ماہ ربیع الاو ل جاری ہے ملک بھر
میں جشن عید میلادنبی ﷺ جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے ،جہاں جہاں میلاد
منانے والوں کی اکثریت ہے وہاں دھڑلے سے عوامی گزر گاہیں خاردار تاریں لگا
کر بند کی جا رہی ہیں ،ریلیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور مساجد میں لو ڈ
سپیکر پر دیر، دیر تک تقاریر اور نعتیں پڑھی جا رہیں ہیں ،گنجان شہروں میں
اہم چوکوں کو جلسہ گاہ بنا دیا گیا ہے ، ایسے ہی ملتے جلتے مناظر چند ماہ
قبل ملک کے ایسے تمام علاقوں میں آئے تھے جہاں شیعہ حضرات اکثریت میں ہیں ،جس
طرح انہوں نے مجالس ، جلوس و تقاریر کا سلسلہ عوامی راستوں کو روک کر رکھا
تھااب وہی کام اہل سنت والجماعت کی طرف سے دوہرایا جا رہا ہے،مذہبی
اجتماعات کے حوالے سے مرکزی و صوبائی حکومتوں کی کوئی واضح پالیسی اور
جاندار حکومتی رٹ دیکھنے میں نہیں آ ئی، صرف سکیورٹی اہلکاروں کو مذہبی
عبادت گاہوں اور جلوسوں کی نگرانی کیلئے معمور کر کے فرض ادا کر دیا جاتا
ہے ۔جبکہ ہمارے جیسے ملک میں جہاں امن و امان ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے یہاں
ہونا تو یہ چاہیے کہ مذہب کے نام پر اجتماعات میں مقابلہ بازی کی بجائے
تمام مذہبی اجتماعات کو بلا تفرقہ چار دیواری تک محدود کر دیا جائے تا کہ
شاہرات ، چوک چوراہے بند نہ ہو سکیں جس سے شہری معمو ل کے مطابق زندگی گزار
سکیں ۔
گزشتہ ہفتے پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں زور و
شور سے بحث بنا رہا ہے جواب تک جاری ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جنرل مشرف
کے خلاف کارروائی کرکے حکومت خود اپنے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے ۔ پرویز
مشرف کی حمایت میں الطاف حسین اور چودھری برادران کھل کر سامنے بھی آ گئے ۔اب
ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ جوپرویز مشرف کے ساتھ ماضی میں ان کے اچھے وقت میں
اقتدار کے مزے مل کر لیتے رہے ہیں اب وہ آہستہ آہستہ ان کی حمایت میں سرگرم
ہو رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی قائدین مشرف سے انتقام بذریعہ ن لیگ لینے کے
خوائش مند نظر آ رہے ہیں۔ادھرن لیگ حکومت ایک طرف مشرف پر مقدمہ چلارہی ہے
تو دوسری طرف اس کے سامنے مسائل کا ایک انبار بھی کھڑاہے ۔پرویز مشرف کو تو
عدالت نے 16 جنوری کو طلب کر رکھا ہے ، اگر وہ حاضر ہو جاتے ہیں تو ان پر
فرد جرم بھی عائد کر دیا جائے گا لیکن ادھر دوسری جانب لیگی حکومت کو دیگر
قومی ایشوز اور بدلے کی سوچ کے بجائے عوامی مسائل کے حل کی طرف توجہ دینے
کی ضرورت ہے کیونکہ عوام مسائل سے تنگ آ چکے ہیں۔ اب تک کی حکومت کارکردگی
ظاہر کرتی ہے کہ عوام کو حکومت سے وہ ریلیف نہیں ملا جس کی ان کوانتخابی
مہم کے دوارن اور ن لیگ کو ووٹ ڈالتے وقت توقع تھی ۔ایک طرف عوامی مسائل
ہیں تو دوسری طرف تین صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سوالیہ نشان بن
کر رہ گیا ہے ۔بلدیاتی امیدوار حکومت سے نالاں ہیں ان کے جس انداز سے وسائل
خرچ ہورہے ہیں اس میں غیر یقینی کی کیفیت نے انہیں حکومت سے فاصلے پر کھڑا
کردیا ہے ۔ پنجاب اور سندھ میں ہائی کورٹ کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں
کالعدم قرار دینے کے بعد مقررہ تاریخ میں انتخابات کا انعقاد اب مشکل ترین
ہو چکاہے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے راہ
فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ان کے ایجنڈے میں فی الحال بلدیاتی
انتخابات نہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اس مسئلے میں جتنی بھی تاخیرہو سکتی ہے
کی جائے ۔عوام میں اصل مایوسی یہ ہے کہ ایک طرف حکومتیں اور حکمران جماعتیں
جمہوریت کی بڑی بڑی باتیں کرتی ہیں لیکن مقامی سطح پر جمہوری نظام کی تشکیل
میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں ۔ سیاسی کارکنوں میں یہ احساس ہے کہ ان کی
جماعتیں عوام کومضبوط کرنے کی بجائے ارکان اسمبلی اور بالخصوص بیوروکریسی
کو مضبوط کرکے نظام چلانا چاہتی ہیں ۔ بلدیاتی انتخابات فوری طور پر نہیں
ہوتے توعوام میں حکومت کی ناکامی کا تصوراور بھی زور سے ابھرے گا اور وہ
سمجھیں گے کہ جزوی جمہوری نظام پھر سے ناکام ہوچکا ہے ۔ اس لیے صوبائی
حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات میں جو رویہ اختیار کر رکھا ہے اس پر نظر ثانی
کرکے حکومت اس سوچ کو جھٹلا سکتی ہے ۔ الیکشن کمیشن نے ایک با رپھر پنجاب
اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی نئی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے، جن کے
مطابق سندھ میں 23فروری اور پنجاب میں 13مارچ کو الیکشن کرائے جانے ہیں ۔
لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ دونوں صوبوں میں جو حلقہ بندیاں غیر قانونی
قرار دی گئی ہیں ان کا کیا حل نکلے گا؟۔ کیا پرانی حلقہ بندیوں پر انتخابات
ہونگے ؟اگر ایسا ہوگا تو امیدواروں کو نئے سرے سے کاغذات نامزدگی جمع
کروانے ہونگے جو نیا مسئلہ پیدا کرینگے۔ نئی حلقہ بندیاں اس مختصر وقت میں
انتہائی مشکل مرحلہ ہو گا۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جونئی تاریخیں دی گئی ہیں
اس پر بھی انتخابات کا انعقادنہیں ہو سکے گا۔
دوسری جانب ملک میں ہر طرف جو نا ن ایشوز کی سیاست ہو رہی ہے اس پر کوئی
بھی حکمران ، سیاستدان اور تجزیہ نگار تک بھی توجہ نہیں دے رہے ۔ پنجاب میں
ن لیگ نیا صو بہ بنا کر مسائل میں کمی اور ترقی میں اضافہ کر سکتی ہے جبکہ
سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے اتفاق سے نیا صوبہ بنایا جا سکتا
ہے ۔ قومی و صوبائی سیاسی قیادتیں اپنے مسائل پارلیمنٹ اور جمہوری فورمز پر
حل کرنے کی بجائے سیاسی جلسوں میں جذباتی انداز میں تقاریر سے کرنا چاہتی
ہیں ۔ یہ عمل ملک میں محاذ آرائی کی سیاست کو دن بدن آگے بڑھارہا ہے ۔ جہاں
تک نئے صوبوں کے بنائے جانے کا تعلق ہے تو اس کا آئین میں قانونی دائرہ کار
بھی موجود ہے ۔لیکن یہاں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ نیا صوبہ کسی ایک جماعت کی
مخصوص مفاداتی خواہش پر تو نہیں بن رہا ۔اس کے لیے پنجاب اور سندھ کی تمام
پارلیمانی و غیر پارلیمانی سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔
کیونکہ نئے صوبے اس وقت تک نہیں بن سکتے جب تک پنجاب اور سندھ اسمبلی ان کی
حمایت میں متفقہ قراردادیں پاس نہیں کرائی جاتیں ۔ن لیگی قیادت آل پارٹیز
کانفرنسز کرانے میں کافی ماہر سمجھی جاتی ہے اس لیے ضروری ہے نئے صوبے
بنانے کیئے سنجیدگی دکھائی جائے اور اس کیلئے سیاسی جماعتوں سے تعاون لے کر
قدم بڑھائے جائیں کیونکہ اب آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ،عوام کوبنیادی
سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے مقامی سطح پر انتظامیہ کو مضبوط
اور رابطہ کاری کو آسان بناناضروری ہے ۔ |