ملالہ یوسفزئی……مغربی سامراج کا نیا مہرہ

وادیِ سوات کی سولہ سالہ ملالہ یوسفزئی اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کی ایک نئی کٹھ پتلی کی حیثیت سے سامنے لائی گئی ہے۔ اس سے پہلے سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور مولی نورس اپنا اپنا ’’متعین‘‘ کردار ادا کرچکے ہیں۔ مبینہ طور پر ستمبر 2012ء کو ملالہ پر سکول جاتے ہوئے حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں وہ زخمی ہوئی۔ ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت ہمارے مخصوص ڈالرائزڈ میڈیا نے ایسا یک طرفہ شور مچایا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ دلیل، سچائی، تحقیق، برداشت، معروضیت اور آزادی رائے کو یک قلم طاق نسیاں پر رکھ دیا گیا۔ اسلام بیزار کالم نگاروں اور اینکر پرسنز نے اپنی مرضی کا ماحول پیدا کرکے حب الوطنی اور ملک دشمنی کا عجیب معیار قائم کردیا۔ جو ملالہ کے ساتھ ہے، وہ محب وطن اور تعلیم دوست ہے اور جو ملالہ نوٹنکی کے کرداروں کو بے نقاب کرے، وہ طالبان کا حامی اور تعلیم دشمن ہے۔ انتہا پسندی کا شور مچانے والے لبرل فاشسٹوں کا اپنا کردار نہایت مذموم ہے، عدم برداشت کا طعنہ دینے والے خود دوسروں کا نقطہ نظر سننے سے انکاری ہیں، مخالف آرا سنتے ہی رواداری کا درس دینے والوں کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیرنے لگتے ہیں اور منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوجاتی ہے۔ کوئی بتلائے کہ کیا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم حقائق و دلائل کی روشنی میں تصویر کا دوسرا رخ پیش کریں۔ مفاد پرستی کی عینک لگا کر صداقتوں کو جھٹلانے اور قوم کو گمراہ کرنے کی دانستہ کوششوں کو روکنا کون سا جرم ہے؟ کیا یہ دریافت کرنا گناہ ہے کہ یہ کس نوع کی نیورو سرجری تھی جس میں ملالہ کے سر کے بال نہیں کاٹے گئے۔ طرفہ تماشا کہ فائرنگ کلاشنکوف سے ہوئی اور نشان ائرگن کے چھرے جتنا ہوا۔ کیا ڈرامائی سین کہ ملالہ نے آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہی پین اور کاغذ مانگ لیا اور پوچھا: ’’میں کہاں ہوں؟‘‘

گوئبلز کے پیروکاروں سے دریافت کرنا چاہیے کہ ملالہ میں آخر کون سی خوبی ہے جس پر اس کے قصیدے پڑھے جارہے ہیں؟ کس اعزاز کی بنا پر اسے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا؟ کس کارنامے پر عالمی فتنہ گروں نے اس پر انعامات کی بارش برسا دی؟ کون سا ایسا معرکہ سر کیا ہے جس کے عوض ملکہ برطانیہ اور صدر امریکا ملالہ کے صدقے واری جا رہے ہیں؟ ملالہ نے کیا چیز ایجاد کی کہ ورلڈ بینک کے پریذیڈنٹ سے لے کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تک سب قارونوں نے اس کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیے؟ غیرت و حمیت اور حب الوطنی کے الفاظ سے چڑ کھانے والے ملالہ کے ہمدردوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ راجپال کے جانشینوں نے ملالہ کو اس کے لالچی باپ کے ذریعے استعمال کیا۔ اس سے کہلوایا گیا کہ رسوائے زمانہ ملعون سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ کو آزادی اظہار کے نام پر قبول کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے والے متفقہ فیصلہ کو غلط قرار دیا جائے۔ اس نے اپنی کتاب میں جابجا اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا نہ صرف حامی بلکہ سرپرست قرار دیا، حالانکہ یہ وہی فوج ہے جس نے ملالہ اور اس کے خاندان کو طالبان سے نجات دلائی، سکول اور گھر واپس کروایا اور لاکھوں روپے امداد میں دیے۔

