تاریخ عالم پر نگاہ ڈالیں تو وہ
اقوام تعمیر و ترقی میں نمایاں دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے آئین کی حرمت ،
قانون کی بالا دستی اور انصاف کی ترویج کا شعار اپنایا۔ یہی وہ صراط مستقیم
ہے جو قوموں کی سر بلندی کا باعث بنتا ہے۔ اسلام بھی قانون و انصاف کی
پاسداری کو معاشرے کا مرکزی ستون قرار دیتا ہے۔ تاریخ اسلامی کا یہ واقعہ
ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ جب فاطمہ نامی ایک خاتون کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری
ہوا۔خاتون کا تعلق ایک نامور اور صاحب حیثیت قبیلے سے تھا۔ حضور ﷺ سے سزا
میں نرمی برتنے کی گذارش کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر میری
بیٹی فاطمہ ؓ بھی اس جرم کی مرتکب ہوتی تو اسے بھی یہی سزا دیتا۔ مزید
فرمایا کہ قدیم اقوام اسی وجہ سے برباد ہوئیں کہ کمزوروں کی کڑی گرفت کی
جاتی تھی مگر زور آوروں سے نرمی برتی جاتی تھی۔ حضور ﷺ کے اس فرمان اور
اپنی موجودہ زبوں حالی کا موازنہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کن بلندیوں
سے کن پستیوں میں لڑھک چکے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہمارے ہاں آئین
طاقتور لوگوں کی جیب کی گھڑی اور قانون انکے ہاتھ کی چھڑی بن چکا ہے۔
تضادات کا عالم یہ ہے کہ چند ہزار روپے کی دھوکہ دہی کرنے والا کمزور شخص
تو قانونی شکنجے میں کسا جاتا ہے مگر اربوں کھربوں روپے لوٹنے والے زور آور
دندناتے پھرتے ہیں۔ عام آدمی ٹریفک کا اشارہ توڑے تو سزا کا مستحق قرار
پاتا ہے مگر آئین جیسے مقدس صحیفے کو اپنے قدموں تلے روندنے والے آمر کی
گرفت کرنا ہمارے ناتواں ہاتھوں کے بس میں نہیں ۔ پاکستان کی چھیاسٹھ سالہ
تا ریخ میں تینتیس برس ، اسلامی جمہوریہ پاکستان چار فوجی آمروں کی چراہ
گاہ بنا رہا۔ جنہوں نے ملکی مفاد اور آئین و قانون کی بالا دستی کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے اپنے شخصی مفاد ات کو سب سے بڑی ترجیح بنائے رکھا۔ 1973میں
آئین پاکستان کا حصہ بننے والا آرٹیکل 6 بے بسی اور لا چار گی کی تصویر بنا
رہا اور اعلی عدلیہ ان آمروں کے اقتدار کی توثیق و توسیع کا جواز فراہم
کرتی رہی ۔ انتہائی قابل افسوس امر یہ ہے کہ بعد ازاں بر سر قتدار آنے والی
جمہوری حکومتیں بھی ان آمروں کا احتساب کرنے اور انہیں آئین و قانون کے
شکنجے میں کسنے سے قصداً گریزاں رہیں۔ کبھی فوج کا رعب و دبدبہ مانع رہا،
کبھی خارجی دباؤ آڑے آیا اور کبھی اقتدار کی ہوس نے جمہوری حکمرانوں کو
آئین و قانون کی بالا دستی سے بے نیاز کیے رکھا۔ اس تناظر میں موجودہ حکومت
کا پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلانے کا جرات مندانہ اقدام قابل
تحسین ہے۔ ہماری تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی آئین شکن کو کٹہرے میں
لانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ماضی کے آمروں کی نسبت جنرل پرویز مشرف کا
معاملہ اس حوالے سے بھی مختلف ہے کہ وہ دوبارہ آئین شکنی کے مرتکب ہوئے۔
پہلی بار فقط اپنی نوکری بچانے کی غرض سے، 12 اکتوبر 1999کو میاں نواز شریف
کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا۔ دوسری بار محض با وردی صدر منتخب ہونے کے لئے
، 3نومبر 2007 کو آئین معطل کر کے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی اور60
ججوں کو نظر بند کر دیا۔ یعنیٰ صرف ذاتی مفاد کی خاطر آئین کی حرمت اور
ملکی وقار کو داؤ پر لگا دیا۔
نواز شریف تسلسل کے ساتھ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرنے کے
عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صدر زرداری کی تمام تر کا
وشوں کے با وجود جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو پارلیمانی تحفظ دینے پر
راضی نہ ہوئے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ اپنے عزم پر قائم رہے۔ سیاسی
حریف اور ناقد مشرف پر غداری کامقدمہ قائم کرنے کے حوالے سے مسلم لیگ (ن)
