”گو مشرف گو......!“

ایک وقت تھا جب ”گو مشرف گو“ کا نعرہ بہت مقبول ہوا کرتا تھا جو بظاہر پاکستان کے وکلاءنے متعارف کرایا تھا اور بعد میں زبان زد عام ہوگیا، ایک طرف مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر تھاجبکہ دوسری طرف پاکستان کے طول و عرض میں ”گو مشرف گو“ کا نعرہ ایک طبل جنگ کی حیثیت رکھتا تھا، مجھے یاد ہے کہ میرا بیٹا طحہٰ اس وقت اڑھائی تین سال کا تھا اور جب میں کسی جلسے، جلوس سے واپس گھر جاتا تھا تو میرا بیٹا بھی مجھے ”گو مشرف گو“ کا نعرہ اپنی توتلی زبان میں لگاتا ملتا تھا۔ یہ نعرہ جس کا میں ذکر کررہا ہوں، اس وقت وکلاءاور عوام کا نعرہ ہوا کرتا تھا اور مقتدر حلقوں کو اس نعرہ سے کوئی سروکار نہیں ہوا کرتا تھا۔

پھر امریکہ بہادر کی ”مہربانی“ اور پاکستانی اداروں کی ”عقلمندی“ سے ایک دن ایسا آیا کہ پاکستان میں ان لوگوں کی ”ملغوبہ“ حکومت تشکیل پاگئی جو ظاہراً مشرف کو ناپسند کرتے تھے، نیز اس وقت عدلیہ کی کمان بھی اس شخص کے پاس تھی جو براہ راست مشرف کا ڈسا ہوا تھا حالانکہ یہ وہی چیف جسٹس تھے جنہوں نے ایک وقت بن مانگے مشرف کو آئین میں من مانیاں کرنے کی کھلی اجازت دی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مواخذہ کی ”دھمکی“ کے ذریعہ مشرف کو پاکستان سے باقاعدہ طور پر سلامی دیکر سرخ کارپٹ سے رخصت کیا لیکن اس کے باوجود راوی نئی حکومت کے لئے چین نا لکھ سکا اور این آر او کے کالعدم قرار دئےے جانے کے بعد دکھاوے اور ”مک مکا“ کی ایک تلوار پیپلز پارٹی حکومت اور اس وقت کے صدر زرداری کے سر پر لٹکی رہی۔

بعدازاں وقت نے کروٹ لی اور نئے الیکشن کی داغ بیل ڈالی گئی، اس مرتبہ بھی ایسے انتظامات کئے گئے کہ پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں بنیں جس میں تحریک انصاف کو بھی حکومت میں شامل کیا جائے تاکہ وہ حالات کی سنگینی اور حکومتوں کے پل صراط سے گذرتے رہیں اور زیادہ شور نہ مچا سکیں۔ الیکشن سے پہلے مشرف کا واپس پاکستان آنا ہر ایک کے لئے اچنبھے اور حیرانگی کا باعث تھا کیونکہ پورا پاکستان جانتا تھا کہ مشرف کی فیس بک کے علاوہ کتنی مقبولیت ہے اور ایم کیو ایم کے علاوہ کتنے اور لوگ و سیاسی جماعتیں ہیں جو اب بھی مشرف کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ نظر رسا رکھنے والے لوگ مشرف کی آمد کے دو پہلو بیان کرتے تھے، پہلا یہ کہ اپنی جائیداد کو، جو یقینا اربوں روپے کی قیمت رکھتی ہے، کو عدالتوں سے کلیر کرواکر فروخت کرنا، دوسرا یہ کہ بین الاقوامی گارنٹیوں کے بل بوتے پر پاکستانی عدالتوں سے اپنے آپ کو پاک و صاف قرار دلوانا۔ مشرف کے خلاف غداری یا آئین کو توڑنے کا کیس شروع میں تو ایک معمہ بنا رہا لیکن سانحہ راولپنڈی کی خوفناکی کو کم کرنے، آگ کو ٹھنڈا کرنے اور عوام کے جذبات کو موڑنے کے لئے افرا تفری میں مشرف کے خلاف کیس شروع کرنا پڑا جس سے بعض ملکی و بین الاقوامی قوتیں یقینا ناراض ہیں اور نہ صرف حکومت حکومت بلکہ کسی حد تک عدلیہ بھی اندر سے ڈری ڈری اور سہمی سہمی ہے، اسی لئے مشرف ابھی تک دیدہ دلیری سے عدالت میں نہ تو پیش ہوئے ہیں اور نہ ہی شائد ہوں اور اس سے پہلے ہی کوئی ایسا ”بندوبست“ ہوجائے کہ مشرف کو علاج کے نام پر پاکستان سے باہر بھیجا جا سکے کیونکہ مشرف کے پاکستان میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خلاف کیس چلتا رہے جس سے پینڈورہ باکس بھی کھلے گا اور بہت سے طاقتور پردہ نشینوں کے نام سامنے آنے کا خدشہ بھی بہرحال موجود ہے۔ اسی وجہ سے آجکل عوام کی ذہن سازی بھی کی جارہی ہے اور مشرف کو ایک ”مظلوم“کے روپ میں پیش کرنے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔ اگر منہ پر سیاہی کھانے والے احمد رضا قصوری مشرف کے وکیل نہ ہوتے تو شائد اب تک مشرف کو ایک مظلوم کا روپ دے بھی دیا جاتا لیکن اللہ بھلا کرے احمد رضا قصوری کا، جو ایسی حرکتیں اور ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں جس سے مشرف دور کی کارروائیاں یاد آتی رہتی ہیں۔

اس وقت صورتحال کچھ اس طرح کی بن چکی ہے کہ ”گو مشرف گو“ کا جو نعرہ کبھی عوام کی زبان پر تھا، اب حکومتی، عدالتی اور دیگر مقتدر شخصیات کے دلوں میں ہے اور وہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اگر مشرف اس ملک سے چلا ہی جائے تو بہتر ہے، چاہے اس کے لئے عدالتی حکم سے بنا میڈیکل بورڈ اپنی رائے دے یا کوئی اور طریقہ اختیار کیا جائے کیونکہ جن بین الاقوامی طاقتوں نے میاں نواز شریف کو مشرف کے ہاتھ سے بچایا تھا اور مکھن سے بال کی طرح نکالا تھا، انہی کی ضمانت لے کر مشرف پاکستان آیا تھا اور اب وہی درون خانہ سرگرم عمل بھی ہیں، چنانچہ پاکستانی عوام اور وکلاءحوصلہ رکھیں اور آج حکومت اور اپنی چہیتی عدلیہ کے ساتھ ملک کر بہ آواز بلند یہ نعرہ دوبارہ لگائیں ”گو مشرف گو....!“ اور یاد رکھیں کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207057 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.