کالم نگار | عارفہ صبح خان
طالبان کے حوالے سے جو لطائفِ خفیف و شدید حکومت کی طرف سے جاری ہیں۔ اس کے
بعد سے خودکش حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ عجیب و غریب قسم کے
بچگانہ و مضحکانہ بیانات کا سلسلہ رواں دواں ہے۔ ان بیانات کو انواع و
اقسام کے عنوان، معانی اور مفاہیم دینے میں عناصرِ خمسہ کا خصوصی ہاتھ ہے
جن میں ترتیب وار چوہدری نثار احمد، پرویز رشید، خواجہ آصف، سعد رفیق اور
رانا ثنااللہ شامل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے بھی کافی پُرلطف
بیانات جاری ہوتے ہیں۔ کوئی بیان دوسرے کے بیان کی تائید نہیں کرتا بلکہ ہر
شخص اپنی بساط، استعداد، علم اور ظرف کے مطابق بیان دے کر بری الذمہ ہو
جاتا ہے۔ طالبان حکومت کے غیر سنجیدہ رویہ اور غیر ذمہ دارانہ فعل پر کافی
مائنڈ کیا ہے۔ حکومت شاید اپنے طور پر یہ طے کر بیٹھی تھی کہ طالبان کے پاس
صرف جذبات اور اسلحہ ہوتا ہے مگر حکومتِ وقت نہیں جانتی کہ طالبان ”مائینڈ“
کے حوالے سے خودکفیل ہیں اور اسی مائنڈ کے بل بوتے پر انہوں نے امریکہ کو
تگنی کا ناچ بلکہ چَھٹی کا دودھ یاد کرا رکھا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی
کے سربراہ سید منور حسن کا بیان قابل ذکر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسی
جمہوریت ہے جس میں آدھے سے زیادہ ملک میں مارشل لا نافذ ہے لیکن جنرل (ر)
اسلم بیگ کہتے ہیں پاکستان میں دہشت گردی امریکہ کروا کر رہا ہے۔
کچھ دانشور صحافی سمجھتے ہیں کہ اس میں اسرائیل ملوث ہے مگر مر تو صرف غریب
لوگ رہے ہیں، کسی حکمران کا بیٹا بھانجا، بھتیجا تو نہیں مرتا جو انہیں
صدمہ پہنچے۔ ذرا سیاچن گلیشیر پر حمزہ شہباز، حسین نواز، بلاول زرداری،
مونس الٰہی، عزیز محمد خان جا کر ایک مہینہ رہیں اور سرحدوں کی حفاظت کریں
تو عوام کو پتہ چلے کہ ان لیڈروں کی اولادوں میں کتنا دم ہے اور خود
حکمرانوں میں کتنا حوصلہ ہے۔ ریڈی میڈ جلسوں میں رٹی رٹائی تقریریں بڑھکیں
لگا کر کرنے سے کوئی لیڈر نہیں بن جاتا، نہ عوام کے دکھ کا مداوا ہوتا ہے۔
اسی طرح بلاول بھٹو نے جو ٹوئٹر پر پیغام رسانی کا طریقہ کار اپنا رکھا ہے۔
جس میں بلاول کبھی عمران خان پر حملے کرتے ہیں کبھی مشرف کو لتاڑ لیتے ہیں،
کبھی الطاف حسین کو پچھاڑتے ہیں تو جماعت اسلامی پر تیر چھوڑتے ہیں۔ کبھی
ٹوئٹر کی بجائے بم دھماکوں کی جگہ پر آ کر خطاب فرمائیں تو پتہ چلے کہ
”بہادری“ کسے کہتے ہیں۔ طالبان کے حوالے سے بلاول بھٹواور میاں نواز شریف
کا سٹائل ایک ہی ہے۔ مولانا سمیع الحق کیا کریں انہیں تو حکومت نے بھی دُم
پر پاﺅں رکھنے پر جھوٹا قرار دیکر کنارے لگانے کی سعی کی ہے۔ حکومت نے
بدنامی سے بچنے کیلئے اپنے پَروں پر پانی پڑنے نہیں دیا اور سارا ملبہ
مولانا سمیع الحق پر ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن مولانا سمیع الحق نے حکومت
کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ حکومت امریکہ کی مرضی کے بغیر کچھ
کرنے اور اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتی ہے۔ اس وقت پاکستان ہر طرف سے
خطرات میں گِھرا ہوا ہے۔ اسی لئے سمیع الحق نے کہا ہے کہ طالبان سے مذاکرات
چھوڑ کر حکومت اپنے پاﺅں پر کلہاڑی مار رہی ہے حالانکہ سمیع الحق کو غور
کرنا چاہئے تھا کہ حکومت اس طرح عوام کے گلے پر کلہاڑی چلا رہی ہے ورنہ
اتنی بڑی تعداد میں کون سے ملک میں لوگ مرتے ہیں۔ دراصل ساری توجہ تو حکومت
کی مشرف کیس پر لگی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی نے پنجے گاڑھ دئیے ہیں۔
پاکستان میں ہر شخص 100 سے زائدڈ افراد غیر طبعی موت مر رہے ہیں۔ دہشت گردی
کی وجہ سے پاکستان میں ہر شخص خائف، خوفزدہ اور غیر محفوظ رہنے لگا ہے۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے زبانی کلامی ہمدردی کرتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے انتہائی قابل مذمت ہیں۔ اقوام متحدہ کے
سیکرٹری جنرل بان کی مون کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی انتہائی قابل مذمت
ہے۔ بانی کی مون نے اقوام متحدہ کی طاقت سے پاکستان کی کوئی اخلاقی مالی
امداد نہیں کی محض بیانات دے کر بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا
کردار پچھلے 66 برسوں سے نہایت منافقانہ رہا ہے اور کسی بھی موقع پر اقوام
متحدہ نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے نہ ہی کوئی بھرپور مدد کی ہے جبکہ ہر سال
پاکستان ہزاروں ڈالروں میں اقوام متحدہ کی فیس ادا کرتا ہے لیکن پاکستان کو
کبھی اقوام متحدہ کی طرف سے اخلاقی، مالی، جانی امداد میسر نہیں آئی۔ ویسے
بھی نائن الیون کے واقعہ سے ثابت ہو گیا کہ اقوام متحدہ محض کٹھ پتلی اور
امریکہ کا پٹھو ہے مگر ہم امریکہ، اسرائیل، بھارت یا اقوام متحدہ سے کیا
گلہ شکوہ کریں۔ ہماری او آئی سی تنظیم بھی تو نِرا تماشہ ہے، آج تک او آئی
سی کے پلیٹ فارم سے کونسا کارنامہ سرانجام دیا گیا ہے، رہ گئے مسلم حکمران
تو اگر ان کے متعلق حقائق قلمبند کئے جائیں تو مسلمان ہی نہیں، ساری دنیا
دانتوں تلے انگلیاں دبانے کے بجائے، انگلیاں چبا جائے۔ اس کے بعد رہی سہی
کسر پاکستانی حکمرانوں نے نکال دی ہے، اپنے اقتدار کی کی ڈگڈی بجانے، اپنے
فوٹو سیشن کرانے اور مال و متاع اکٹھنا کرنے کے علاوہ جو سب سے بڑا شوق
ہمارے حکمرانوں کو ہر حال میں رہا ہے --- وہ غیر ملکی دورے، بیش قیمت
ملبوسات اور خوش خوراکی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جتنے لوگ خودکش دھماکوں
سے مر رہے ہیں اُس سے کہیں زیادہ لوگ ناانصافی، دہشت گردی، مہنگائی، ٹیکسوں،
بیروزگاری سے مر رہے ہیں مگر حکمرانوں کا پالا ان عذابوں سے نہیں پڑتا اس
لئے وہ پاکستانی عوام کے اوپر گزرنے والے مصائب کو کیا جانیں کہ وہ زیست کا
ہر لمحہ کس کرب سے کاٹتے ہیں ....
تُجھ کو معلوم نہیں شدتِ دل کا ہونا
کس قدر تلخی ایام جنم دیتا ہے |