مہا بھارت کا اصل چہرہ ویسے تو
دنیا کی نظروں سے ڈھکا چھپا نہیں لیکن پھر بھی امن کی آشا کا ڈھول پیٹنے
والوں کو یاد دلاتا چلوں۔سانحہ گجرات کو دس برس ہونے کو آئے ہیں۔۔۔ مگر
سیکولر ہندوستان کے کسی تھانے کسی کچہری میں آج تک گجرات کے بے گناہ
مسلمانوں کے قتل عام کا مقدمہ درج نہ ہوا، نہ ہی کسی انصاف کی اعلیٰ عدالت
نے از خود نوٹس لیا ہے۔کیا مہا بھارت کی کسی عدالت نے بھی بے گناہ و مظلوم
مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے بی جے پی کے ہیرو نریندرا مودی سے اس
خون کا حساب مانگنے کی جرا ء ت کی؟؟تا ریخی بابری مسجد کو بھی بہندوتعصب
اور دہشت گردی کے پیش نظر 2 دسمبر1992 میں مسمار کردیاگیا اور یو پی کی بی
جے پی سرکا ر اور مرکز کی کا نگریس حکومت نے آنکھیں بند کرلیں کا نوں میں
انگلیا ں ٹھونس لیں اورآج تک اس جرمِ عظیم کے مجرم بھارتی سیاستدان بڑے
تفاخرکے ساتھ اس کارنامے کے بل بوتے پرسیاسی دوکان چلارہے ہیں۔
بابری مسجد گر اکر بھی ہندو دہشت گردی کو سکون نہیں ہوا، ممبئی سمیت کئی
شہروں میں مسلم کش فسادت بھی بر پا ہوئے ایسے کہ ممبئی کے مسلمان سر جھکا
کر با زار میں نکلتے تھے اس کے بعد سے اب تک کتنے ہی مسلم کش فسادات ہوئے
ہیں ان کے بارے میں سرکارابھی تک خا موش ہے 2002 گجرات میں سا برتی
ایکسپریس کے اندر سے آگ لگی اور کچھ یا تری ہلا ک ہو گئے۔ اس کا لزام ایک
منظم سازش کے تحت مسلمانوں پر عائد کیا گیا کہ انہوں نے باہر سے آگ لگائی
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے احمد آباد سمیت گجرات کے کئی شہروں میں مسلمانوں
کو بے دردی سے قتل اورزندہ جلا دیا گیا۔ عورتوں کی عصمت لوٹ لی گئی اور خود
بھارتی ذرائع ابلا غ نے ثابت کیا کہ یہ سب کچھ گجرات کے متعصب ظالم درندے
وزیر اعلیٰ نر یندر مو دی کے حکم اور اشارے پر ہوا۔۔ لیکن اصل مودی اس وقت
بے نقاب ہوا جب اس نے دس سال قبل گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والوں
کی سرکاری طور پر پشت پناہی کی۔ اور اپنی اس حرکت پر اس نے آج تک افسوس کا
کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا جس سے اس کی مسلمان دشمنی کا کھلا اظہار ہوتا
ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج سینکڑوں مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلنے والا
بھارت کی وزارت اعظمی کا امیدوار بھی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار بھارت کی نئی اور عام آدمی کی
آشاوں کے ساتھ سامنے آنے والی پارٹی کو نئی دہلی کے ریاستی کے اقتدار میں
آنے کے بعد کشمیر اور کشمیریوں کے مستقبل کے بارے میں خاموش رہنے کیلیے سخت
پیغام دے دیا گیا ہے۔ اس واقعے سے بھارت کی جمہوریت کا ایک ہفتے میں دو
مرتبہ چہرہ گدلا ہو گیا۔ عظیم جمہوریہ نے بنگلہ دیش میں دھاندلی سے سامنے
آنے والی عوامی رائے قبول کر لی جبکہ عوامی مینڈیٹ کی حامل حقیقی رائے رد
کر کے تشدد شروع کر دیا گیا۔
