انسانی حقوق اورامریکی امداد

امریکہ میں کیا ہورہا ہے اس بارے میں جاننا ممکن نہیں لیکن میڈیا رپورٹس میں بتایاجاتاہے کہ امریکی کانگریس نے پاکستان کے لئے دی جانے والی امداد کو جزوی طور پر ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا ہے۔ رواں مالی سال کا اضافی بجٹ منظور کرتے ہوئے کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی مدد کرنے والے ڈاکٹر کو فوری طور پر رہا کرتے ہوئے اس کے خلاف تمام مقدمات واپس لئے جائیں۔بصورت دیگر امریکہ پاکستان کو ملنے والی مجموعی سالانہ امداد میں سے 33ملین ڈالر کی ادائیگی روک لے گا۔ یہ امداد پاکستان میں شروع کئے گئے متعدد فلاحی منصوبوں کے لئے بے حد اہم ہو سکتی ہے۔ لیکن کانگریس نے اس کی پرواہ کئے بغیر طے کیا ہے کہ ایک فلاحی منصوبے کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس دستاویز میں دہشت گردی کے خلاف کارروائی اور فلاحی منصوبوں پر عملدرآمد کے حوالے سے بھی متعدد نئی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ان معاملات پر پیش رفت کے بارے میں ہر چھ ماہ بعد کانگریس کو تحریری اقرار نامہ فراہم کریں۔اس طرح امریکی عوام کے نمائندوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اہم ترین حلیف ملک کے خلاف ایک بار پھر بداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تعاون اور قربانیوں کو مشتبہ قرار دیا ہے جو پاکستان کے عوام اور حکومت نے گزشتہ گیارہ برس کے دوران امریکہ کے لئے دی ہیں۔ پاکستان میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ طالبان اور اس کے ہمنوا شدت پسند گروہ فوری طور پر امریکہ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔یہ مطالبہ منوانے کے لئے فوجی تنصیبات، سکیورٹی فورسز اور شہری آبادیوں کو بے دریغ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کل شام ہی پشاور کے نزدیک ایک تبلیغی مرکز میں دھماکہ کی وجہ سے دس بے گناہ نمازی جاں بحق ہو گئے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں بھی دہشت گردی کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ متعدد سیاسی گروہ اور مذہبی جماعتیں بھی یہ مؤقف اختیار کر رہی ہیں کہ امریکہ کے ساتھ افغانستان میں جنگ کے حوالے سے تعاون اہل پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔

ان سیاسی قوتوں کا کہنا ہے کہ سابق آمر پرویز مشرف کے دور میں سیاسی کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ناجائز طور پر امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں متعدد انتہاپسند گروہوں نے افواج پاکستان اور عوام کو اپنا دشمن قرار دیا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے حملوں کو جائز اور درست قرار دیتے ہیں۔ اس ظالمانہ طرز عمل کو اب مؤثر سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ امریکہ کے خلاف عوام میں بے چینی اور نفرت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔خاص طور سے امریکہ نے ڈرون حملوں کے حوالے سے یک طرفہ خودغرضی اور تکبر کا مظاہرہ کیا ہے اور نہایت ڈھٹائی سے مصالحت کی کوششوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ، عالمی انسانی تنظیمیں اور پاکستانی حکومت اور عوام اس طرز عمل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ یہ حکمت عملی ایک خودمختار دوست ملک کی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن امریکہ یک طرفہ طور پر اسے جائز کہہ کر اپنی اس ضد پر قائم ہے۔

