جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی

تسلیم شدہ اُصول تو یہ ہے کہ جو تکلیف دے اُس سے دور رہا جائے، تعلق ترک کردیا جائے۔ جس سے وفا کی برائے نام بھی اُمید نہ ہو اُس سے دامن کش ہو رہنے ہی میں فلاح پوشیدہ ہے۔ مگر ہم نے تو جیسے تمام مُسلّمہ اُصولوں کو نظر انداز، بلکہ تاراج کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ کم از کم امریکا کے معاملے میں تو قدم قدم پر یہی ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے۔
میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؂
میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عَطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!

ہمارے لیے امریکا وہی عَطّار کا لونڈا ہے اور اُس کے باعث بیمار پڑنے کا ایسا چسکا پڑا ہے کہ ہم کسی طور کچھ بھی سیکھنے کی طرف مائل ہی نہیں ہوتے۔ ہوں بھی کیسے؟ کبھی شخصی یا انفرادی مفادات آڑے آجاتے ہیں اور کبھی معاملات ریاستی سطح پر ایسے اُلجھ جاتے ہیں کہ لاکھ سُلجھائے نہیں سُلجھتے۔ وارفتگی کا عالم یہ ہے کہ امریکا کی خوشنودی تو عزیز ہے ہی، اُس کی ناراضی بھی اچھی لگتی ہے کہ اِس صورت میں رُوٹھے یار کو منانے کا موقع ملے گا! اِس مرحلے میں پھنسے ہوئے لوگ حاشیہ برداری کے کمالات دِکھانے پر تُل جاتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان میں پنجے گاڑے تو بہت سوں کی آنکھیں چمک اُٹھیں کہ اب واحد عالمی قوت کی خدمت کا بہتر موقع اور من چاہا، بلکہ مُنہ مانگا صِلہ بھی ملے گا۔ شہنشاہ جب نوازنے پر آتے ہیں تو کسی حد کا کب سوچتے ہیں؟ اور کون سا اپنی جیب سے کچھ جاتا ہے؟ کسی کو لُوٹا اور اُس لوٹ کے مال ہی سے کسی کو نواز دیا!

افغانستان میں بارہ برس کے دوران جو کچھ ہوا ہے اُس کے نتیجے میں ہمارے قومی مفادات کی ایسی تیسی ہوگئی ہے۔ مگر یہاں کون ہے جسے اب قومی مفادات کی فکر لاحق ہو؟ اور کیوں ہو؟ سب کو اپنی تجوریاں بھرنے سے غرض ہے۔ مُلک اگر بِک بھی جائے تو اُن کی بلا سے۔

دودھ دینے والی گائے کی لات کھانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ امریکا ہمارے لیے کبھی دودھ دینے والی گائے ثابت نہیں ہوا مگر پھر بھی ہم اُس کی لاتیں کھاتے جاتے ہیں اور ستائش کے ڈونگرے برساتے جاتے ہیں۔ تمام معاملات میں غیرت اور شرم کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا گیا ہے۔ جو ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں اُنہیں شاید اب یہ بھی یاد نہیں غیرت اور شرم بھی کوئی چیز ہوا کرتی ہے!

افغانستان میں امریکا اور اس کے ہر طرح کے اتحادیوں کی آمد کے بعد ہماری طرف سے دستِ تعاون دراز کرنے کا سلسلہ یوں شروع ہوا کہ اب تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ افغانستان میں امریکا کو کون سی جنگ لڑنی یا جیتنی تھی؟ مقصود صرف یہ تھا کہ ایشیا میں کہیں بہتر ٹھکانہ قائم کرکے پورے خطے کو کنٹرول کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ امریکی ایوان صدر اور محکمۂ خارجہ اپنے عوام کو اِس قدر احمق سمجھتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام لیا جائے گا اور وہ مطمئن ہوجائیں گے۔ اِتنے بھولے تو افغان عوام بھی نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کی سرزمین پر امریکی اور یورپی افواج کی آمد کسی اور ہی مقصد کے لیے تھی۔ غیر ریاستی عناصر کسی بھی حال میں اِتنے طاقتور نہیں ہوسکتے کہ اُن سے نمٹنے کے لیے باضابطہ بین الاقوامی جنگ چھیڑی جائے، اور وہ بھی واحد سُپر پاور کی قیادت میں!

ہم نے امریکا کی خوشنودی کی خاطر گردن جُھکاتے ہوئے اُس جنگ کی بھٹی میں کودنا گوارا کرلیا جو ہماری تھی ہی نہیں۔ دُنیا نے یہ تماشا خاصی دلچسپی سے دیکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مخالفت میں یورپ بھر میں مظاہرے ہوئے، جنوب مشرقی ایشیا بھی میدان میں نکلا، جنوبی امریکا نے بھی مقدور بھر مذمت کی مگر اِس جنگ کے خلاف ٹھوس احتجاج کی توفیق اگر نہ ہوسکی تو بس ایک ہمی کو نہ ہوسکی! غیر ہمارے لیے آواز اُٹھا رہے تھے۔ یہ ’’مُدعی سُست، گواہ چُست‘‘ والا معاملہ تھا۔

