آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے

کل سب سے بڑے عہدے پر زر میں سب سے بھاری آصف زرداری تھے تو آج ممنون حسین بلکہ ممنون احسان، کل وزیر اعظم ملتانی تھا تو آج لاہوری،کل طاقت کا سرچشمہ کو چیئرمینی تھی تو آج بڑے بھائی جان،کل حکومتی انکلوں کی آنکھوں تارا بلاول تھا تو آج مریم،کل سند ھ کے بہن بھائی بلاشرکت غیرے پاکستان کے حکمران تھے تو آج رائے ونڈ کے نہ صرف دونوں بھائی بلکہ دور و نزدیک کے تمام رشتہ دار،کل جیل کے ساتھیوں کو نواز ا گیا تو آج باہر اندروالوں سب کی لاٹری نکال دی گئی،کل ایون صدر میں ایک پیر کی موجیں تھیں اور آج چکوال کے ایک معروف نعت خوان جن کی واحد خوبی میاں محمد بخش کے چند شعر یاد ہونا ہے آدھے وزیراعظم ہیں،(پانچواں شعر یاد کرنیکی آج تک موصوف نے شاید زحمت بھی نہیں کی)،کل اندھیرا اجالا اپنے جوبن پہ تھا آج بھی بجلی کی آنیاں جانیاں شد ومد سے جاری و ساری ہیں،کل لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی تاریخیں گوجر خان کے راجہ دیتے تھے آج وہی ڈیوٹی سیالکوٹ کے خواجہ نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لی لوڈشیڈنگ کل بھی بیس بیس گھنٹے ہوتی تھی اور آج بھی حالات سب کے سامنے ہیں موسم بھی دیکھ لیں اور لوڈشیڈنگ بھی آنیوالے سیزن کی بہتر ہے ابھی سے منصوبہ بندی کر لیں،یہ مشورہ عوام کے لیے ہے کیوں کہ مسئلہ بھی انہی کا ہے نہ یہ حکمرانوں کا مسئلہ ہے نہ انہیں اس سے کوئی غرض،کل اپنی آواز کی طرح بلور نے ریلوے کا بٹھہ بٹھایا آج رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے جناب سعد رفیق صاحب نے کمان کس لی ہے،ٹرینیں کل بھی اٹھا رہ اٹھارہ گھنٹے لیٹ ہوتی تھیں اور آج بھی حرام ہے جو ذرا بھی صورتحال میں کوئی بہتری پیدا ہوئی یا ہو نے کا امکان ہو، اگر کل سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور دوائیں ناپید تھیں تو آج بھی ہر سرکاری ہسپتال میں لوگ پرچیاں اٹھائے ڈسپنسری کی ادھ کھلی کھڑکی کے سامنے مایوس کھڑے نظر آتے ہیں، کل مسجدوں امام بارگاہوں سے بے گناہوں کی کٹی پھٹی لاشیں اٹھائی جاتی تھیں تو آج بھی نہ کوئی گلی محفوظ ہے نہ بازار،کل بسوں میں شناختی کارڈ دیکھ کر گولی ماری جاتی تھی آج فقط نام پتہ اور مسلک پوچھ کر ہی ٹھنڈا کر دیا جاتا ہے، کل بھی عوام اور ان کے آئین کو جوتے کی نوک پر رکھ کر گھنٹوں روٹ لگا کر عوام کو تپتی دھوپ میں سڑکوں پر کھڑا رکھا جا تا تھا اور آج بھی پہروں مسلح اہلکار شاہی سواری سے قبل ہی سڑکوں کو صاف (عوام سے)کر لیتے ہیں،کل دو دن سی این جی کی بندش ہوئی پھر تین دن اور پھر چار دن آج مکمل بند کر دی گئی بھلا ہو عدالت کا جس نے سٹے آرڈر دیدیا تو غریب عوام کا کام چند دن کیلئے مزید چل پڑا،کل بھی کرپشن اپنے پورے جوبن پر تھی آج بھی پٹواری اور تھانیدارکا وہی راج اور وہی مزاج،پٹرول بم کل بھی رات کے اندھیرے میں گرتا تھا آج بھی صبح اٹھ کے نئی قیمت سن کے ہوش گم ہوجاتے ہیں،ڈالر کل ایک سو چار روپے کا تھا اور آج صرف ایک سو تیرہ روپے کا،بجلی کل بھی غائب ہو کے سونے کے بھاؤ فی یونٹ ملتی تھی اور آج بھی ریٹ اس سے دگنی رفتار سے بڑھائے جا رہے ہیں،کل لوڈشیڈنگ ختم کرنیکے دعوے ہوتے تھے آج بجلی ہی تقریباًختم ہو کے رہ گئی،کل ڈرون ،دہشت گرد کم زیادہ معصوم اور غریب قبائلیوں کے چیتھڑے اڑاتے تھے آج بھی یہی معصوم اپنے شیر خوار بچے اٹھائے در در کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں،کل سنتے تھے کہ ریاست ہو گی ماں کے جیسی آج سوتیلی ماں جیسی بھی نہیں،کل امریکہ کا حکم چلتا تھا آج امریکہ کے ساتھ سعودی عرب بھی تراہ نکالنے والوں میں شامل ہو گیا،کل مخدوم،راجے،گیلانی،رئیسانی اور قریشی حکمران تھے ،آج شریف شریف اورپھر شریف کے بعد رانے، ڈاراور خواجے اعلیٰ ایوان سنبھالے بیٹھے ہیں، کل خزانے کی حفاظت پر