ان حالات کے باوصف امریکی کانگریس کو قطعی طور سے اس بات کا احساس نہیں ہے کہ اہل پاکستان امریکہ اور امریکی فیصلوں کے بارے میں کس قسم کا مؤقف اور نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ بارہا امریکہ کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کے تعاون اور تفہیم کے بغیر جیتنا ممکن نہیں ہے۔ جب تک امریکی حکومت اور نمائندے دوسرے ملکوں کے عوام اور جذبات کو سمجھنے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک انتہاپسند گروہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور امریکہ و دیگر مغربی ممالک کے خلاف دہشت گرد تیار کرنے میں کامیاب ہوتے رہیں گے۔اپنی اقتصادی اور فوجی قوت کے زعم میں امریکہ، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی ضرورتوں اور زمینی حقائق کو سمجھنے سے انکار کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارہ برس تک دہشت گردوں کے خلاف صف آرا رہنے کے باوجود اب امریکی اور نیٹو افواج کو ناکام و نامراد افغانستان سے واپس جانا پڑرہا ہے۔ اس سے قبل عراق پر ناجائز اور غیر قانونی حملہ کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف نفرت اور ناپسندیدگی میں اضافہ ہؤا تھا۔ اب وہاں سے امریکی فوجوں کو سیاسی اور فوجی ہزیمت کے بعد واپس بلا لیا گیا ہے۔ تاہم اس ناجائز فوجی کارروائی کی وجہ سے عراق کو جو نقصان پہنچا ہے اور عام طور سے مسلمانوں کے دلوں میں جو کشیدگی پیدا ہوئی ہے اسے ختم کرنے کے لئے کئی دہائیوں تک کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔افغانستان میں جنگ کے حوالے سے پاکستان کے تعاون کے بارے میں بھی امریکہ نے اسی قسم کا یک طرفہ گھمنڈی اور ناقابل فہم رویہ اختیار کئے رکھا ہے۔ امریکہ کی طرف سے مسلسل پاکستانی افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر طالبان کی حمایت اور انتہاپسندی کی سرپرستی کا الزام لگایا جاتا ہے۔ تاہم نہ تو اس سلسلہ میں کوئی دستاویزی ثبوت فراہم کئے جاتے ہیں اور نہ ہی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعاون ترک کیا ہے۔ اگر پاکستانی افواج اور حکومت امریکہ کے ساتھ تعاون میں ناکام رہی ہیں تو وہ کون سی طاقت ہے جو امریکہ جیسی سپر پاور کو پاکستان کے ساتھ دوستی کے قصیدے پڑھنیاور تعاون جاری رکھنے پر مجبور کرتی ہے؟امریکی کانگریس ایک جمہوری ادارہ ہے۔ امریکہ قانون انسانی حقوق، عدالتی نظام اور عوامی رائے کو رہنما اصول مانتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس ملک کے ایک منتخب ادارے نے اب پاکستان سے یہ تقاضہ کیا ہے کہ وہ ملک کے عدالتی نظام اور قاعدے قانون کو نظرانداز کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کر دے۔ ورنہ پاکستان میں شروع کئے فلاحی منصوبوں کو دی جانے والی اہم امداد بند کر دی جائے گی۔ یہ طرز عمل نہ تو جمہوری ہے اور نہ ہی کسی اصولِ قانون پر پورا اترتا ہے۔ امریکہ کی یہی دوغلی پالیسی اسے پوری دنیا میں رسوا اور ذلیل کرنے کا سبب بنتی ہے۔ابھی چند ہفتے قبل نیویارک میں ایک بھارتی سفارتکار کو قانون کی خلاف ورزی کرنے کے شبہ میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرنے کے باوجود کہا تھا کہ یہ معاملہ پولیس اور عدالت کے پاس ہے۔ حکومت ان معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ حیرت ہے جو امریکہ ایک معمولی جرم میں ایک اہم دوست ملک کی سفارتکار کے خلاف نظامِ عدل کے سامنے لاچار ہے۔ اسی کی کانگریس کیوں کر پاکستان سے یہ تقاضہ کر رہی ہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو ہر قانونی اور عدالتی طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے رہا کر دیا جائے؟

مبصرین کاکہنا ہے کہ یہ رویہ افسوسناک ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ امریکی کانگریس کے نمائندے دوسرے ملکوں کی عدالتوں اور نظام کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ بے حد پیچیدہ ہے۔ اس معاملہ میں پاکستانی حکام نے کئی غلطیاں بھی کی ہوں گی۔ لیکن یہاں معاملہ ایک حکومت یا بعض عمال کی غلط حکمت عملی کا نہیں ہے۔ بلکہ ڈاکٹر آفریدی کو پاکستانی قانون کی متفرق شقات کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ انہیں ملک کے عدالتی نظام کا سامنا ہے۔ قانون کی بالادستی کی بات کرنے والی کانگریس کو اس طریقہ کار کا احترام کرنا چاہئے۔ بصورت دیگر اس کے طرز عمل سے نہ ڈاکٹر آفریدی کو فائدہ ہو گا اور نہ ہی امریکہ کی توقیر میں اضافہ ہو سکے گا۔
 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201533 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.