کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک
مرتبہ پھر ”ربڑ سٹمپ“ پارلیمنٹ اس قوم کو مایوسیوں کے گہرے اندھیروں میں
دھکیلنے کی کوشش کررہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد مشرف کے ٹرائل میں
اب کیا رکاوٹ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر آدمی دوسرے سے پوچھ رہا ہے لیکن اس
کو کوئی جواب دینے والا نہیں۔ پارلیمنٹ میں براجمان تمام جماعتیں اور ان کے
قائدین ایک مرتبہ پھر ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہر جماعت بال کو دوسرے کے
پاس پھینک رہی ہے کہ وہ ”ہٹ“ لگائے لیکن سب کو پتہ ہے کہ وہ کتنے پانی میں
ہے۔ اس حمام میں سارے ہی ننگے ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب پارلیمنٹ میں
خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ متفقہ قرار داد منظور کرائے تو
وہ مشرف کے ٹرائل کے لئے تیار ہیں۔ نواز لیگ والے الفاظ کی جنگ لڑ رہے ہیں
اور ان کا فرمان ہے کہ حکومت کارروائی کرے۔ قوم کو ایک بار پھر الجھایا
جارہا ہے کہ مشرف کے ٹرائل سے پنڈورا بکس کھل جائے گا اور پتہ نہیں کون کون
سی قیامتیں ٹوٹ پڑیں گی۔ اگر آئین کی بات کی جائے اور کہا جائے کہ بھائی
آئین کا آرٹیکل اس سلسلہ میں بہت واضح ہے کہ اگر کوئی آئین شکنی کا مرتکب
ہو تو اس کے خلاف بغاوت کے جرم کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل
6 کے تحت مقدمہ چلانے کے لئے وفاقی حکومت کو ”رولز“ بنانے پڑیں گے اور
مقدمہ قائم کر کے ”ٹرائل“ کرنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں یہ کہنا کہ پہلے اس کو
سکند مرزا اور ایوب خان سے شروع کیا جائے اور تمام آمروں کو سزا دی جائے
اور مشرف کے خلاف بھی 12 اکتوبر کا مقدمہ چلایا جائے، صرف اور صرف صورتحال
کو الجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے تاکہ نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے
گی!
سپریم کورٹ نے 12 اکتوبر 1999 کو آنے والے مارشل لاء کے خلاف ابھی تک کوئی
حکم نہیں سنایا لیکن 3 نومبر 2007 کے جتنے غیر آئینی اقدامات تھے ان کے
خلاف فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے اس سے پہلے بھی
عدلیہ بحالی کو ناممکن قرار دیا تھا اور مشرف کے الفاظ میں کہا تھا کہ چیف
جسٹس اب قصہ ماضی ہیں اور پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک مرتبہ جانے والا
کبھی واپس نہیں آیا لیکن پھر کیا ہوا؟ اس ملک کے عوام نے حکومت کو بتا دیا
کہ اب بہت ہوچکا اور مزید قابل برداشت نہیں۔ عوام کی طاقت ہی تھی جس نے
وکلاء کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک ایسا کام کروانے میں کامیاب
ہوگئے جس کی مثال پوری دنیا میں پہلے موجود نہ تھی۔ یہی پیپلزپارٹی تھی اور
اسی کے قائدین تھے جو آئے روز ججز کی بحالی کے خلاف بیانات داغتے تھے اور
مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں عدلیہ بحالی کو ناممکن قرار دیتے نہیں تھکتے تھے
لیکن جب قوم نے سروں پر کفن رکھ کر، باہر نکل کر تحریک چلائی اور بالآخر
3نومبر 2007 والی عدلیہ بحال ہوگئی تو وہی پیپلز پارٹی اور اس کے قائدین