حفیظ براجمان تھے تو آج ڈارون (ڈارون کو ڈار نمبر ون پڑھا جائے کیوں کہ اس وقت یہی نمبر ون ہیں کس فیلڈ میں یہ پڑھنے والے بہتر جانتے ہیں)کل اگر اقتدار کا ہما ملتان اور گوجر خان کی ہواؤں میں پرواز کرتا تھا توآج یہ رائے ونڈ،فیصل آباد اور گوجرانوالہ پہنچ کے سیالکوٹ کی طرف اڑان بھر کے پھر رائے ونڈ کا سفر شروع کر دیتا ہے،باقی پورے ملک سے صرف چوہدری نثار کی قسمت نے یاوری کی ،ترقی و خوشحالی کل بھی چند خاندانوں اور مخصوص مافیا تک محدود تھی صورتحال آج بھی بالکل ویسی کی ویسی ہے،کل باپ اپنے بچے روڈ پر بٹھا کر برائے فروخت کی تختی لگا کے بیٹھ جاتا تھا آج مائیں اپنی ننھی معصوم کلیوں کے ساتھ نہر وں میں چھلانگ لگا دیتی ہیں،کل کا حکمران عوام جیسی حقیر مخلوق کو دیکھ کر کھسیانی مسکراہٹ سجائے رکھتا تھا آج کا حکمران جب سے آیا ہے نجانے کیوں چپ سادھے بیٹھا اور آج تک حیران و پریشان ہے کہ پھرکس طرح اس قوم نے اسے وزیر اعظم بنا دیا،کل بجلی جاتی تھی تو پنجاب کا خادم لوگوں کے ساتھ سڑکوں پر مارچ کرتا تھا آج جب وہی لوگ بجلی کے ساتھ اپنے اعلیٰ خادم کو دھونڈنے نکلتے ہیں تو اس خادم کے خادم گھوڑوں پر سوار ہو کر ان لوگوں پر پل پڑتے ہیں،اور بجلی ڈھونڈنے والوں کو واپسی پہ گھر کی راہ بھلا دیتے ہیں،کل آٹا تیس روپے کلو تھا آج بیالیس روپے کلو ہے،کل گھی ایک سو پچاسی روپے کلو تھا آج دو سو سے بس تھوڑا سا اوپر،کل دیکھو دیکھو کون آیا آج دھونڈو ڈھونڈو کدھر گیا،کل کے لیڈرز بھی ایک نمبر کے دھوکے باز تھے اور آج کے لیڈر ان کے بھی لیڈر اور استاد،کل بھی عوام کا استحصال عروج پر تھا اور صورتحال آج اس سے گئی گنا بری،پیپلز پارٹی کے تلخ ترین دور کے بعد پوری قوم نے شیروں سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں مگر ان شیروں نے وہی کیا جو شیر کرتے ہیں،اگر ان کی آٹھ دس ماہ پہلے کی تقریریں اور تحریریں اٹھا کے دیکھی جائیں تو لگے گاکہ بس صرف ان کے آنے کی دیر ہے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی،ہر طرف ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہو گا،پورے ملک کو چوبیس گھنٹے سستی بجلی ملے گی،پٹرول عام آدمی کی توقع سے بھی کم قیمت پہ ملے گا،دس روپے ملنے والی روٹی ایک اور دو روپے کی ملے گی،ہر غریب کا بچہ اسکول جائے گا،جوتے یونیفارم اور بہترین ٹرانسپورٹ حکومت فراہم کرے گی،مگر ہو ا کیا ،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں،کیا بدلہ؟ کوئی ہے جو بتائے کہ پچھلے دور میں یہ اچھائی نہ تھی جو اب ہے یا وہ خرابی تھی جو اس دور میں نہیں ہے،اقربا پروری کرپشن،پرکشش عہدوں کی بندر بانٹ لوٹ مار سب کچھ تو ویسے کا ویسا ہے مگر بدلہ ہے تو صرف حکمران،جو ان کے بعد شاید پھر اپنے اہل و عیال ا ور لشکر سمیت ہماری گردنوں پہ سوار ہونے کے لیے پر تول رہا ہے،کیوں کہ اصول و ضابطے کے مطابق اگلی باری اس کی بنتی ہے،جس طرح ان کے بعد یہ آگئے،اپوزیشن میں ہو کے ہمیں بے پناہ سہانے خواب دکھائے جاتے ہیں،عوامی ہمدردی کے ایسے ایسے دعوے کیے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کہ بے چارے کئی کئی دنوں سے عام افراد کے غم میں سو بھی نہیں سکے،مگر سب جھوٹ، سب مکر، سب فریب،اور ہم ہیں کہ اسی عطار کے لونڈے سے جا دوا لیتے ہیں جو اصل میں ہماری بیماری کا سبب ہوتاہے،ہم ہر بار حال سے تنگ، جانیوالے کو یاد اور نئے آنیوالے کی راہ دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاًآسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جاتے ہیں،ہم کیوں ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جارہے ہیں،اﷲ کے آ خری رسولﷺ کاسچا اور ابدی فرمان ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا،مگر ہم،،،،،، یاشاید ہم مومن ہی نہیں،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے