لاہور کی فوڈ اسٹریٹ گوال
منڈی کے اجڑنے کے بعد دوسری مشہور منڈی کی بھی کیا باری آئے گی ؟ یا لاہور
لاہور ہی رہے گا بی بی سی کی ایک رپورٹ کی مین ہیڈ نگ تھی “مشرف
دشمنی نے فوڈ اسٹریٹ اجاڑ دی “
خوبصورت ٹائلز اکھڑی پڑی ہیں، کھانوں پینے کی دکانیں بند اور وابستہ
کاروباری افراد اور ملازمین بدترین سیاسی انتقام کا مکروہ مظاہرہ دیکھتے
ہوئے شرمندہ ہیں کہ لاہور لاہور ہے۔
اور ایک سوال ہے کیا فوڈ اسٹریٹ گوال منڈی کے بعد کیا لاہور کی ایک اور
مشہور و معروف منڈی (ہیرا منڈی ) بھی اسی طرح بند کر دی جائے گی جس کا جواب
یقیناً ہوگا “ نہیں “ ۔ کیونکہ وہ تو مشرف کی حکومت سے پہلے والی حکومتوں
میں کبھی بنی تھی اور موجودہ حکمران جو وطن چھوڑ کر بھاگ نا سکے تھے یہیں
تو نو دس سال گزار رہے تھے اور اب حکومت میں آنے کے بعد ان کے کل پرزے خوب
نکل اور چل رہے ہیں جس کے سبب ن لیگ کے اراکین پارلیمنٹ کے منظر عام پر آنے
والے اسکینڈل آئے دن ہمیں میڈیا کی مشرفانہ آزادی کے نتیجے میں نظر آرہے
ہیں اور جو اسکینڈلز منظر عام پر نہیں آ پا رہے ان کی تعداد کون جانے کتنی
زیادہ ہو۔
لاہور کی اچھے معنوں میں مشہور و معروف منڈی (ہیرا منڈی نہیں) یعنی
گوالمنڈی فوڈ اسٹریٹ کو ختم کئے جانے پر بی بی سی کے نامہ نگار نے ایک
دلچسپ رپورٹ لکھی ہے۔ جس میں رپورٹر کا کہنا ہے کہ فوڈ اسٹریٹ کو سابقہ صدر
جناب پرویز مشرف سے دشمنی کے جذبے نے اکھاڑ پھینکا ہے۔ دکانیں اور ڈھابے
جگہ جگہ ٹوٹے پڑیں ہیں اور اس کی ساری رونق اس طرح اجاڑ ہو گئی ہے جس طرح
گزشتہ ادوار میں میاں برادران کی حکومت اور بادشاہت اجڑ گئی تھی۔ جو اس فوڈ
اسٹریٹ پر جاکر وہاں کے کھانوں سے لطف اندوز ہوچکے ہیں وہی بتا سکتے ہیں کہ
اس فوڈ اسٹریٹ کا لاہور کے ثقافتی اور تفریحی ماحول میں کیا حصہ تھا جس کو
سیاسی ماحول کی آلودگی نے بے نام و نشان بنانے کا سیاسی جابرانہ عمل شروع
کر دیا گیا ہے۔
یہ فوڈ اسٹریٹ نواز شریف کے ہی منتخب کردہ سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف اور ملک
کے چیف ایگزیٹو پرویز مشرف کے دور حکومت میں قائم کی گئی تھی جس کو دیکھ
دیکھ کر شریف برادران کو تاریخ کے بدترین دن خصوصاً سلاخوں کے پیچھے کی
زندگی اور جہاز کی سیٹوں سے باندھے جانا یاد آجاتا تھا اور ان کو لگتا تھا
کہ گوالمنڈی فوڈ اسٹریٹ میں جو لوگ ہنس بول رہے اور انجوائے کر رہے ہیں وہ
دراصل میاں برادران کا مذاق اڑا رہے ہیں ۔
کہتے ہیں گوالمنڈی اور گردو نواح میاں برادران کا آبائی علاقے ہے جن گلیوں
اور سڑکوں پر کھیلتے کودتے، کھاتے پیتے میاں صاحبان عمر عزیز کے اس آخری
حصے میں داخل ہوئے ہیں اور لاکھ چاہتے ہوئے بھی اپنے سیاسی دشمنان یعنی
مشرف اینڈ شجاعت اینڈ پرویز الہی کے دور حکومت میں ان کے ہاتھوں کی لگائی
ہوئی فوڈ اسٹریٹ سے نظریں چرانے میں ناکام ثابت ہو رہے تھے اور ایک ماہر
نفسیات نے تو مجبور ہو کر یہ کہہ دیا تھا کہ جب تک یہ فوڈ اسٹریٹ موجود رہے
گی نا آپ کو زندگی پرمزا لگے گی اور نا کوئی بھی فوڈ یعنی کھانا مزا دے سکے
گا چاہے آپ جہاں سے اور چاہے جو کچھ منگوا کر کھالیں۔
کیونکہ صدر مشرف خود بھی کئی بار گوالمنڈی فوڈ اسٹریٹ کے کھانوں سے لطف
اندوز ہوچکے ہیں لہٰذا اجڑنے والی فوڈ اسٹریٹ کے دکانداروں میں سے اکثریت
کا یہ یقین ہے کہ مشرف دشمنی نے شریف برادران کی موجودہ حکومت کو مجبور کیا
