میری التجاء۔۔۔!!!!!

ملک میں بڑے بڑے لکھنے والے قلم کار ویسے تو بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں‘ حکومتی کالم ہو تو انہیں لکھنے کیلئے اپنے تمام جوہر استعمال کرتے ہیں۔ ٹی وی پر سیاسی لوگوں کو بلوانا اور سیاست پر بحث کرنا بھی آتا ہے۔ میں آج ان لکھاریوں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے نوجوان آج کس طرف جا رہے ہیں؟ ہمارے ملک میں کھیل کیوں ختم اور گراؤنڈ کیوں سنسان ہو رہے ہیں۔ میں اکثر ایک چیز کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں جب کوئی ویگن یا بس رکتی ہے تو مانگنے والوں کی ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے اور انکی فریاد اور التجاء سن کر ایک مسلمان ہونے کے ناطے دل دہل سا جاتا ہے۔ مانگنے والا جب اپنی فریاد کرتا ہے تو اسکی فریاد ہوتی ہے کہ اسکے بوڑھے ماں باپ دو دن ے بھوکے ہیں اور میرے چھوٹے بہن بھائیوں نے کچھ نہیں کھایا خدارا میری مدد کی جائے۔ یہ پڑھے لکھے نوجوان اپنا نشہ پورا کرنے کیلئے جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ میری بہن کی شادی ہے‘ میری امداد کی جائے‘ یہ باتیں دل میں ایسے اتر جاتی ہے کہ بندہ انکو بھیک دینے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاید اسکا بوڑھا باپ یا ماں واقعی بھوکی ہو کیونکہ ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو ایسی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ بھیک مانگنے والوں کا یہ روز کا معمول بن گیا ہے۔ صبح سے شام تک جتنی بھی بھیک اکٹھی ہوتی ہے یہ شام کو جا کر منشیات کی لعنت پر خرچ کر دیتے ہیں۔ جب انکو بھیک نہ دی جائے تو یہ نشہ پورا کرنے کیلئے اپنے گھر سے ہی چوریاں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ میری بہن کا جہیز کا سامان ہے یا یہ میرے بوڑھے والد کی آخری پونجی ہے انہیں صرف اپنے نشہ سے غرض ہے۔ نہ تو ان پر پولیس ہاتھ ڈالتی ہے اگر غلطی سے انکو پولیس میں دے بھی دیا جائے تو بمشکل گھنٹہ حراست میں رکھ کر رہا کر دیا جاتا ہے۔ پولیس ڈرتی ہے کہ اگر انہیں جیل میں بند کیا گیا تو انہیں نشہ نہ ملنے پر یہ موت کے منہ میں بھی جا سکتے ہیں۔ پولیس اگر نشہ کرنیوالوں کو نہیں پکڑ سکتی تو کیا پولیس نشہ فروخت کرنیوالوں کو بھی نہیں پکڑ سکتی؟ مگر پولیس یہ منطق عجیب ہے کہ اگر نشہ فروخت کرنیوالوں کو پکڑ لیا تو بیچارے یہ نشہ کرنیوالے ”فوت“ ہو جائینگے۔ اسلئے پولیس نے نشہ فروخت کرنے والوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے آخر کب تک پاکستان کے نوجوان نشہ کی لعنت سے مرتے رہیں گے‘ اور کتنے گھرانے اس نشہ کی لعنت سے اُجڑتے رہیں گے؟ پہلے ہم سنتے تھے کہ بھنگ کا نشہ ہے‘ شراب کا نشہ ہے‘ چرس کا نشہ ہے اب ایک اور ایڈوانس نشہ ملک میں تحفتاً آ گیا جسکا نام شیشہ بتایا جاتا ہے۔ شیشہ پینے والوں میں امراء کی اولادیں شیشہ کلبوں میں مرغولے اُڑاتی نظر آتی ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سے ایسے شیشہ کلب ہیں جہاں نوجوان نسل مرد و زن اکٹھے بیٹھے کر شیشہ پیتے ہیں۔ اب تک حکومت کی جانب سے نہ ہی ان کلبوں پر پابندی لگائی گئی اور نہ ہی کسی حکومتی ادارے نے یہ پوچھا کہ یہ شیشہ کلب کیا ہیں کیونکہ ان کلبوں میں بڑے بڑے امراء کی اولادیں بیٹھی ہوتی ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ ہیروئن کا نشہ ہوتا ہے اور اس لعنت نے ایسے ایسے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جن کی آج تک واپسی نہ ہو سکی ہے۔ ہمارے مذہب اسلام میں نشہ کرنا حرام ہے اور علماء کرام بھی بتاتے ہیں کہ نشہ کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے کیونکہ نشہ کرنیوالا یہ بھول جاتا ہے کہ سامنے اسکی ماں بہن یا بیٹی کھڑی ہے۔ میری التجاء ان حکومتی وزراء سے جو نشے پر کانفرنسز اور سیمینارز تو کرتے ہیں جو کاغذوں کی نظر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ میری گذارش ملک کے ان لوگوں سے ہے جو قانون ناف کرتے ہیں خدارا اپنے ملک کے نوجوانوں کو نشے کی لعنت سے بچا لو اور انکے لئے کچھ ایسا کر جاؤ کہ یہ ملک کے ایک مہذب شہری بن کر سامنے آئیں اور ملک کی خدمت کر سکیں۔ ان والدین پر کیا بیتتی ہو گی کہ جن کے اولادیں سارا سارا دن سڑکوں پر پڑی ہوتی ہیں۔ کوئی ماں باپ نہیں چاہتا کہ انکا بیٹا نشے کی لعنت پر گذار دے کیونکہ انکی امید انکی اولادیں ہوتی ہے کسی نے بھی آج تک اس بارے میں نہیں سوچا کہ یہ نشہ کرنے والا کسی باپ کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا ہو گا۔ یہ بھی اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بنے گا۔ حکومت ایک طرف تو بڑی بڑی باتیں کرتی ہے مگر کب اس نشہ کی لعنت کو ختم کیا جائیگا۔ ہمارے ملک کے بڑے بڑے ٹی وی اینکرز کو چاہئے کہ وہ ان حکومتی وزراء کو بلوا کر انکی توجہ نشہ کی لعنت پر دلوائیں‘ ہمارے نوجوان پھر گراؤنڈز میں آ جائیں‘ اپنے ملک کا نام روشن کریں نہیں تو آنیوالے دنوں میں ملک سے کھیلوں کا نام ختم ہو کر رہ جائیگا جیسا کہ آج ہمارے ملک میں ہاکی‘ فٹ بال‘ والی بال نام کی رہ گئی ہیں۔ خدارا ان پر توجہ دیں۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Mirza Arif Rasheed
About the Author: Mirza Arif Rasheed Read More Articles by Mirza Arif Rasheed: 11 Articles with 8570 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.