حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ سمرہ بن جندبؒ کہتے ہیں
حضرت عمرؓ نے فرمایا مرد بھی تین قسم کے ہوتے ہیں اور عورتیں بھی تین قسم
کی ہوتی ہیں۔ ایک عورت تووہ ہے جو پاک دامن، مسلمان، نرم طبیعت، محبت کرنے
والی، زیادہ بچے دینے والی ہو اور زمانہ کے رواج کے خلاف اپنے گھروالوں کی
مدد کرتی ہو (سادہ رہتی ہو) اور گھروالوں کو چھوڑ کر زمانہ کے رواج پر نہ
چلتی ہو لیکن تمہیں ایسی عورتیں بہت کم ملیں گی۔ دوسری وہ عورت ہے جو خاوند
سے بہت زیادہ مطالبے کرتی ہو اور بچے جننے کے علاوہ اس کا اور کوئی کام نہ
ہو تیسری وہ عورت ہے جو خاوند کے گلے کا طوق ہو اور جوں کی طرح سے چمٹی
ہوئی ہو (یعنی بداخلاق بھی ہو اور اس کا مہر بھی زیادہ ہو جس کی وجہ سے اس
کا خاوند اسے چھوڑ نہ سکتا ہو)ایسی عورت کو اﷲ تعالیٰ جس کی گردن میں چاہتے
ڈال دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اس کی گردن سے اتار لیتے ہیں اور مرد تین
قسم کے ہوتے ہیں ایک پاک دامن، منکسر المزاج، نرم طبیعت، درست رائے والا
اچھے مشورے دینے والا۔ جب اسے کوئی کام پیش آتا ہے تو خود سوچ کر فیصلے
کرتا ہے اور ہر کام کو اس کی جگہ رکھتا ہے دوسرا وہ مرد جو سمجھدار نہیں اس
کی اپنی کوئی رائے نہیں ہے لیکن جب اسے کوئی کام پیش آتا ہے تو وہ سمجھدار
درست رائے رکھنے والے لوگوں سے جا کر مشورہ کرتا ہے اور ان کے مشوروں پر
عمل کرتا ہے۔ تیسرا وہ مرد جو حیران وپریشان ہو اسے صحیح اورغلط کا پتہ
نہیں چلتا یوں ہی ہلاک ہو جاتا ہے کیونکہ اپنی سمجھ پوری نہیں اور سمجھدار
اور صحیح مشورہ دینے والوں کی مانتا نہیں ۔
قارئین!سٹیو جابز وہ انسان ہے کہ جس نے موجودہ تہذیب وتمدن کو نئی جہتوں سے
روشناس کرایا ہو، ٹچ ٹیکنالوجی کے ذریعے چلنے والے آئی فونز متعارف کروا کر
سٹیو جابز نے پوری دنیا میں اپنی کمپنی کو کوکا کولا کے بعد دوسرا بڑا
برانڈ بنا دیا سٹیو جابز کی کمپنی کے اثاثے ایک انتہائی مختصر مدت میں
اربوں ڈالرز تک پہنچ گئے اور ایک دن ایسا آیا کہ جب سٹیو جابز کو بتایا گیا
کہ اس کو ایک ایسی مہلک بیماری لاحق ہو چکی ہے کہ اس کی زندگی چند ماہ باقی
رہ گئی ہے سٹیو جابز نے اس موقع پر میڈیا پر اپنے خیالات شیئر کرتے ہوئے
دنیا کی ناپائیداری اور بے ثباتی کے متعلق تاریخی گفتگو کی اور اربوں ڈالرز
کے اپنی کمپنی کے اثاثے بیماریوں کے خلاف کی جانے والی ریسرچ کے لئے وقف
کرنے کا اعلان کیا۔
بل گیٹس کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے کہ دنیا کہ بیس امیر ترین لوگوں
کی فہرست میں شامل مائیکرو سافٹ کمپنی بنانے والے اس انسان نے جب حقیقت پا
لی تو اپنی کمپنی کے اربوں ڈالرز کے اثاثے انسانیت کی خدمت کے لئے وقف
کردیئے۔
قارئین! اوپر بیان کردہ دو زندہ داستانوں کے علاوہ اگر ہم ماضی اور تاریخ
کو ٹٹول کر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قارون جیسا انسان بھی گزرا ہے کہ
جس کے خزانوں کی صرف چابیاں ہی ستر ہزار اونٹوں پر لدی ہوتی تھیں لیکن وہ
خدا کا نافرمان تھا اور اسی نافرمانی کے نتیجے میں وہ اپنے خزانے سمیت زمین
میں غرق ہو گیا اورقیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے نشانہ عبرت بن گیا۔
اسی طرح مزید دیکھتے ہیں تو ہمیں الیگزنڈر یعنی سکندر یونانی یا سکندر
مقدونی نام کا ایک فاتح دکھائی دیتا ہے جس نے پوری دنیا فتح کی اورجب وہ
مرنے لگا تو اس نے نصیحت کی کہ میرے دونوں ہاتھوں کو قبر سے باہر رکھا جائے
تاکہ دنیا یہ جان سکے کہ فاتح عالم اس دنیا سے خالی ہاتھ گیا ہے
قارئین!اس تمہید کے بعد ہم آج وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید سے ایک
سوال پوچھنے والے ہیں کہ جناب آپ نے کیا ہمیشہ اس دنیا میں رہنا ہے یا مرنا
بھی ہے اور اگر مرنا ہے تو کیا آپ نے مرنے کی کچھ تیاری کر رکھی ہے یہاں ہم
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے دوست اور ان کے گھر کے بالکل سامنے رہنے والے
ایک مہربان بزرگ کی سچی باتیں ان کے گوش گزار کر رہے ہیں۔ بانی کشمیر انسٹی
ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میرپور حاجی محمد سلیم نے ڈائیلاسز سنٹر میرپور کی کرسی
پر ڈائیلاسز کروانے کے دوران نم آنکھوں اور بھرائی ہوئی آواز میں راقم کو
بتایا کہ میں نے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے ہونے والی خصوصی ملاقات میں
ان کی دلی خواہش کا احترام کرتے ہوئے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو
مکمل دل کے امراض کے علاج کا ہسپتال بنانے کے لئے تیسرے مرحلے کی توسیع کا
کام شروع کیا تھا آج جب یہ کام مکمل ہو گیا ہے تو ہمیں یہ بتایا جا رہا ہے
کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میل میڈیکل وارڈ کو KIC میں شفٹ کیا جا رہا
ہے یہ دل کے مریضوں کیساتھ بہت بڑی زیادتی ہو گی کہ دل کے امراض کے علاج کے
لئے بنائے جانے والے سپیشلائزڈ یونٹ میں اپنے مفادات کی غرض سے میڈیکل وارڈ
کے مریضوں کو منتقل کر دیا جائے میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کا دل سے
احترام کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اس شدید زیادتی پر مبنی اقدام کو
فی الفور روکیں گے اور ہماری دعوت پر تیسرے مرحلے کی توسیع کے بعد بننے
والے KICکے نئے یونٹ کا افتتاح اپنے ہاتھوں سے کریں گے میں میڈیا کے
مجاہدوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا اس نیک مشن میں ہماری مدد کریں اور
زیادتی پر مبنی اس اقدام کو اپنے قلم کی طاقت سے روکیں۔ حاجی محمد سلیم نے
کہا کہ 2002ء میں سردار سکندر حیات خان جو اس وقت کے وزیر اعظم تھے انہوں
نے دل کے امراض کے علاج کے لئے بنائے جانے والے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف
کارڈیالوجی کا اپنے ہاتھوں سے افتتاح کیا تھا اور امید کا اظہار کیا تھا کہ
وقت گزرنے کے ساتھ یہ پودا جوان ہوتا جائے گا اور ایمرجنسی کارڈیالوجی کیئر
کی سہولیات وقت گزرنے کے ساتھ کارڈیک سرجری تک ترقی کریں گی میں نے 2001ء
میں برطانیہ سے آکر ڈی ایچ کیو ہسپتال میرپور میں چند وارڈز بنانے کا عندیہ
دیا تھا جس پر اس وقت کے اس ہسپتال کے ایم ایس اور موجودہ ڈائریکٹر جنرل
ہیلتھ ڈاکٹر عبدالقدوس نے مجھے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ڈی ایچ کیو
ہسپتال میں میڈیکل وارڈ کے اندر سی سی یو کے یونٹ میں ٹوٹل چھ بیڈ موجود
ہیں جن پر دل کے مریضوں کے علاوہ میڈیکل ایمرجنسی کے دیگر مریض بھی داخل
ہوتے ہیں اور وقت کی ضرورت ہے کہ آزاد کشمیر کے میرپور ڈویژن میں اٹھارہ
لاکھ سے زائد آبادی میں موجود دل کے مریضوں کے لئے سپیشل کارڈیالوجی یونٹ
قائم کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم نے ایک سو مریضوں کے لئے
KICمیں امراض قلب کا ایمرجنسی یونٹ قائم کر دیا جس میں اس وقت ڈاکٹر
اورنگزیب عالمگیر، ڈاکٹر رضوان عابد، ڈاکٹر یوسف چوہدری اور ڈاکٹر رضا
گورسی جیسے کارڈیالوجسٹس کے علاوہ دیگر میڈیکل آفیسرز کام کر رہے ہیں KIC
میں پورے آزاد کشمیر کے علاوہ صوبہ پنجاب کے میرپور سے ملحقہ علاقوں جہلم،
کھاریاں، گجرات، دینہ، سوہاوہ اور گوجر خان تک کے مریض علاج معالجے کی غرض
سے آتے ہیں۔ 2010میں مجھے بتایا گیا کہ KIC میں مریض اتنے زیادہ آنا شروع
ہو چکے ہیں کہ موجودہ یونٹ ان سب کو سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہو چکا ہے
اور مریضوں کو واپس بھیجنا پڑتا ہے اس پر میں نے اﷲ ہی کی عطا کردہ استعداد
اور ہمت کے مطابق چالیس سے پچاس بیڈز پر مشتمل ایک نیا یونٹ بنانا شروع کیا
جس کا افتتاح جنوری 2011ء میں اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق
احمد خان نے کیا۔ جب موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید
برسراقتدار آئے اور انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل کالج میرپور اور
دیگر میڈیکل کالجز آزاد کشمیر میں قائم کئے تو اپنے وعدے کے مطابق میں
انہیں مبارکباد دینے ان کی رہائشگاہ پر گیا جہاں اعلیٰ بیورو کریسی کے
درجنوں افسران کی موجودگی میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ KIC کو
تین سو بستروں پر مشتمل مکمل کارڈیالوجی ہسپتال بنانے کے لئے میں اپنا
کردار ادا کروں میں نے وزیراعظم آزاد کشمیر کی خواہش کے احترام میں نئے
یونٹ پر کام کرنا شروع کیا اور اب اس کا تعمیراتی کام مکمل ہو چکا ہے اور
اب جبکہ ہم آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کو KICمیں مدعو کر کے
اس یونٹ کا افتتاح ان کے دست مبارک سے کروانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو
ہمیں ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر مشتاق چوہدری نے دل دہلا دینے والی
یہ خبر دی ہے کہ وہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کے میڈیکل وارڈ کو KIC میں منتقل
کرنے والے ہیں یہ سراسر زیادتی ہے اور میں وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے
اپیل کرتا ہوں کہ اس مذموم منصوبے کو ترک کیا جائے کیونکہ ڈی ایچ کیو
ہسپتال میں سرجیکل وارڈ، ای این ٹی وارڈ اور حال ہی میں محی الدین اسلامک
میڈیکل کالج کے عملے سے خالی کرائی جانے والی تین منزلہ بلڈنگ خالی پڑے ہیں
اگر میڈیکل وارڈ کو شفٹ کرنا ہے تو ان خالی جگہوں میں شفٹ کیا جائے۔ حاجی
محمد سلیم نے کہاکہ ہمارے دوستوں اور خیر خواہوں میں برطانیہ اور میرپور
میں ایسے مخیر حضرات موجود ہیں جو صرف یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ KICکا
انتظام چلانے کے لئے ایک چیریٹی بنا کر بورڈ آف گورنر تشکیل دیا جائے جس کے
سربراہ چاہے وزیراعظم آزاد کشمیر خود ہوں یا وہ میرپور ڈویژن کے کمشنر کو
اس کا سربراہ بنا دیں اور میرپور اور برطانیہ سمیت پوری دنیا میں آباد
پندرہ سے بیس افراد پر مشتمل بورڈ آف گورنر ز منتخب کر لیں تو ہر سال
کروڑوں روپے کے ڈونیشن کا انتظام ہو سکتا ہے ایک دوست نے تو یہاں تک کہا ہے
کہ بورڈ آف گورنرز بنتے ساتھ ہی وہ KIC میں انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی
کے لئے کئی کروڑ روپے مالیت کا یونٹ اور مشینری اپنی جیب سے خرید کر دیدیں
گے۔ خدارا دل کے مریضوں کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے اور میں میرپور اور آزاد
کشمیر بھر کے سیاسی، سماجی اور فلاحی نمائندوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس
فعل کے خلاف وہ اپنی آواز بلند کریں۔ حاجی محمد سلیم نے کہا کہ میں بلڈ
پریشر شوگر اور گردوں کے امراض میں مبتلا ہوں اورڈائیلاسز کرواتا ہوں مجھے
اندازہ ہے کہ غریب گھرانے کے کسی فرد کو اگر دل کا مرض لاحق ہو جائے اور وہ
لاکھوں روپے کاآپریشن کرانے کی حیثیت نہ رکھتا ہو تو اس پر اوراس کے
اہلخانہ پر کیا گزرتی ہے ہم نے ایک دن اﷲ کے پاس لوٹ جانا ہے میں وزیراعظم
سے اپیل کرتا ہوں کہ آخرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دل کے امراض میں مبتلا
دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہماری مدد اور رہنما کریں ہم حکومت اور ریاست
پر کوئی بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ تارکین وطن اور مخیر مقامی حضرات کے
تعاون سے KICکو مکمل دل کا ہسپتال بنا کر اپنا اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں
KIC کے خلاف سازشیں بند کی جائیں میں نے اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ
ڈاکٹر عبدالقدوس اور سیکرٹری صحت عامہ جنرل عباس سے بھی رابطہ کیا ہے اور
اپنی تشویش سے آگاہ کیا ہے بجائے اس کے کہ KICکو بارہ سال گزرنے کے بعد دل
کے آپریشن کرنے کیلئے اپ گریڈ کیا جائے الٹا دیگر وارڈز یہاں شفٹ کر کے دل
کے مریضوں کاسکون برباد کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اس مستقبل کے دل کے
مکمل ہسپتال کو ایک چھوٹا سا یونٹ بنانے تک محدود کیا جا رہا ہے ہم اس کے
خلاف باوجود خرابی صحت کے بھرپور احتجاج کریں گے۔
قارئین!وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے ماضی میں ہم سب سے بڑے ناقد رہے ہیں
لیکن کشمیر کو صوبہ بنانے کے خلاف جب انہوں نے نیشنل اورانٹرنیشنل میڈیا پر
یہ بیان دیا کہ ’’ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی کشمیر کو صوبہ بنایا جا سکتا
ہے ‘‘ہم ان کے سب سے بڑے مداح بن چکے ہیں آج ہم ان سے اپیل کرتے ہیں کہ
خدارا لاکھوں دل کے مریضوں کی دعائیں لینے کے لئے حاجی محمد سلیم کی فریاد
سنی جائے اور اس زہریلے منصوبے کو ترک کر کے KICکا بورڈ آف گورنرز بنا کر
اسے مکمل دل کا ہسپتال بنانے کی بنیاد رکھی جائے۔ وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید ایک دن آپ نے بھی مرنا ہے ایک دن میں نے بھی مرنا ہے اورایک دن
حاجی محمد سلیم جیسے انسانیت کی خدمت کرنے والے عظیم انسان نے بھی اﷲ کے
پاس لوٹ جانا ہے۔ آئیے اپنی اپنی سطح پر مرنے کی تیاری کر لیتے ہیں بقول
چچا غالب کہتے چلیں
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زبان کوئی نہ ہو
بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار
اور اگر مر جائیے تونوحہ خواں کوئی نہ ہو
ہمیں امید ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید ہماری آج کی گزارش
پر دل کی آنکھ کھول کر غور فرمائیں گے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ڈاکٹر نے ایک غریب مریض کو چیک اپ کے بعد دوائی لکھ کر دی اورکہا
’’ یہ شربت دن میں تین مرتبہ پینا ہر کھانے کے بعد‘‘
مریض نے رونی صورت بنا کر جواب دیا
’’ڈاکٹر صاحب شربت تو میں پی لوں گا لیکن کھانا کون کھلائے گا ‘‘
قارئین! خلق خدا روٹی کھانے سے مجبور ہے اس پر طرفہ تماشہ مہنگا علاج ۔اس
صورتحال میں حاجی سلیم جیسے لوگ معاشرے میں موجود امید کی وہ روشنی ہیں کہ
جن کی حفاظت ضروری ہے امید ہے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید آندھیوں کی زد میں
آئے ہوئے اس دیپ کی حفاظت کرکے اپنی عاقبت کے لئے زاد راہ اکٹھا کریں گے۔ |