امریکا، مشکلات سے دوچار ہی سہی، ہے تو سُپر پاور۔ اُس کا کیا بگڑنا تھا؟ اور افغانوں کے پاس تھا کیا جو بگڑتا؟ پرائی آگ میں جل کر خاک ہوئے تو ہم۔ گھر جلا تو ہمارا، خاکستر ہوئے تو ہمارے مفادات، برباد ہوئی تو ہماری معیشت، نام و نشان مٹا تو ہمارے امن اور استحکام کا۔ نائن الیون کے بعد اگر امریکا کے دباؤ پر انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں شریک ہونا بھی تھا تو ایک خاص تک ایسا کیا جانا چاہیے تھا۔ ہوسکتا شروع میں ایسا کرنے کا سوچا بھی گیا ہو۔ مگر جب ڈالرز کی بارش ہوئی تو سبھی ’’غُسلِ مفاد‘‘ کے لیے بے تاب ہوگئے۔ خود کو واحد سُپر پاور کا زیادہ سے زیادہ وفادار ثابت کرنے کی دُھن میں یارانِ وطن کچھ زیادہ ہی آگے نکل گئے۔ بعض تو واپسی کے قابل بھی نہ رہے۔

افغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکر کشی کے دور میں اہل جہاں پُکارتے ہی رہ گئے تھے ع
تُجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو!

مگر ہم کب ماننے والے تھے۔ اور یوں ایک بار پھر پرائے پَھڈّے میں ٹانگ اَڑاکر اپنے لیے معاملات اُلجھائے گئے۔ کہتے ہیں مومن ایک سُوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ہم تو کئے بار ڈسے گئے ہیں۔ اب یہ مت کہیے گا کہ ہم کہاں کے مومن ہیں!

نائن الیون کے بطن سے پیدا ہونے والے حالات نے ہمارے امن اور استحکام کو قبر کی آغوش تک پہنچا دیا ہے۔ ایک تماشا تھا جو اب خاتمے کی منزل میں ہے۔ امریکا کو شمع صفت سمجھ کر ہم نے پروانوں کا کردار ادا کرتے ہوئے موجود سے معدوم ہو جانے کو مقسوم جانا۔ یہ تعبیر کی غلطی تھی۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ غلطی کو دُہرانے کا عمل بھی اعزاز سمجھ کر جاری رکھا گیا ہے!

امریکا بہادر کی خوشنودی کی خاطر جو کچھ بھی کیا جاتا رہا ہے اُس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ افغانستان کی لڑائی اب ہماری سرزمین پر لڑی جارہی ہے۔ اوکھلی میں سَر دینے کا یہ نتیجہ تو نکلنا ہی تھا۔ پانی گلے تک آگیا ہے تو اربابِ بست و کشاد کو فکر لاحق ہوئی ہے کہ دہشت گردی کے سَدِباب کے لیے ٹھوس بنیاد پر کچھ کیا جائے۔ اب کچھ کیا بھی جاسکتا ہے یا نہیں، اِس بحث میں پڑے بغیر دُعا یہ کرنی چاہیے کہ حکومت اپنے ارادے میں کامیاب ہو اور ساتھ ہی یہ اُمید بھی رکھنی چاہیے کہ اُس کا ارادہ واقعی وہ ہے جو دکھائی دے رہا ہے۔

بہت سوں کا خیال یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی میں اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کے جاں بہ لب ہونے پر علاج کے بارے میں سوچا جائے! جو کچھ وطن اور اہلِ وطن پر گزرنی تھی وہ تو گزر ہی گئی ہے۔ اب کیا رہ گیا ہے جسے دُرست کرنے کی فکر لاحق ہوئی ہے؟ مگر خیر، مایوسی کے باوجود لوگ کہہ رہے ہیں ع
اُمّید تو نہیں ہے مگر ہاں، خُدا کرے!

سیکیورٹی پالیسی کے نام پر ہمارے حکمرانوں نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف جو بلنڈرز کئے ہیں اُن کے ازالے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ شہزاد احمد نے خوب کہا ہے ؂
جل بھی چُکے پروانے، ہو بھی چُکی رُسوائی
اب خاک اُڑانے کو بیٹھے ہیں تماشائی

دہشت گردی ختم کرنے کے پر ہم نے جو ’’بَھنڈ‘‘ فرمائے ہیں اُن کے نتیجے میں حالت یہی ہے کہ دُنیا دیکھ کر ہنس رہی ہے اور دُرستیٔ حالات کی ہر کوشش کو کامیڈی سمجھ کر اُس سے محظوظ ہوا جارہا ہے۔

امریکا کی دوستی اچھی ہے نہ دُشمنی۔ اور سچ تو یہ ہے کہ دُشمنی شاید بہتر ہو، دوستی تو ہے ہی خسارے کا سَودا۔ شہزاد احمد ہی کا شعر ہے ؂
اب دِل کو کسی کروٹ آرام نہیں ملتا
اِک عمر کا رونا ہے دو دن کی شناسائی!
اور یہاں تو شناسائی بھی چھ عشروں سے زائد مُدت پر محیط ہے! اگر ہُنود کی اصطلاح میں کہیے تو امریکا سے ہمارے تعلقات تو ہزاروں جنم کا رونا ثابت ہو رہے ہیں! کسی کو اندازہ نہیں کہ خسارہ بدوش تعلقات کی یہ سیاہ رات کب ختم ہوگی۔ اور حتمی نتائج کا اندازہ لگانا بھی آسان نہیں۔ بقول حسرتؔ موہانی ع
اب دیکھیے کیا حال ہو ہمارا سَحر تک
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524577 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More