بڑھ چڑھ کر اس کا کریڈٹ لینے لگے لیکن قوم کو معلوم ہے کہ تحریک کس نے
چلائی اور عدلیہ بحالی کا اصل کریڈٹ کسے جاتا ہے۔
پرویز مشرف کے جرائم اتنے سیاہ اور بڑے ہیں کہ اگر اس کو معافی مل گئی تو
برے سے برے اور بڑے سے بڑے شیطان کو بھی معافی ملنی چاہئے، اگر ایک قومی
مجرم کو قصہ ماضی سمجھ کر اس کے خلاف کچھ نہ کیا گیا اور معافی دے دی گئی
تو پھر پاکستان میں آمریت کو کبھی روکا نہیں جا سکے گا اور جب کسی کا دل
چاہے گا وہ دوبارہ آمریت کی چادر اوڑھ کر آجائے گا اور اس وقت نہ تو عدلیہ
کچھ کر پائے گی اور نہ عوام کسی کے کہنے پر نکلیں گے۔ اب جبکہ عوام نے دیکھ
لیا ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں مشرف پر مقدمہ کے
سلسلہ میں کوئی مثبت کام سرانجام دینا ہی نہیں چاہتیں اور یہ بیل منڈھے
چڑھانا ہی نہیں چاہتیں تو اس کا حل کیا ہے؟ کون آگے آئے گا اور مشرف کو اس
کے جرائم کی سزا دینے کے لئے جدوجہد اور کوشش کرے گا؟ میں سمجھتا ہوں کہ
ایک بار پھر قوم کو باہر نکلنا ہوگا اور حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ پر دباﺅ
ڈالنا ہوگا کہ مشرف ایک قومی مجرم ہے اور اس کو ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔
صرف آئین سے غداری ہی نہیں مشرف پر اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ بھی ضرور
چلنا چاہئے تاکہ بلوچستان میں جو آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور
اسے بڑھاوا دینے کی جو کوششیں ہو رہیں ان کا بھی سد باب کیا جا سکے۔ مشرف
کے خلاف لال مسجد اور گمشدہ افراد کا مقدمہ بھی چلنا چاہئے۔ مشرف پر عافیہ
صدیقی کا مقدمہ بھی قائم ہونا چاہئے اس کے علاوہ اس کے جتنے جرائم ہیں ان
سب کی پاداش میں مقدمات قائم کرنا از حد ضروری ہے۔ اس کے لئے ایک نئی تحریک
کی بنیاد رکھنی ہوگی اور میں دیانتداری سے سمجھتا ہوں کہ اسی تحریک سے ایک
نئی قیادت بھی سامنے آئے گی۔ اس تحریک میں بلا شبہ وکلاء کو بھی ایک بار
پھر سڑکوں پر نکلنا ہوگا کیونکہ انہوں نے 2 سال سے زیادہ عرصہ ایک نئی اور
تاریخی تحریک کی قیادت کر کے قوم کو اور دوسرے عناصر کو بتا دیا ہے کہ جب
کوئی دیانتداری سے محنت کرتا ہے اور اچھے مقصد کے لئے کوشش کرتا ہے تو
کامیابی اس کے قدم ضرور چومتی ہے۔ وکلاء کے لئے بہت سنہرا موقع ہے کہ جس
وقت پاکستان کی سیاسی قوتیں ایک بار پھر ناکامی سے دوچار ہیں، پارلیمنٹ کچھ
نہیں کر پارہی، حکومت بے بس ہے اور عوام پریشان اور بدحال ہیں، ایسے وقت
میں وہ ایک بار پھر نکلیں اور مشرف کو سزا دلوانے کے لئے اپنا کردار ادا
کریں، وہ دیکھیں گے کہ پاکستان کے عوام ایک بار پھر ان کے ساتھ ہوں گے،
مشرف کو سزا مل گئی تو انشاءاللہ پھر کسی آمر کو اس طرح کے اقدامات کرنے
اور جمہوریت پر شبخون مارنے کی جرات نہیں ہوسکے گی۔ عوام کو بحیثیت مجموعی
ایک قوم بننا ہوگا اور وکلاء کو اس قوم کا دامے، درمے، سخنے ساتھ دینا ہوگا
ورنہ وہ کالی رات جو مشرف نے اس قوم کے مقدر میں لکھی تھی اس کی سحر نہیں
ہوسکے گی۔ ہمیں مل جل کر اجلی اور روشن سحرکو لانا ہے، ہر فرد کو اپنی جگہ
پر بھی کوشش کرنی ہے اور مشترکہ طور پر بھی تبھی قومی اہداف حاصل ہوسکیں
گے! |