مشرف پر مقدمہ کے لئے پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد کیوں؟

جب سے سپریم کورٹ کے 14 رکنی بنچ نے 3 نومبر کے اقدامات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا ہے تب سے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے یا نہ چلانے کی ایک نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ موجودہ حکومت بوجوہ اپنے قیام بلکہ اس سے پہلے سے ہی مشرف کو محفوظ راستہ دینے کے حق میں تھی، مشرف کے تمام جرائم سے چشم پوشی، اس کو گارڈ آف آنر دینا اور اب بیرون ملک اس کو سابق سربراہ مملکت کا درجہ دینا بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 6 آئین شکنی کرنے والوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں بالکل واضح اور واشگاف ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے یہ بات اور بھی عیاں ہوگئی ہے کہ سپریم کورٹ آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں قطعی آزاد ہوچکی ہے اور کسی دباﺅ، دھونس اور لالچ میں آنے والی نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی آمر کے غیر آئینی اقدامات اور PCO آنے کے باوجود اصل عدلیہ بحال ہوئی ہو اور PCO ججز کو گھر جانا پڑا ہو، ورنہ اس سے پہلے کم از کم پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ سپریم کورٹ اسی طرح کے فیصلے دے چکی ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ PCO کے نتیجہ میں آنے والے ججز فارغ ہوئے ہوں اور معزول ہونے والے ججز بحال ہوئے ہوں۔ سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلہ کے بعد حکومت کے پاس قطعی گنجائش موجود نہیں کہ وہ مشرف کے ٹرائل کے لئے پس و پیش سے کام لے اور حیلوں بہانوں سے اور ٹال مٹول سے اس معاملہ کو مؤخر اور بالآخر موقوف کردے۔ پیپلز پارٹی کے قائدین کے مطابق جمہوریت بہترین انتقام ہے اور وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں کسی کو ملوث نہیں کررہے، زرداری صاحب کے بقول وہ قاتلوں کو جانتے ہیں لیکن چونکہ محترمہ کے قاتل انہیں بھی قتل کرنا چاہتے ہیں اس لئے وہ نام نہیں بتا رہے۔ روایت کے مطابق محترمہ کے قتل کے مدعی بلاول یا زرداری صاحب ہی بننے چاہیں لیکن اگر وہ قاتل یا قاتلوں کو جانتے بوجھتے معاف کرنے کو تیار ہیں اور انتقام جمہوریت سے لینا چاہتے ہیں تو یہ ان کی اپنی صوابدید ہے لیکن اسی چکر میں وہ اپنی طرف سے پوری قوم کے ساتھ روا رکھے جانے والے آمر کے ظلم، بہیمانہ وارداتوں، سیاہ اور سفاک کارناموں، پر تشدد کارروائیوں اور دیگر مجرمانہ افعال کی معافی کیسے دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی بندے کے ان جرائم کو معاف نہیں کرتا جو اس نے کسی دوسرے کے خلاف سرانجام دئےے ہوں اور اس کا فرمان ہے کہ جب تک وہ بندہ مجرم کو معاف نہ کرے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو تب تک مجرم کو معافی نہیں ملے گی تو موجودہ حکومت اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایسے حقوق کہاں سے حاصل و میسر ہوگئے کہ وہ قوم کے ساتھ مجرمانہ سلوک کرنے والے کو بیک جنبش زباں معاف کر دیں اور کہیں کہ مشرف کو دائمی سزا دی جانی چاہئے جسمانی نہیں۔ دوسری طرف پیلز پارٹی کے ”یرغمال“ وزیر اعظم جو اپنی آزادی کی بھی کوشش کررہے ہیں انہوں نے اسمبلی میں بیان داغا ہے کہ اگر اسمبلی متفقہ قرارداد لائے تو وہ مشرف کے ٹرائل کے لئے تیار ہیں۔ اس سے پہلے پوری قوم ججز کی بحالی کے متعلق متفقہ قرارداد لانے کی کوششوں کو دیکھ اور پرکھ چکی ہے، چوں چوں کے مربہ قسم کی پارلیمنٹ جس میں آج بھی مشرف کے بہت سے ساتھی براجمان ہوں اور جس میں آج حکومت اور اپوزیشن صرف ایک نکتہ پر متفق ہوں اور وہ ہے امریکہ کی غلامی، تو وہاں امریکہ کے لے پالک مشرف کے خلاف قراردداد اور وہ بھی متفقہ، کہاں سے اور کیسے لائی جاسکتی ہے، گیلانی صاحب یا تو خود بہت بھولے ہیں یا ابھی تک قوم کو بیوقوف سمجھنے پر تلے ہوئے ہیں، کیا وہ نہیں جانتے کہ جب حکمران آئین اور قانون پر عمل نہیں کرتے اور قوم کی آواز کو نہیں سنتے تو 16 مارچ بھی آتے ہیں۔ ایک سولہ مارچ تو خیر خیریت سے گذر گیا لیکن اس طرح کے حیلے بہانوں اور ٹال مٹول سے آئندہ آنے والا ”16 مارچ“ ضروری نہیں کہ اتنی آسانی سے گزر جائے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ مشرف کے خلاف ٹرائل کے لئے پارلیمنٹ کی متفقہ قرار داد ضروری ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حکومت کو آئین شکنی کرنے والے کسی بھی آمر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کے لئے کسی متفقہ یا غیر متفقہ قرار داد کی قطعی ضرورت نہیں۔ اب تو ویسے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد معاملہ بہت آسان ہوگیا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی آئینی عدالت مشرف کے اقدامات کو ”متفقہ طور پر“ غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔ اور تو اور مشرف خود بھی بہت سے مواقع پر اس بات کا اقرار کرچکا ہے کہ اس کے 3 نومبر کے اقدامات غیر آئینی اور "Extra Constitutional" تھے۔ ملک قیوم بھلے کہتے رہیں کہ اس کا مطلب ”غیر آئینی“ نہیں لیکن چونکہ ان کی اپنی ڈکشنری ہے جس میں ”روپے“ سے الفاظ شروع ہوتے ہیں اور ”اربوں روپے“ پر ختم، اس لئے ان کی ڈکشنری انہی کو مبارک، کوئی اور قانون دان جب بھی "Extra Constitutional" کا مطلب بتائے گا وہ ”غیر آئینی“ ہی ہوگا۔ ایک اور اہم بات جو مشرف کے خلاف ٹرائل بلکہ ٹرائلز شروع کرنے کے لئے موجود ہے وہ یہ ہے کہ مشرف کا جرم صرف آئین شکنی ہی نہیں بلکہ اس کے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان جرائم اور ان کے مابعد مضر اثرات پر ہزاروں بلکہ لاکھوں صفحات سیاہ کئے جا سکتے ہیں لیکن اس کے جرائم کا احاطہ پھر بھی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ یہ مشرف کے ہی سیاہ اقدامات اور جرائم ہیں جن کی وجہ سے آج پاکستان دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، یہ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی کارستانیاں ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان میں امن و امان اس حد تک خراب ہوچکا ہے کہ وہاں کوئی بھی محفوظ نہیں، یہ اسی کی ”کرامات“ ہیں جن کی وجہ سے سرحد کے علاقے تو دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں ہی بلکہ اب پنجاب جو پاکستان میں خراب حالات کے باوجود جائے امن تھا، وہاں بھی دہشت گردی کا کھیل کھیلنے کی بھرپور تیاریاں ہو رہی ہیں۔ مشرف اور اس کے حواریوں نے جتنے پاکستانی اپنی جیبیں بھرنے کے لئے امریکہ کو بیچے جس کی تعداد شائد ایجنسیوں کو بھی معلوم نہ ہو، لال مسجد میں ایجنسیوں کا کھیل رچا کر امریکہ اور اہل مغرب و یہود کی نظروں میں اچھا بننے کے لئے معصوم بچوں کا قتل عام کیا گیا، ڈاکٹر عافیہ اور نہ جانے کتنی بیٹیوں کو اغیار کے حوالے کیا گیا، کشمیر کے مسئلہ کو نہ صرف پس پشت ڈالا بلکہ پاکستان کے اصولی مؤقف سے روگردانی کرتے ہوئے ”کچھ لو اور کچھ دو“ کا فارمولا وضع کیا گیا۔ قصہ مختصر مشرف کا ہر عمل ایک ایسا جرم ہے جس پر اگر صدر زرداری، بلاول زرداری ، وزیر اعظم گیلانی اور حکومت اسے ”بوجوہ“ معاف کرنا بھی چاہیں تو یہ قوم اب جاگ چکی ہے اور مشرف کو معافی ہرگز نہیں ملے گی۔ اگر حکومت اپنی ”مجبوریوں“ کی وجہ سے ایک قومی مجرم کو پاکستان لاکر اس پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تو عدالتیں اور جیلیں، سارا عدالتی نظام یکسر ختم کردینا چاہئے “جس کی لاٹھی، اس کی بھینس“ کے قانون کو آئینی تحفظ دینا چاہئے تاکہ قوم کسی سے ایسی امید ہی نہ لگائے، اپنا وقت اور توانائی ضائع نہ کرے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207358 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.