کہ اس مشہور زمانہ فوڈ اسٹڑیٹ کو ختم کیا جائے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ
فوڈ اسٹریٹ کو اجاڑنے کے لئے کسی سرکاری اعلان کا سہارا بھی نہیں لیا گیا
بلکہ کہا گیا کہ روڈ پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے فوڈ اسٹریٹ کی
دکانوں کے باہر کرسی میز کو تجاوزات قرار دیا گیا ہے۔
اور ایک لولی لنگڑی دلیل یہ دی گئی کہ اردگرد کے رہائشیوں کے راستے میں
رکاوٹ بن رہی تھی۔ فوڈ اسٹریٹ کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ دو مہینے پہلے
پانی کے پائپ ڈالنے کے لئے فوڈ اسٹریٹ بند کروائی گئی تھی (دھوکہ کی بھی
کوئی حد ہوتی ہے یا لاہور لاہور ہی ہے ) اور جب دکاندار دو مہینے کے بعد
واپس آئے تو فوڈ اسٹریٹ کے مین گیٹ کو بھی برباد کر کے توڑ دیا گیا ہے۔
دکانداروں نے شام کو کرسیاں میزیں لگائیں تو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا عملہ
اٹھا کر لے گیا (واہ بھی سٹی گورنمنٹ کے عملے سے بھی کام لے لیا جس سٹی
گورنمنٹ کو ختم کرنے اور جس کے ناکارہ ہونے کا سب سے پہلے الزام ہی شریف
برادران نے حکومت سنبھالتے ہی لگایا تھا اور جو سٹی حکومت کے سیٹ اپ کو ختم
کروانے میں سب سے پیش پیش ہیں۔ واہ بھی واہ جمہوری چیمپئنوں تاریخ سے اب
بھی تم نے کچھھ سبق نہیں سیکھا)۔
کہتے ہیں لاہور شہر میں یوں تو کھانے پینے کے کئی ہوٹل اور ریسٹورانٹ موجود
ہیں مگر ذائقہ، ورائٹی اور حسین کھلا ماحول تینوں چیزیں کھانوں کی اس گلی
میں موجود تھیں جس کی وجہ سے ناصرف مقامی لوگ بلکہ سیاحوں کی بڑی تعداد آتی
تھی اور اس فوڈ اسٹریٹ کے دورے کے بغیر لاہور کا سفر مکمل نہیں گردانا جاتا
تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بدنامی یعنی ایک اہم فوڈ اسٹریٹ کو سیاسی
انتقام کے طور پر بند کروانے کے بعد شریف برادران کی حکومت یقیناً ایک اس
سے بھی جدید اور اس سے بھی زیادہ پرسہولت اور پرفضا مقام پر شاندار فوڈ
اسٹریٹ بلکہ ایک سے زائد فوڈ اسٹریٹس کھولنے کا جلد ہی فیصلہ اور اعلان
کردے گی جس کا کریڈٹ سارا ظاہر ہے موجودہ شریف برادران کی حکومت کو جائے گا
مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس طرح کے عمل سے بادشاہت کے دور کی یاد
تازہ نا ہوجائے گی اور وہ بھی جمہوریت کے چیمپئن بننے کے دعوے دار
سیاستدانوں کی بادشاہت والی سوچ- اس کھلے تضاد اور بے حسی کو ہم کیا نام
دیں کیا ہمارے سیاستدانوں نے ماضی سے کچھ سبق سیکھا ہے - میرا خیال ہے کہ
بالکل نہیں سیکھا۔ اور جو خود اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا کرتے وقت و
حالات انہیں اچھا سبق سکھاتے ہیں۔
دکانداروں کا کہنا تھا کہ وہ تو سیاسی انتقام کی لپیٹ میں آجانے کے خوف کے
ڈر سے احتجاج بھی نہیں کر سکتے بس اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ بغض مشرف میں
لاہور کی اہم ترین ثقافتی نشانی کو بے حسی کے برتنوں میں سیاسی ڈھٹائی کا
تڑکہ لگا دیا گیا ہے۔
شرم ان کو مگر نہیں آتی۔ مگر لاہوریے دکاندار دکھی دل کے ساتھ یہ نعرہ
لگاتے ہوئے بھی پائے گئے کہ چلو جی کوئی گل نہیں لاہور لاہور ہے مگر اس
نعرے کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرنے کے لیے ان کی آنکھوں سے چوری چوری نکلنے
والے پانی کے قطرے جنہیں عرف عام میں آنسو کہا جاتا ہے کچھ اور ہی داستان
سنا رہے تھے۔
اہل لاہور آواز میں آواز ملا کر ہم بھی نعرہ مارتے ہیں کہ چلو جی کوئی گل
نہیں لاہور لاہور ہے۔ |