کتنی ماتم کروں؟ سچ یہ ہے کہ تھک گیا ہوں، گوہرآباد کا وہ
کونسا مسئلہ ہے جو محترم وزیر صاحب کے آنکھوں سے اوجھل ہے۔اور کونسا گوشہ
ہے جس کے مسائل انہی اخبارات کے ذریعے ان کی بار گاہ عالی تک نہیں پہنچائے
گے ہیں۔سچ ہے کہ نقارے میں طوطی کی کون سنتا ہے۔ ڈگڑی کالج کے ایک سٹوڈنٹ
نے ہلا کر رکھ دیا کہ :سر آپ کے علاقے کا ممبر کتنا لائق ہے، میں کیا کہتا
، سر پیٹتے رہ گیا، کونسی قابلیت و پارسائی؟اُف! اس انجان کے سامنے
گوہرآباد کی اصل صورت حال نہیں تھی ،تب تو ایسی سیدھی سادھی بات کہہ دی۔
قارئین!میںگلگت بلتستان کے وزیرتعمیرات بشیر احمد کو صرف اتنا جانتا ہوں
جتنا آپ جانتے ہیں، میں کھبی ان سے نہیں ملا ہوں اور نہ اس کی ضرورت محسوس
کی ہے تاہم ایک دفعہ گوہرآباد کے غصب شدہ جنگلات کے حوالے سے ان کی رائے
جاننے کی ضرورت پیش آئی تھی مگر رابط کرنے پر وہ ٹال کر گئے کیونکہ وہ خو د
غاصبین کی فہرست میں سر فہرست ہیں۔
دل کی بات یہ ہے کہ میں گوہرآباد کے دوسروں لیڈروں سے زیادہ ان کا لحاظ
رکھتا ہوں مگر کیا کروں کہ مجھ سے خواہ مخواہ ان کی مدح نہیں لکھی جاسکتی
ہے۔میں نے گوہرآباد کی پسماندگی کو جب بھی مختلف فور م میں بیان کیا تو نہ
چاہتے ہوئے بھی وزیرمحترم نشانہ بنے، کیونکہ وہ اس علاقے ایک نمائندہ ہیں
اور قوم بلکہ غریبوں کے ساتھ اس نے وعدے کیے ہیں۔جب سے وہ اسمبلی ممبر بنے
اور اب تو وزیر تعمیرات بھی بنے،میں انتظار میں رہا کہ گوہرآباد کے لیئے
کوئی چھوٹا سا کارنامہ انجام دیں اور میں اس کو ہائی لائٹ کروں مگر افسوس
ایساہوتا نظر نہیں آتا،کیا وزیر محترم گوہرآباد کے مسائل سے اتنا انجان ہیں
کہ سب ٹھیک ہے، لگتا ہے یا وہ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں،کیا گوہرآباد کے
تباہ شدہ پل، سکولوںکی بربادی، واحد ڈسپنسری کی زبوں حالی،واٹر چینل کی
شکستگی، اور روڈ کی تباہی جیسے بڑے بڑے مسائل جو منہ کھولے ہوئے ہیں، ان کی
نظر کرم سے عنقاء ہیں۔اصل صورت کیا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر ناچیز اس
تحریر کے توسط سے وزیر تعمیرات جناب بشیر احمد صاحب سے صرف اتنی گرازش
کرتاہے کہ خدارا! گوہرآباد کی حالت زار پر رحم کریں، اب تو آپ کے پاس بہتر
ین موقع ہے، اللہ نے ایک اہم وزارت آپ کے سپرد کیاہے ،اس سے فائدہ اُ ٹھاؤ
اور پسماندگی میں ڈوبے علاقے کے لئے کچھ تو کر جاؤ، مجھے آپ سے کوئی ذاتی
عداوت نہیں بلکہ بقول حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ،میں آپ کا خیر خواہ ہوں،
انہوں نے مصر کے گورنر اشتر کو ہدایات جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جو لوگ
آپ پر تنقید کرتے ہیں ان کے قریب ہو جاؤ اور ان کی بات کو غور سے سنو،
کیونکہ وہ آپ کے خیر خواہ ہیں،اور آپ کی بہتری چاہتے ہیں۔ اور جو چاپلوسی
کرتے ہیں ان سے دور بھاگو ، کیونکہ وہ دراصل آپ کے دشمن ہیں۔ ناجائز
تعریفوں سے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ گوہرآباد کا
ایک وزٹ کیا جائے اور لوگوں کے مطالبات سن کرصرف اور صر ف ایک ،ایسا کام
کریں جو آنے والی نسلیںآپ کو یاد کرنے پر مجبور ہوجائیں، کیا آپ کو یاد
نہیںکہ ووٹ کے دنوں آپ نے لوگوں سے کتنے وعدے کئے تھے؟کیا پیارے حبیب ۖ کی
وہ حدیث یاد نہیں کہ من لا عہد لہ لا ایمان لہ، تو اُٹھو،قدم بڑھاؤ اور صرف
اور صر ف ایک انقلابی کام کردکھاؤ، یاد رہے یہ عہدے آنی جانی والی چیزیں
ہیں۔ آج آپ کے پاس تو کل کسی اور کے پاس، مگر آپ کا کیا ہوا کام دیرپا
ہوگا۔اور آپ کو زندہ رکھے گا ، کیا آپ کو زندہ رہنے کی خواہش ہے، یقینا ہے
،تو پھر گوہرآباد کے کسی ایک گھاؤ کومندمل کر کے عوامی محبت کو سمیٹ
لو۔دونوں ہاتھوں سے، ورنہ پارٹیاں بدلتے رہو گے مگر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات |