حکومت و طالبان مذکرات پر متفق ہوگئے

گزشتہ روز برطانوی اخبار ”گارجین “ نے پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناءاللہ کے حوالے سے دعویٰ کیاتھا کہ انہوں نے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے، لیکن آپریشن کی نوعیت کا اختیار فوج کو دیا جائے گا۔ رانا ثناءاللہ کے اس بیان کو جہاں متعدد شخصیات کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، وہیں اس بات کا بھی سنگین خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ واقعی حکومت طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کرنے جارہی ہے اور یہ فیصلہ ملک کو کسی بڑے بحران سے دوچار کرسکتا ہے، لیکن بدھ کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے مذاکرات کو ترجیح دےنے کی بات کی تو تمام خدشات خود بخود دم توڑ گئے۔ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا کہنا تھاکہ امن کے حصول کے لیے تمام قوم یکسو ہوچکی ہے، ہم ماضی کے تلخ تجربات کو پس پشت رکھتے ہوئے پر امن حل کو ایک اورموقع دینا چاہتے ہیں، مذاکرات کی پیش کش کی ہے، لیکن مذاکرات کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ دہشتگردی کی وارداتوں کو فوری طور پر بند کردیا جانا چاہیے۔ ملک میں امن کا کا قیام ہمارا مشترکہ قومی مشن ہے کہ اس میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم امن کی خواہش میں 7 ماہ سے لاشیں اٹھا رہے ہیں، لیکن ایک بار پھر مذاکرات کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے جس میں عرفان صدیقی، میجر ریٹائرڈ محمد عامر، رحیم اللہ یوسف زئی او افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم مہمند شامل ہوں گے، چودھری نثار روز مرہ معاملات پر کمیٹی کی معاونت کریں گے اور وہ خود اس کی نگرانی کریں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے حکومت واضح موقف اور حکمت عملی پر پہنچ چکی ہے۔ اس مسئلے پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور تمام سیاسی جماعتوں کی رائے لی گئی، ریاستی اداروں کے ذمہ داران سے بھی رابطہ رہا، اجتماعی دانش کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے۔ اقتدار اللہ کا کرم اور عوام کی امانت ہے، ہم اپنے کاموں پر اپنے رب اور عوام کے سامنے جواب دہ ہیں، حکومت کا بنیادی فریضہ ہے کہ عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کیا جائے، پاکستان کے عوام اور ادارے دہشتگردی کی زد میں ہیں، اس صورت حال میں وہ اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ عوام کے جان و مان کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے، اسلام میں ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے، دنیا کا کوئی مفتی اس کے جواز کا فتویٰ نہیں دے سکتا، اسلام کا دہشتگردی سے کوئی واسطہ نہیں، وہ ہر انسان کی جان کو محترم قرار دیتا ہے، ریاست کا فرض ہے کہ اگر کسی کی جان ناحق لی گئی ہو تو ریاست اس کی داد رسی کرے۔قوم 14 سال سے دہشتگردی کا عذاب برداشت کررہی ہے، یہ ایک آمر کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جس نے پاکستان کو فساد کا گڑھ بنادیا ہے، ہزاروں پاکستانیوں کی جان لے لی گئی۔ اس میں عام شہری، سیکورٹی فورسز کے جوان اور علما بھی شامل ہیں، اس کے باوجود ہم نے ایسے عناصر کو موقع دیا کہ وہ امن کا راستہ اختیار کرے، اے پی سی میں سیاسی جماعتوں نے ہمیں مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تاکہ وہ لوگ عام شہریوں کے جان و مال سے نہ کھیلیں اور ملک کے آئین کی پاسداری کریں، ڈرون حملوں کو رکوانے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کررہی ہے، لیکن ہم ان لوگوں کو بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو اسے جواز بنا کر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکی ڈرون حملے میں طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کی موت کے بعد مذاکرات کی امید موہوم ہوتی جارہی تھی،لیکنسال نو کی ابتدا میں جمعیت علمائے اسلام(س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے مجھے طالبان سے مذاکرات کرنے کو کہا ہے، جس کے بعد مذاکرات کے حوالے سے امید ظاہر کی جارہی تھی،لیکن رواں مہینے کے تیسرے ہفتے وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مختصر تحریری بیان میں کہا گیا کہ مولانا سمیع الحق سے دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لیے عمومی بات ہوئی تھی۔ انھیں کوئی متعین مشن نہیں سونپا گیا تھا۔ اس کے ردعمل میں جمیعت علمائے اسلام کے ترجمان کی جانب سے جاری ہونے والے وضاحتی بیان میں کہا گیا کہ 20 سے 22 دن کی مکمل خاموشی کے بعد وزیراعظم ہاو ¿س سے جاری ہونے والی تردید انتہائی حیران کن ہے۔مولانا سمیع الحق یہ معاملہ اب قوم پر چھوڑتے ہیں اور وہی یہ فیصلہ کرے کہ کون سچ اور کون جھوٹ بول رہا ہے۔اس کے بعد مولانا سمیع الحق نے مذاکرات سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں وزیراعظم کی جانب سے مثبت ردعمل نہ ملنے کی وجہ سے طالبان کے ساتھ مجوزہ مذاکراتی مشن سے الگ ہو رہا ہوں۔ مسلسل رابطے کی کوشش کے باوجود نواز شریف کی طرف سے کوئی جوابی رابطہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس بارے میں وزیراعظم کو بھیجے گئے خط کا جواب دیا گیا۔ مولانا سمیع الحق کا وزیر اعظم کو لکھے گئے ایک خط میں کہنا تھا کہ میں نے آپ (وزیر اعظم) سے ملاقات کے دو دن بعد ہی تحریک طالبان پاکستان کے متعلقہ اہم افراد سے رابطے کیے، انھوں نے مذاکرات کے سلسلے میرے اور آپ کے اعلانات اور کوششوں کو بے حد سراہا اور کہا کہ ہم سنجیدہ، مستحکم، پائیدار، بامعنی اور مثبت مذاکرات کے حامی ہیں۔ پہلے بھی کبھی ہم نے انکار نہیں کیا لیکن ہمیشہ ہمیں موردِ الزام ٹھہرایا گیا اور مذاکرات سبوتاڑ کرانے والوں کا کسی نے سراغ نہ لگایا۔ خط کے علاوہ ایک بیان میں سمیع الحق کا کہنا تھا کہ انھوں نے طرفین سے جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔جس کے بعدگزشتہ ہفتے تحریک طالبان پاکستان نے حکومت پر مذاکرات میں سنجیدہ نہ ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا سمیع الحق کا اس عمل سے علیحدہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ حکومتی حربے سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔مولانا سمیع الحق اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے بارے میں متضاد بیانات اور تردیدوں کے بعد تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا بیان ذرائع ابلاغ کو ارسال کیا گیا، جس میں طالبان نے حکومت کے ان دعووں کو سختی سے رد کیا کہ طالبان مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے: ’ہم پاکستان کے مسلمانوں پر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ تحریکِ طالبان نے کبھی سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات سے انکار نہیں کیا، لیکن یہ منافق حکمران مذاکرات کے نام پر آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔‘طالبان کے ترجمان نے کہا کہ سمیع الحق کی دستبرداری یہ ثابت کرتی ہے کہ حکومت بات چیت کے لیے سنجیدہ اور مخلص نہیں ہے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں سیکورٹی فورسز نے جیٹ طیاروں کی مدد سے کارروائی کی تھی جس میں کم ازکم 50 افراد مارے گئے تھے، حکومت اور فوج کی جانب سے وزیرستان میں ممکنہ آپریشن کے بعد سے وزیرستان سے نقل مکانی شروع ہوچکی تھی جو کہ ابھی تک جاری ہے۔ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے بمباری کے بعد پچیس ہزار سے زیادہ افراد خیبرپختونخواہ کے مختلف علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔یہ لوگ کوہاٹ، ڈی آئی خان اور پشاور منتقل ہوئے ہیں ۔ابھی تک لاکھوں افراد شمالی وزیرستان میں موجود ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ شاید کوئی معاہدہ ہو جائے یا دونوں طرف سے فائربندی ہوجائے۔ بہرحال وزیر اعظم نوازشریف کی جانب سے آنے والے بیان کے بعدوزیر اعظم کی طرف سے مذاکرات کی دعوت دیے جانے کے بعد پنجابی طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل سے بھی وزیراعظم کی سنجیدگی کا اظہار ہو رہا ہے۔ پنجابی طالبان کے امیر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی چار رکنی کمیٹی میں باخبر اور جہاندیدہ افراد کو شامل کیا گیا ہے جو طالبان کی بات سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اگر حکومت مزید سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو وہ بھی خیر مقدمی اقدامات کریں گے۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بھی کہا ہے کہ مذاکرات کیلئے حکومتی کمیٹی کے قیام کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے طالبان سے مذاکرات کیلئے قائم کمیٹی کے ارکان پر کوئی خاص تحفظات نہیں ہیں۔ ا ±مید ہے کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدگی دکھائے گی۔

امیرجماعت اسلامی سید منورحسن نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے خود طالبان سے مذاکراتی عمل سبوتاڑ کیاا ور حکومت میں اتنا دم بھی نہیں آپریشن کا فیصلہ کرسکے۔ 6 ماہ قبل بلائی گئی اے پی سی میں وزیر اعظم کو تمام مسائل سے آگاہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ کوئی فیصلہ نہ کرسکے، جس کی وجہ سے مذاکراتی عمل سبوتاڑ ہوا اور اس معاملے پر سبوتاڑ بھی لفظ چھوٹا ہے، مگر اس سے بہترین لفظ وہ استعمال نہیں کرسکتے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے قومی اسمبلی اجلاس کے دوران خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف کو خوش آمدید کہا، انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کی باتیں سن کر خوشی ہوئی، ہم واقعی وزیراعظم کو مس کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے بیان کی ابھی مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ رانا ثناءاللہ کے بیان سے صوبوں کے درمیان انتشار پھیل سکتا ہے۔ وزیر اعظم رانا ثناءاللہ کے بیان کا نوٹس لیں، رانا ثناءاللہ کے بیان سے لگا کہ پنجابی آرمی پشتون کے خلاف کارروائی کرے گی۔ خیبر پختونخوا میں ان کے بیان پر شدید ردعمل ہے، مذاکرات کو خفیہ نہ رکھا جائے۔ وزیر اعظم کی مذاکرات کی خود نگرانی کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ پہلے بھی انہیں خود ہی نگرانی کرنی چاہیے تھی۔جبکہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے طالبان سے مذاکرات کا برملا اور واضح نقشہ پیش کردیا لیکن بہتر ہوتا اس فیصلے سے پہلے حکومت کا اتحادی ہونے کے ناطے ہم سے مشاورت کرلی جاتی تو ہم وزیراعظم کو حساس معاملات سے بھی آگاہ کرتے، اگر وزیراعظم آج جنگ کا طبل بجا دیتے تو ہمارا لب و لہجہ کچھ اور ہوتا، ملک کی موجودہ صورتحال پر تمام سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔ حکومت کے پاس اختیارات نہیں اہم فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں ،جس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں طے پانے والے معاملات اور فیصلوں پر اتفاق رائے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور ہمیں یہ بات چھپانی نہیں چاہیے اور اس وقت پہلا سوال ملک کی سلامتی کا ہے، 30 سال سے ہماری مغربی سرحدوں پر جنگ ہورہی ہے جس کی وجہ سے بہت خون بہہ چکا، سویت یونین کے خاتمے اور نائن الیون کے بعد ہمیں امریکا کی وہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی جغرافیائی حدود حتمی نہیں۔ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے جب امریکا نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی تاج برطانیہ کی تھی اور 21 صدی ہماری ہے اور دنیا کی جغرافائی تقسیم ازسرنو ہمارے مفادات کے مطابق بنے گی۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700871 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.