پر طعنہ زنی کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کی خاموشی کو امریکہ اور سعودی عرب
جیسے ممالک کے دباو اور کسی خفیہ معاہدے سے تعبیر کیا جاتا رہا۔ گرچہ جنرل
کیانی نے آئین اور قانون کی بالا دستی کے حوالے سے فوج میں جمہوریت سے
وابستگی کی نئی درخشاں روایت ڈالی۔پھربھی یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ فوج ایسا
نہیں ہونے دے رہی۔ اب بالآخر حکومت نے اس حوالے سے عملی اقدام اٹھا لیا ہے
تو کچھ سیاست دان اور تجزیہ کار یہ قضیہ لیے بیٹھے ہیں کہ غداری کا مقدمہ 3
نومبر کے بجائے 12اکتوبر کے اقدام کی بنیاد پر کیوں قائم نہیں کیا گیا۔ وہ
شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ 12اکتوبر کے اقدامات کو عدلیہ اور پارلیمنٹ کی
طرف سے جواز دے دیا گیا تھا۔ جبکہ 3نومبر کا اقدام تا حال اس جواز سے محروم
چلا آ رہا ہے۔ یہ بات بھی بھلا دی جاتی ہے کہ دونوں بار آئین شکنی کا ملزم
ایک ہی تھا۔ دونوں مقدمے قائم کیے جائیں یا ایک، سزا بہرحال اسی شخص کو
ملنی ہے۔ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت پی پی پی بھی بے جواز اعتراضات اٹھا رہی
ہے حالانکہ وہ اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں کسی جرات مندانہ اقدام سے
گریزاں ، ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔
در حقیقت وفاقی حکومت کے لیے یہ فیصلہ کرنا ہر گز آسان نہ تھا۔ ہماری سیاست
میں خارجی عوامل ہمیشہ کار فرما رہے ہیں ۔ پاکستان کے عزت و وقار کی قیمت
پر پرویز مشرف جن ممالک کے مفادات کاتحفظ کرتے رہے ہیں ان کا دباو خارج ازا
مکان نہیں۔ داخلی سطح پر حکومت کو افواج کا رد عمل بھی پیش نظر رکھنا ہو گا۔
اس کے نتائج سول ملٹری تعلقات پر اثر انداز ہو گے۔ مگر جنرل کیانی یا کسی
آنے والے فوجی سربراہ سے بھی یہ توقع ہے کہ وہ آئین و قانون کے کسی مجرم کے
تحفظ کے لئے پوری فوج کی عزت و آبرو داؤ پر نہیں لگا ئیں گے۔گرچہ سپریم
کورٹ 31 جولائی 2009 کے فیصلے میں 3 نومبر کے اقدامات کی کامل ذمہ داری
پرویز مشرف نامی فرد واحد پر عائد کر چکی ہے۔ مگر آئین کے آرٹیکل 6 کی شق
2، آئین شکنی کے معاونین کو بھی مجرم قرار دیتی ہے۔سویہ پہلو بھی زیرِغور
آسکتا ہے۔ مشرف کے بہت سے رفقاء موجودہ حکومت کا حصہ ہیں۔ سو مسلم لیگ (ن)
کو اس حوالے سے بھی مشکل در پیش ہو سکتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پرویز مشرف یا انکے معاونین کو سزا دینے سے ملک
میں دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہنے لگیں گی اور نہ ہی اس سے عوام کے تمام
تر مسائل حل ہو جائیں گے۔ البتہ ملکی تاریخ میں آئین و قانون کی حکمرانی
اور بالا دستی کا ایک سنہری باب ضرور رقم ہو جائے گا۔ یہ قانون کی بے چارگی
اور ماضی کے مصلحت پسند سیاستدانوں کی گریز پائی کا ہی نتیجہ تھا کہ دوبار
آئین شکنی کا مرتکب ہونے کے با وجود، پرویز مشرف بلا خوف وخطر انتخابات
لڑنے کے لئے وطن واپس آئے۔ اسے انکی خوش گمانی کہیے یا رعونت شعاری کہ وہ
اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ غداری کے مقدمے کا انجام بھی بگٹی اور لال مسجد
مقدمات جیسا ہی ہو گا۔ انہیں شاید اندازہ نہیں کہ پاکستان بدل چکا ہے۔
پاکستان کی عدلیہ ، میڈیا، سیاستدان ، مسلح افواج اور اہل فکر و دانش سب ہی
نئے عہد کے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں فوجی حکمرانی
اور شخصی آمریت کے باب بند ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں بدلتا ہوا ماحول تقاضا
کرتا ہے کہ یہاں آئین کی حرمت اور قانون کے وقار کو زندہ کیا جائے۔ جس کی
لاٹھی اسکی بھینس کا فرسودہ چلن بدلا جائے۔ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری
کا مقدمہ اسی تناظر میں دیکھا جاناچاہیے اور اس حکومت کا ساتھ دینا چاہیے
جس نے اقتدار کی ہوس سے بے نیاز ہو کر خارجی اور داخلی خطرات کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے بظاہر ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ |