وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ سے
ملاقات کے دوران صوبوں کو ان کا جائز حق دینے کے عزم کا اعادہ اورملک میں
مکمل امن قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ خیبر
پختونخواہ پرویز خٹک نے نئی مردم شماری کے مطابق وسائل کی ازسر نو تقسیم
اور طالبان کے ساتھ با اختیار مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے ۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے صوبوں کو جائز حق دینے کے عزم کا اعادہ
یقینا ان کے منصب کا تقاضہ اور قوم کیلئے خوش آئند ہے کیونکہ 18ویں ترمیم
کے بعد یہ ضروری ہوچکا ہے کہ صوبوں کے معاملات انصاف و مساوات کے اصولوں کے
تحت چلائے جائیں اور وسائل کی تقسیم مکمل طور پر غیر جانبدارانہ و منصفانہ
انداز میں کرکے چھوے صوبوں کے احساس محرومی کو دور کیا جائے کیونکہ یہی
احساس محرومی دہشتگردی اور عسکریت پسندی کی وجہ بھی ہے اسلئے دہشتگردی سے
نجات کیلئے ضروری ہے کہ پہلے اس احساس محرومی کو ختم کیا جائے جس کیلئے ویج
بورڈ سمیت دیگر تمام وسائل کو تمام صوبوں میں منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا
جائے مگر رقبے کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کسی طور بھی انصاف کے تقاضوں کو
پورا نہیں کرتی اسلئے سب سے ملک میں شفاف طریقے سے مردم شماری کرایا جانا
ناگزیر ہے اور پھر اس مردم شماری کے مطابق صوبوں میں آبادی کے تناسب سے
وسائل کی تقسیم ہی منصفانہ کہلائی جانے کے ساتھ صوبوں کے احساس محرومی کو
کم کرنے میںمددگار ثابت ہوکر دہشتگردی سے نجات کا ذریعہ بن پائے گی ۔ دوسری
جانب میاں نواز شریف جس مسند پر جلوہ افروز ہیں وہاں امن قائم کرنے کی
خواہش کا اظہار ان کے شایان شان نہیں بلکہ امن قائم کرنے کے دکھانا ان کا
فریضہ و تقاضہ منصبی ہے اسلئے قیام امن کی خواہشات کے ذریعے عوام کو تسلی و
تشفی دینے کی بجائے عوامی مینڈیٹ کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے امن قائم کیا
جانا ہی میاں صاحب کی شان و رتبہ میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ عوام
امن و تحفظ کے متلاشی و طلبگار ہیں اور انہیں امن و تحفظ کی فراہمی میاں
صاحب اور ان کی حکومت کا فریضہ ہے چاہے یہ امن مذاکرات کے ذریعے آئے یا
طاقت کے استعمال کے ذریعے عوام کو امن چاہئے اور امن کیلئے طاقت یا مذاکرات
دونوں میں سے کسی ایک بہتر راستے کا انتخاب کرکے مثبت نتائج فراہم کرنا
حکمرانوں کو حاصل مینڈیٹ کا تقاضہ ہے ۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کی جانب سے وزیراعظم سے طالبان کےساتھ
با اختیار مذاکرات کا مطالبہ یقینا اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پاکستان جس
مقام پرپہنچ چکا ہے وہاں مزید تاخیر ‘ مہم جوئی اور غلط تجربات بھیانک
نتائج و مضمرات کا باعث بن سکتے ہیں اسلئے قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمے
کیلئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔آدھا تیتر ‘ آدھا بٹیر کی سوچ ‘ طرز عمل
اور اقدامات منافقین کا شیوہ ہوتے ہیں اور منافقانہ طرز فکر و عمل نے ہی
پاکستان کو اس مقام تک پہنچادیا ہے کہ آج پاکستان کا کوئی گاؤں یا شہر نہ
تو مکمل پر امن ہے اور نہ ہی عوام و خواص میں کسی کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہے
۔
اسلئے دہشتگردی کے خاتمے اور قیام امن کیلئے حکومت ‘ فوج ‘ سیاستدانوں ‘
مذہبی جماعتوں اور عدلیہ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو پاکستان و قوم کے وسیع
تر مفاد میں ایک نکتے پر متفق ہوکر پوری دیانتداری ‘ توانائی ‘ دانشمندی
اور طاقت کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا اور اگر چہ یہ نکتہ طالبان سے
مذاکرات کا ہو تو پھر مذاکرات کا مقصد وقت کا زیاں یا قوم کو بے وقوف بنانا
نہیں ہونا چاہئے بلکہ مذاکرات ہوں تو مکمل با اختیار ہوں اور ان کے نتیجے
میں وہ مقاصد حاصل کئے جائیں جن کیلئے یہ مذاکرات کئے جارہے ہیں ۔
دوسری جانب باچاخان فاؤنڈیشن کے تحت جامعہ پشاور میں ہونے والی ملالہ
یوسفزئی کی کتاب کی تقریب رونمائی صوبائی حکومت کی جانب سے سیکورٹی فراہمی
سے انکار کے باعث ملتوی کردی گئی جس پر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے
خیبرپختونخواہ حکومت کے اس اقدام کو آزادی اظہار کیخلاف قرار دیتے ہوئے اس
پر اظہار افسوس تو ضرور کیا ہے مگر اس حوالے سے اپنی پارٹی کی حکومت سے کسی
باز پرس کا عندیہ نہیں دیا جس پر عوام کا کہنا ہے کہ یہ طرز عمل دکھانے کے
آنسو الگ اور بہانے کے آنسو الگ کا سا ہے مگر ہمارا خیال ہے کہ عمران خان
صاحب کو اب یہ جان لینا چاہئے کہ سیاست کرنے اور حکومت کرنے میں بڑا فرق
ہوتا ہے سیاست کرنا یقینا ایک مشکل کام اور منافقت بھری راہ ہے مگر حکومت
کرنا اس سے بھی زیادہ کٹھن اور پر فریب راستہ ہے اور لگتا ہے وہ وقت بہت
نزدیک ہے جہاں عمران خان کو حکومت یا سیاست دونوں میں سے کسی ایک راہ کے
انتخاب پر مجبو ر ہونا پڑے گا ۔ |