بھارت میں تشدد پسند ہندو جماعتوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر عملا ہولو کاسٹ کا
درجہ پا گیا ہے۔ اس لیے جمہوری ملک ہونے کے باوجود کسی کو اس بارے میں
سرکاری اور فوجی موقف سے ہٹ کر کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی
کو مجبورا سرکاری سکیورٹی نہ لینے کا فیصلہ واپس لینا پڑے گا۔
نئی نویلی عام آدمی پارٹی کے مرکزی رہنما پرشانت بھوشن نے جیسے ہی بھارت کے
روایتی موقف سے ہٹ کرعام آدمیوں کی طرح کھلی بات کی اور کشمیر میں فوجی
تعیناتی پر ریفرنڈم کے لیے کہا تو پہلے ہندو نواز میڈیا اور بعد ازاں پہلے
سے بھری بیٹھی جماعتوں نیعام آدمی پارٹی کی قوم سلامتی کے خلاف اس 'حرکت'
کو ناقابل معافی قرار دے دیا۔ انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے شدت
پسند سیاسی مخالفین کے ایک گروہ نے نئی دہلی کے نواح میں کوشامبی میں قائم
عام آدمی پارٹی کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔
ایسی ہی آواز عام پارٹی کے رہنما پشانت بھوشن نے تقریبا دو سال پہلے بھی
بلند کر تے ہوئے کہا تھا ''کشمیروں کو زبردستی ساتھ نہیں رکھا جا نا
چاہیے۔'' ہندو انتہا پسندوں کی جماعت رکشا دل کے ایک رہنما وشنو گپتا نے
پشانت بھوشن کے ان خیالات پر ان کی بذات خود دھنائی کر دی تھی۔
اس دھنائی کی تو کسی جمہوریت پسند جماعت یا اہنسا کے حامی نے مذمت نہ کی،
البتہ بھارتی میڈیا نے اپنے انداز میں نئے سرے سے پرشانت بھوشن کی خبر لینا
شروع کر دی۔ اب بھی یہی ہوا ہے۔ ایک اہم بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے
لکھا ہے کہ پرشانت بھوشن '' پرانا بھولتے ہیں، نہ نیا سیکھتے ہیں۔''
اگرچہ نئی نویلی پارٹی کے پرشانت بھوشن نے پوری بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور اس
کی بولی بولنے والوں کو پرانا بھولنے اور کچھ نیا سیکھنے کا ہی مشورہ دیا
ہے کہ ''کشمیروں کو زبردستی ساتھ نہیں رکھ جا سکتا، نیز کشمیر میں فوج کی
تعیناتی کیلیے عوامی ریفرنڈم کرنے کی تجویز دی ہے۔''
نئی دہلی کے مضافات میں کوشامبی میں قائم عام آدمی کے دفتر پر حملے کے بعد
اس نئی جماعت کو شاید اپنی نئی سوچ کو واپس لینا پڑے کہ "اس کے حکومتی عہدے
داروں اور دفاتر کیلیے سرکاری سکیورٹی نہیں لی جائے گی۔'' بی جے پی اور آر
ایس ایس کے ساتھ ساتھ رکشا دل کے برہم کارکن اسے بہ آسانی سکیورٹی لینے پر
مجبور کر دیں گے۔
دنیا کی عظیم جمہوریہ کو جمہوریت کی اس تازہ جمہوری کارروائی یعنی ایک
منتخب جماعت کے دفتر پر حملے سے محض چند روز قبل بھی اس وقت عالمی سطح پر
جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب بنگلہ دیش کے بدنام زمانہ انتخابات کو
یکطرفہ ہونے کے باوجود تسلیم کر لیا گیا لیکن اگلے ہی امریکا نے ان
انتخابات بھانڈا پھوڑتے ہوئے بالواسطہ طور پر بھارتی جمہوریت پسندی کا بھی
بھانڈا پھوڑ دیا۔تو دانشورو ایسا کرو امن کی آشا کے خوب گیت گاؤ اس مہا
بھارت کے جمہورانہ چہرے کی خوب دلیلیں دیتے رہو دنیا مہا بھارت کا ’’اصل
چہرہ‘‘ دیکھ چکی ہے۔۔۔! |