ناکارہ سی سی ٹی وی کیمرے۔۔۔ شواہد محفوظ نہ ہونے سے مجرمان محفوظ

پاکستان میں بدامنی، قتل و غارت گری اور جرائم کی شرح میں روزبروز ہوتے اضافے کو کنٹرول کرنے میں حکومت ناکام دکھائی دے رہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے ہر طرح سے جرائم پیشہ عناصر کی نگرانی کرکے ان کی گرفت نہیں کی جارہی۔ اکثر ممالک میں خفیہ کیمروں(سی سی ٹی وی کیمرے) سے مدد لے کر جرائم میں ملوث افراد کو کیفرکردار تک پہنچایا جاتا ہے۔یہ خفیہ کیمرے کافی حد تک جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں معاون بھی ثابت ہوتے ہیں۔ ان کیمروں کے ذریعے مختلف قسم کے جرائم پیشہ عناصر پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ٹریفک کے مسائل کی بھی نگرانی کی جاتی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کا مقصد سیکورٹی کو یقینی بنانا اور جرائم پیشہ لوگوں کو کنٹرول کرناہوتا ہے۔ اسی لیے بیرون ممالک سی سی ٹی وی کیمروں پر بھاری بھرکم لاگت خرچ کی جاتی ہے۔ بگ بردر واچ کے مطابق برطانیہ میں برمنگھم کونسل نے چند برسوں میں 636 سی سی ٹی وی کیمروں پر 14.29 ملین پونڈ کے اخراجات کیے ہیں، برطانیہ میں موجود دیگر سیکڑوں سٹی کونسلوں نے مجموعی طور پر سیکورٹی کے لیے لگائے گئے کیمروں پر 500 ملین پونڈ لگائے ہیں، جب کہ برمنگھم کے لندن کی ویسٹ منسٹر کونسل جہاں برطانیہ کے شاہی خاندان کے محلات، ہاؤس آف کامنز، ویسٹ منسٹر ایبی اور دیگر اہم تاریخی مقام واقع ہیں، وہاں گزشتہ چند برس میں10 ملین پونڈ خرچ ہوئے۔اسی طرح سڑکوں پر ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے صرف برطانیہ میں سی سی ٹی وی کیمرے روزانہ کی بنیاد پرسڑکوں پر کاروں کی 26 ملین تصاویر کھینچتے ہیں۔ برطانوی حکومت کے پاس ہر کار کی 472 سی سی ٹی وی تصاویر موجود ہیں اور یہ تصاویر 8 ہزارکیمروں پر مشتمل نیٹ ورک سے کھینچی جاتی ہیں۔ آٹو میٹک نمبر پلیٹ ریکگنیشن کیمروں سے کھینچی گئی تصاویر کو جرائم سے نمٹنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ 2018 ءتک ہر روز تقریباً گاڑیوں کی 75 ملین تک تصاویر کھینچی جائیں گی۔ 26 ملین تصاویر فی روز کے حساب سے تصاویر کی شرح 2012 ءکے مقابلے میں 61 فیصد زیادہ ہے۔ 2012ءمیں ہر روز 16 ملین تصاویر کیمروں میں محفوظ کی جاتی تھیں۔ اسی طرح برطانیہ میں اسکولوں میں جرائم کی روک تھام کے لیے بھی سی سی ٹی وی کیمروں کا ستعمال کیا جارہا ہے۔ بگ برادر واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرائم کی روک تھام کے لیے ایک لاکھ سے زاید سی سی ٹی وی کیمرے سیکنڈری اسکولوں اور اکیڈمیوں میں نصب کیے گئے ہیں۔ اسی لیے یورپ میں جرائم پیشہ عناصر بالکل آزاد نہیں ہیں، بلکہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے ان کی نگرانی کرکے انہیں گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف پاکستان میں دن بدن بڑھتی جرائم کی شرح کے باوجود سی سی ٹی وی کیمروں پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جارہی۔ ملک کے تقریباً تمام شہروں میں بہت سے سی سی ٹی وی کیمرے ایک عرصے سے خراب ہیں، جن کو ٹھیک کرنے کی طرف حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ تازہ اطلاع کے مطابقگوجرانوالہ میں جوڈیشل کپلیکس کے 24 میں سے 8 سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہیں۔ 7 سی سی ٹی وی کیمرے بالکل بھی کام نہیں کر رہے، جبکہ آٹھواں کیمرا کچھ حد تک کام کرتا ہے اور یہ تمام کیمرے گزشتہ تین سے چار ماہ سے خراب ہیں۔ حالانکہ جوڈیشل کمپلیکس میں واقعہ جوڈیشل لاک اپ (بخشی خانہ ) اور سیشن کورٹ میں خطرناک مجرموں کے فرار اور گزشتہ 6ماہ میں دو افراد کے قتل کے واقعات کے بعد سیشن کورٹ اور جوڈیشل کمپلیکس میں سیکورٹی اقدامات میں اضافہ تو کیا گیا ہے، تاہم خراب سی سی ٹی وی کیمروں کو ٹھیک کروانے اور جوڈیشل کمپلیکس میں لگائے گئے 24کیمروں کے نیٹ ورک کو سیشن کورٹ کمپلیکس میں بنائے گئے مرکزی کنٹرول روم میں شفٹ کرنے کا کام نہیں ہوسکا۔ یہی حال کراچی کا ہے، جہاں روز قتل و غارت گری، اسٹریٹ کرائم اور لوٹ مار کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں اور ملزمان آسانی سے فرار ہوجاتے ہیں، اس کے باوجود سی سی ٹی وی کیمروں کی بحالی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ جبکہ گزشتہ ماہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العبا دخان یہ کہہ چکے ہیں کہ جرائم کی وارداتوں میں ملوث عناصر کی گرفتاری میں CCTV کیمروں سے اہم مدد ملی ہے۔ اس لیے شہر بھر میں CCTV کیمروں کا جال بچھانے کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ جہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے، ان علاقوں کو فوکس کیا جائے، خاص طور پر شہر کے اطراف کے علاقوں میں بھی ان کیمروں کی تنصیب کی جائے۔ گورنر عشرت العباد نے 20 دسمبر تک تمام کیمرے فعال کرنے کا حکم جاری کیا تھا، اس کے باوجودکراچی میں سی سی ٹی وی کیمروں کو ٹھیک نہ کیا جاسکا۔ گورنر سندھ کے اس حکم کے بعد کراچی میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے، جن میں ایک جمعیت علمائے اسلام (س) کے رہنما مفتی عثمان یار خان کا قتل اور دوسرا ایکسپریس نیوز کے تین کارکنوں کا قتل، دونوں واقعات میں قاتل قتل کرنے کے بعد آسانی سے فرار ہوگئے اور واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل نہیں کی جاسکی، کیونکہ ان دونوں مقامات پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے خراب تھے۔ گزشتہ سال کراچی انتطامیہ کی جانب سے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے اور جرائم پیشہ افراد پر نگاہ رکھنے کے لیے فوری طور پر مزید 600 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اس فیصلے کے تحت کراچی میں شاہراہ فیصل ،آئی آئی چندریگرروڈ ،ماڑی پور روڈ ، ایم اے جناح روڈ، شاہراہ لیاقت، شاہراہ پاکستان، یونیورسٹی روڈ سمیت اہم شاہراہوں اور مقامات پر مزید 600سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جانے تھے۔ ان کیمروں میں 250کیمرے ساؤتھ زون، 200کیمرے ویسٹ زون اور 150کیمرے ایسٹ زون میں نصب کیے جانے تھے۔ اسی طرح گزشتہ ہفتے سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل انعام میمن نے بھی اپنے بیان میں کراچی میں سی سی ٹی وی کیمروں کو ٹھیک کرنے کی ہدایت کی ہے، لیکن اس سب کے باوجود کراچی کے بہت سے کیمرے ابھی تک خراب ہیں اور نہ ہی ان احکامات پر عمل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ مہینوں کی رپورٹ کے مطابق شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں لگائے گئے 194 سیکورٹی کیمرے کئی ماہ سے بند پڑے ہیں، مرمت نہ ہونے کے سبب 40 مقامات پر لگائے گئے کئی کیمرے ناکارہ ہوگئے ہیں۔شہر کے اہم مقامات اور شاہراہوں کی نگرانی نہیں ہوپارہی، دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں کے بنیادی شواہد محفوظ نہیں کیے جاسکتے، دہشت گرد، خفیہ کیمروں کی خرابی کا بھرپور فائدہ اٹھانے لگے، جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے۔

بلوچستان پولیس دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہونے کی بجائے روایتی پرانے طریقوں پر عمل پیرا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سی سی ٹی وی کیمرے نہ لگا نے سے جرائم پر کنٹرول نہیں ہورہا۔ کوئٹہ شہر ایک عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان سمیت مختلف جرائم کا ہونا عام سی بات بن گئی ہے، ایسے میںجرائم پر قابو پانے کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب انتہائی ضروری ہے۔ امن ومان کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے کوئٹہ میں تقریبا چھ سال قبل صوبائی حکومت نے 529 سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی منظوری دی تھی، جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا۔ اس وقت پورے شہر میں چند سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں اور ان میں سے بھی کچھ کام ہی نہیں کررہے ، دہشت گرد اور ٹارگٹ کلر آزادی سے پورے شہر میں جب چاہیں جہاں چاہیں کارروائی کر کے آسانی سے فرار ہوجاتے ہیں۔یہ خیال رہے کہ جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظرصوبہ خیبرپختونخوا کی انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا کام شروع کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ پشاورمیں ہائی ریزولوشن کیمروں کی تنصیب پر 6 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔پشاورشہر کے 40 چوکوں اور چوراہوں پر جدید کیمرے لگیں گے،متعدد مقامات پر برقی آنکھیں لگ چکی ہیں، جدید کیمروں کی مدد سے غیر رجسٹرڈ گاڑیوں کا پتہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ حکام کے مطابق ٹریفک معاملات کے ساتھ ساتھ ان کیمروں کو مشتبہ گاڑیوں، افراد اور دیگر سیکیورٹی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701041 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.