارانہ خاندان سے ہے اسی لئے تو دو سال کی طویل ترین تحریک کے باوجود ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا نہ ان کی شان وشوکت میں کوئی کمی آئی۔ آپ ذرا سوچئے کہ کیا انہوں نے یہ تحریک بے دام چلائی ہوگی؟ یا بے لگام ؟ اس دام دینے والے اور اس کی لگام سنبھالنے والوں کو پہچاننا ضروری ہے۔ کہیں افغان جہاد کی طرح ۲۵ سال کے بعد کوئِی ہیلری کلنٹن کہے کہ انہیں تو ہم نے پید ا کیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ابھی عوامی حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے کوئی تحریک نہیں چلی۔ خواہ وہ ۷۷ﺀ کی مذہب کے نام پر چلائی گئی تحریک ہو، ضیاء کا فوجی مارشل لاء ہو یا عدلیہ بحالی کی موجودہ تحریک ہو۔ اس طرح کی تحریکات کے ذریعہ ہمیشہ پاکستانی عوام کو دھوکہ دیا گیا ۔

مارچ ۲۰۰۹ سے شروع ہونے والی کالے کوٹ کی تحریک یکطرفہ تحریک تھی۔ جس کے چلانے والوں نے اپنے اس فطری اصول کو سامنے رکھا کہ دوسرے کا مؤقف نہ سننا ہے اور نہ اس کو سنانے دینا ہے۔ یہاں تک کہ اس تحریک کے ہیرو اور عدلیہ بحالی تحریک کے سپوت جنہیں امریکہ میں اس تحریک پر ایوارڈ بھی دیا گیا، ان پر لگائے گئے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ آج کے دور میں کوئی چھوٹے سے چھوٹا پراجیکٹ بھی ہو وہ بغیر پیسے کے پورا نہیں ہوتا تو اتنی بڑی تحریک کو کس نے فنانس کیا؟ اس کو امریکی و یورپی میڈیا نے اپنے صفحہ اول پر کیوں رکھا؟ ان کو اس سے کیا ہمدردی تھی؟ امریکہ تو کسی اور کے حامی ہونے کا دعویٰ کرتا تھا؟ اس تحریک نے اس کے حامی کو کیوں کمزور کردیا؟ پاکستانی میڈیا نے اس کو پذیرائی بخشی اور اس کی طویل ترین کمنٹری کرنے اور اس کی لائیو کوریج کا بھی اہتمام کیا۔ اب آپ ذرا سوچئے کہ جو میڈیا ایک چھوٹا سا اشتہار لگانے کے لئے بہت بڑی رقم وصول کرتا ہے تو اتنی طویل دورانیہ کی تحریک کی کمنٹری اور اس کو دکھانے کیلئے کہیں نہ کہیں سے تو پیسہ آئے ہونگے؟ NGOs سول سوسائٹی جو یورپ کی پروردہ ہے اس کو فنڈنگ یورپ کی ملٹی نیشنل کرتی ہیں یا یورپ براہ راست کرتا ہے، کیا ان کا واویلا اس کے مصداق نہیں ٹہرتا کہ جس کا کھائیں گے اسی کا گائیں گے؟

ہم عوام جنہیں کوئی شعور نہیں ہر تحریک کو چلانے کے بعد دیکھتے ہیں کہ اس میں ہمارے لئے کیا ہے؟ پھر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ساتھ تو دھوکہ ہوگیا۔ ہم تو اسی طرح غربت اور مسائل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اوپر سے اتنے اندھیرے ہیں کہ چکی میں پیسنے والے کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ ہمیں تو اپنی تحریک چلانے کا بھی شعور نہیں رہا۔ ہمارے اندر بھی اس اوپر کے طبقہ کے ایسے عناصر شامل ہوجاتے ہیں جو ٹرینیں جلا دیتے ہیں۔ لوٹ مار کرتے ہیں اور عوام پر مقدمات بن جاتے ہیں وہ پھر اپنے حقوق کو بھول کر عدالت کی بھول بھلیوں میں انصاف ڈھونڈھنے لگ جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام جب جھوٹے اور دھوکہ باز راہنماؤں کے فریب سے باہر آئے گی اور اپنے سچے راہنمائوں کو تلاش کرلے گی اس دن اس ملک کی حالت سدھرنے کا آغاز ہوجائے گا۔یہ راہنما نہ جاگیر دار طبقہ کے ،نہ سرمایہ طبقہ کے نمائندے ہونگے نہ انکا تعلق کسی مخصوص گروہ سے ہوگا وہ عوام میں سے ہی ہونگے۔
Shuban
About the Author: Shuban Read More Articles by Shuban: 4 Articles with 2793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.