صرف چند دنوں کی ہی بات تھی کہ
جناب ملک کے امیر المومنین بن جاتے مگر برا ہو چک شہزاد کے دل پھینک کمانڈو
کا کہ انہوں نے ظل سبحانی کو ایسا کرنے سے روک دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے
اس دعوے کے باوجود کہ انہوں نے زندگی میں نو بار موت کونہ صرف قریب سے
دیکھا بلکہ آنکھیں ملا کر اس کا مقابلہ بھی کیا، جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف
تقریبا ایک دہائی تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے اور اپنی مبینہ
بہادری کا دعوی کرنے کے باوجود عدالت کا سامنا کرنے کی بجائے ان دنوں آرمی
اسپتال کے فائیو اسٹار کمرہ میں اپنے پیٹی بھائیوں کی مہربانی سے زندگی کے
مزے لوٹ رہا ہے۔ اور دوسری جانب امیر المومنین بننے کا خواب دیکھنے والے
رائیونڈ کے شہزادے کی وہ تصاویر بھی دنیا نے دیکھیں کہ جن میں عزت ماب
سلاخوں کے پیچھے مظلومیت کی تصویر بن کر غم غلط کررہے تھے اور پھر اچانک
ایک غیبی مدد آن پہنچی اور وہ خادمین حرمین شریفین کے مہمان بن بیٹھے۔
یوں تو گیارہ مئی دو ہزار تیرہ کو پاکستان میں عام انتخاب ہوئے تھے ۔ان
انتخابات میں لوگوں کی جانب سے ووٹ ڈالنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں۔
اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں نے منتخب ہونے کا بعد وزیر اعظم اور
وزرائے اعلی کا انتخاب بھی کیا تھا مگر تقریبا آٹھ ماہ گزرنے کو ہیں ملک
خصوصا بلوچستان کے حالات بہتر تو کجا مزید ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں،گذشتہ
صدی کے اواخر میں امیر المومنین بننے والی شخصیت یعنی نواز شریف ان دنوں
تیسری بار وززیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہے، کوئٹہ کے زرغون روڈ پرواقع
ایک پر شکوہ عمارت میں ایک غیر سردار اور قدرے ماڈریٹ شخصیت ڈاکٹر عبد
المالک وزیر اعلی کے نام پر قید ہیں ،کیوں بلوچستان میں آج بھی حکومت
اسٹیبلشمنٹ کی ہی ہے، سچائی جاننے کے لیے وزیر اعظم کی زیر صدارت کوئٹہ میں
ہونے والے اجلاس کی تصویر ملاحظہ کی جاسکتی ہے جو ہمیں برطانوی سامراج کی
یاد دلاتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق کوئٹہ میں ہونے والی اعلی سطح کے اس اجلاس میں ہر موضوع ،
امن و امان کی صورتحال، ناراض لوگوں سے بات چیت، ہزارہ برادری پر ہونے والے
حملوں، ترقیاتی اسکیموں ،قرضہ اسکیم ، روزگار کے مواقع وغیرہ وغیرہ ، پر
بات ہوئی مگر بات نہ ہوئی تو لاپتہ افراد کی بازیابی کی ، خضدار کے علاقے
توتک سے برآمد ہونے والی اجتماعی قبر کی کہ جس میں درجنوں کی تعداد میں
لوگوں کو پہلے بہیمانہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھر انہیں ہلاک
کرکے ویرانے میں دفنا دیا گیا۔
اسی روز درجن بھر سے زائد اہم شخصیات کے ساتھ وزیر اعظم میاں نواز شریف
کوئٹہ کینٹ کا دورہ کرنا اور فوجیوں کے قبروں پر پھول چڑھا نا تو نہ بھولے،
مگر بھول گئے تو سیکڑوں کی تعداد میں ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کے ورثاء سے
ہمدردی کے دو بول بولنا ۔ وزیر اعظم نے ہزارہ کمیونٹی کے افراد پر حملوں کی
مذمت تو کی جو انہیں کرنی بھی چاہیے تھی مگر وہ لوگوں کو لاپتہ کرنے،
ویرانے میں اجتماعی قبر کے ذمہ داروں اوربلوچستان کے شہریوں کو مسخ شدہ
لاشوں کے تحفےدینے والوں کی مذمت کو کجا ملوث افراد کا دبے الفاظ میں بھی
ذکر کرنے سے قاصر رہے۔ جو ایک سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ نظر آتا ہے،
افسوس کا مقام یہ ہے کہ وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر مالک، سینیٹر حاصل بزنجو،
بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر جنرل ر عبالقادر بلوچ بھی انہیں
اس بات کی یاد دہائی نہ کراسکے یا شاید وہ جان بوجھ کر صرف نظر کرگئے۔یہ
اقتدار بھی کیا ظالم شے ہوتی ہے کہ پلک جھپکتے ہی انسان کو عرش سے فرش پر
پہنچادیتی ہے۔
مہذب معاشروں میں شہریوں کی قدر و قیمت اور ان سے محبت کی مثال دیتے ہوئے
سینئر صحافی رضا علی عابدی اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھتے ہیں کہ اسکاٹ
لینڈ میں ایک تین سالہ ایشیائی بچہ اپنے گھر سے لاپتہ ہوجاتا ہے، بچے کی
گمشدگی کی یہ خبر جب لوگوں تک پہنچتی ہے تو پورا ملک اداس ہوجا تا ہے۔پولیس
اور انتظامیہ کے علاوہ علاقے کے سیکڑوں سفید فام افراد کہ جن میں بوڑھے،
جوان، بچوں کی گاڑیاں لیے ہوئے خواتین بھی سخت سردی کے موسم میں اپنے گھروں
سے نکل کر اس بچے کی تلاش شروع کردیتے ہیں، انتظامیہ اور پولیس کے ہیلی
کاپٹر حرکت میں آجاتے ہیں، گرجا گھروں میں خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا جاتا
ہے۔ بچے کی گمشدگی کی یہ خبر برطانوی میڈیا کے لیے سب سے بڑی خبر بن جاتی
ہے ۔ریڈیو ، اخبار اور ٹیلیویژن ا س واقعے کی اپ ڈیٹس لمحہ بہ لمحہ لوگوں
تک پہنچاتے ہیں ۔پولیس ایسی حرکت میں آتی ہے کہ اگلے روز نہ صرف بچے کی لاش
برآمد کرلی جاتی ہے بلکہ ملزم کو گرفتارکرکے عدالت کے سامنے پیش کردیا جاتا
ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اسکاٹ لینڈ کا قانون ہے کہ پولیس کو صرف چوبیس
گھنٹے کی مہلت ہوتی ہے کہ وہ فرد جرم عائد کرکے ملزم کو عدالت میں پیش کرے
ورنہ اسے چھوڑ دے۔
مگر دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ مملکت خداد پاکستان میں کہ جس میں آج بھی
برطانوی اینگلو سیکسن قانون رائج ہے ، 2009 سے لاپتہ ہونے والے ذاکر مجید
سمیت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد آج بھی کسی جرم ، فرد جرم
کے بغیر لاپتہ ہیں، ان لاپتہ افراد کے اہل خانہ موسم کی سختیوں، ہر قسم کی
دھونس اور دھمکیوں کو بالائے تاک رکھ کر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے
تقریبا تین ماہ سے پیدل مارچ جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر پورے ملک میں کسی کے
کان پر جوں نہیں رینگتی ، کہیں کوئی احتجاج ،،،ماسوائے چند ایک کے ،،، نہیں
ہوتا، کسی مسجد ، امام بارگاہ، گرجا گھر یا مندر میں دعائیہ تقریب کا
اہمتام نہیں کیا جاتا، پولیس بھی حرکت میں نہیں آتی بلکہ یہ کہا جائے کہ وہ
مظلوم کی بجائے ظالم کا ساتھ دیتی ہے تو بہتر ہوگا ۔ملکی عدالتیں بھی بہری
اور اندھی ہوچکی ہیں،میڈیا خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ اور تو اور وزیر اعلی
اور وزیر اعظم بھی لاپتہ افراد یا اجتماعی قبر کی برآمدگی پر لب سی لیتے
ہیں۔ایسی صورتحال میں یہ لگتا ہے کہ ایک ہی بل سے دو بار ڈسنے کی وجہ سے
وزیر اعظم نے اس بار امیر المومنین بننے سے توبہ کرکے اطاعت قبول کرلی ہے
اور بلوچستان کا نظم و نسق شتر بے مہار کے حوالے کردیا ہے ۔تو ایسے میں
بلوچستان کے مظلوم عوام اگر عالمی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے
اپیل نہ کریں تو کیا کریں۔ |