مغربی سازش یہ ہے کہ ملالہ کو پاکستانی بچیوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جائے۔ ہمارے میڈیا نے اس گھناؤنی سازش میں بھرپور تعاون کیا۔ یاد رہے مغرب کی سیکس ماڈل (طوائف) میڈونا نے ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے برہنہ بدن پر ملالہ کا نام کندہ کروا کر جو واہیات ڈانس کیا، کیا ہماری بچیوں کو ملالہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر یہی کرنا چاہیے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو ملالہ کے پرموٹرز اس کی ابتدا اپنے گھر سے کریں۔

ملالہ کے غم میں ہلکان ہونے والوں سے پوچھا جاسکتا ہے کیا میڈیا نے گجرات کی اس بہادر خاتون سمیعہ نورین کو بھی کوئی ایوارڈ دینے کی تحریک چلائی جس نے سکول وین میں پھنسے بچوں کی زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی جان کانذرانہ پیش کیا اور شہید ہوگئی۔ معصوم لائبہ کے لیے میڈیا میں ایک منٹ کے لیے بھی بات نہ ہوئی جس کی ڈرون حملے میں ایک ٹانگ ضائع ہوگئی۔ میڈیا کو تو وہ نبیلہ بھی یاد نہ آئی جس کی دادی ڈرون حملے میں شہید ہوئی، گھر تباہ ہوگیا اور اس نے خوف زدہ ہو کر سکول جانا اور سہیلیوں سے کھیلنا ترک کر دیا۔ بولان میڈیکل کالج میں شہید ہونے والی بچیوں کو بھی میڈیا نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ میڈیا نے تو اس اندوہناک واقعہ پر بھی حسب معمول مجرمانہ خاموشی اختیار کی کہ سولہ سالہ عراقی عبیرہ جس نے برطانوی فوجیوں کی ہوسناک نظروں کے ڈر سے سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ بعد ازاں فوجیوں نے اسے اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بناتے ہوئے پورے خاندان سمیت قتل کردیا۔

کیا ملالہ کے پروموٹرز بتانا پسند فرمائیں گے کہ نفرت کی سیاہی سے لکھی جانے والی ملالہ کی کتاب ’’I am Malala ‘‘ کے پس پردہ کونسی قوتیں کار فرما ہیں؟………… سابق برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے ملالہ کی کتاب کی اشاعت میں مالی معاونت کیوں کی؟………… پاکستان دشمن صحافی کرسٹینا لیمب نے کتاب کے اصل مسودہ میں کیا ردوبدل کیا؟………… ملالہ بغیر سرکاری دستاویزات کے برطانیہ کیسے پہنچی؟………… قادیانی جماعت کے خلیفہ مرزا مسرور کی ملالہ کے والد سے ملاقات میں کونسے خفیہ معاملات طے پائے؟………… آزادی اظہار کے نام پر بدنام زمانہ گستاخِ رسول ملعون سلمان رشدی کی وکالت کس کے ایما پر کی گئی؟………… پاک فوج با لخصوص آئی ایس آئی کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا میں کونسا خفیہ ہاتھ سر گرم رہا؟………… ملالہ ڈرامہ سے اختلافِ رائے رکھنے والوں کا یکطرفہ میڈیا ٹرائل کیوں ہوا؟………… ملا لہ کے لالچی والد نے اپنی بیٹی کے لیے ’’آکٹو پس‘‘ کا کردار کیوں ادا کیا؟………… ملالہ کو کن یقین دہانیوں پر نو بیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا؟………… عالمی گلوکار بونو (Bono) کے ملالہ سے ’’خصوصی تعلقات‘‘ کیسے استوار ہوئے؟………… یہ ہیں وہ سلگتے سوالات جن کے جوابات ملالہ کے ہمدردوں پر قرض ہیں۔
Muhammad Mateen Khalid
About the Author: Muhammad Mateen Khalid Read More Articles by Muhammad Mateen Khalid: 17 Articles with 25381 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.