ارے حکمرانو..تمہارے دعوے تو بہت ہیں،

ارے حکمرانو..تمہارے دعوے تو بہت ہیں، مگر اللہ کے بندوں پہلے ٹیکس تو ادا کردو ..؟
حکمرانو اور ارکانِ پارلیمنٹ تمہارے مُلک کو آسمان پر لے جانے کے دعوے اپنی جگہہ مگر...؟؟

آج میری میز پر اخبارات کا ایک انبار لگاہواہے اِن اخبارات میں ایسی چلبلی خبریں ہیں کہ ہر خبراپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے مجھ سے ہمکلام ہے اور چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ میری پڑوسن(برابروالی خبر) پر نظرڈالنے سے پہلے ایک مرتبہ مجھے بھی ضروردیکھ لینااگر میں تمہارے دماغ پر ہتھوڑے برساکر تمہارے د ل کو نہ جلاکررکھ دوں اور تمہارے بے جان وبے زبان قلم میں حرکت پیدانہ کردوں تو کہنا...!خبروں کی اپنی فرمائشیں اور التجائیں اپنی جگہہ درست صحیح مگرمیں کیا کروں۔

آج درحقیقت دل موجودہ حالات کی خبروں سے زراہٹ کر کچھ اور لکھنے کو چاہ رہاہے سو اخبارات کی ورق گردانی کرنے کے بعدبالآخر اِس خبر پر نظرٹِک ہی گئی ہے اور یہ خبرایک ایسی خبرہے جو وفاقی حکومت سے اُڑتے اُڑاتے بذریعہ ایک رونامہ مجھ تک پہنچی ہے اوروہ خبریہ ہے کہ ہمارے مُلک کے لگ بھگ 500ارکان پارلیمنٹ نے 6فروری تک سال 2013کی آمدنی کے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے ہیں حتی کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں وسینٹ کے ارکان کے لئے سالانہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 7فروری تھی یہ خبرپڑھ کر میں شسدررہ گیااور سوچنے لگاکہ کیا یہی ہمارے آئیڈل حکمران اور ارکان پارلیمنٹ ہیں..؟ جو اپناٹیکس تو ادانہیں کرتے ہیں اور قوم سے کیسے کہتے ہیں کہ وہ ٹیکس باقاعدگی سے اداکرے ، اِن کا یہ حال ہے کہ آخری تاریخ کے پلک جھپکتے گزرجانے کے باوجودبھی ارکان پارلیمنٹ جنہیں اپنی زبانی جمع خرچ پر بڑاناز ہے اور یہ مُلک کو آسمانوں کی بلندیوں سے بھی زیادہ اُونچائی پر لے جانے کی بھی ضداور رٹ لگاتے نہیں تھکتے ہیں اِن کاہلوں اورنااہلوں اور کچوے سے بھی زیادہ سست رفتار ارکان پارلیمنٹ کو سال 2013کی اپنی آمدنی کے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی توزحمت نہ ہوئی ہے اَب ایسے میں سوچوذرایہ بیچارے بھلاپھر کیسے مُلک اور قوم کو آسمانوں سے بھی اُونچی بلندیوں پر لے جاسکتے ہیں...؟

اگرچہ آج یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمارے حکمرانو اور اِن ارکانِ پارلیمنٹ کے ایسے بھی بہت سے دعوے ہیں مگر دوسری طرف یہ اپنی عادات سے بھی مجبورہیں تو پھراِن سے متعلق میرابھی اِس شاعرکی طرح یہ کہناٹھیک ہے کہ :۔
ہم مُسلمان ہیں ، ہر لمحہ ہے دعویٰ اپنا
اِک خُدا، ایک نبیﷺ ایک ہے کعبہ اپنا
ٹیکس سرکار کو دینا نہیں عادت اپنی
چوری بجلی کی یہ برسوں سے ہے شیوہ اپنا

ایک طرف ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ کا یہ حال ہے تو دوسری طرف یہی لوگ قوم سے چیخ چیخ کر قومی خزانہ خالی ہونے کا بھی کہتے ہیں اورپھرخودکو بچاتے ہوئے قوم سے ہی اِسے بھرنے کو کہتے اوریہ فریادیں کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ قوم کو قومی خزانہ بھرنے کے لئے ٹیکسوں کی ادائیگیوں کے لئے کڑوی گولی نکلنی ہوگی مگر یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج قوم اِن کی یہ عیاری اور مکاری بھی جانتی ہے جیساکہ شاعرنے ہمارے ارکان پارلیمنٹ سے متعلق یہ کہاہے کہ:۔
آپ کہتے ہیں کہ ہے اپناخزانہ خالی
میری دانست میں ہے ایک بہانہ خالی
آوزیروں کی ذرافوجِ ظفر موج تودیکھ
کون کہتا ہے کہ ہے اپنا خزانہ خالی

ایسے میں جب میرے مُلک پر ایسے عیار ومکار ارکان پارلیمنٹ کا قبضہ ہواوراِن کی مفادپرستانہ سوچیں ہوں تو پھر بھلاقوم بیچاری جتنے بھی ٹیکس اداکرتی رہے، قومی خزانہ بھر کر بھی خالی رہے گاکیوں کہ جب ہماراقومی خزانہ قوم کے خون پسینے کی کمائی پر لگنے والے ٹیکسوں کی ادائیگیوں سے بھر جاتاہے تو ہمارے یہی حکمران اور ارکانِ پارلیمنٹ قومی خزانے میں پڑی رقم کو اپنی عیاشیوں کے لئے آنکھ بندکرکے خرچ کرتے ہیں اور یوں پھر خزانہ خالی ہوجاتاہے ، اور قوم کے حصے میں سوائے غربت اور مایوسیوں کے کچھ نہیں آتاہے مگردوسری طرف حکمران اور ارکانِ پارلیمنٹ دھڑادھڑاپنے دامنوں میں خوشحالی اورمسرتیں سمیٹ لیتے ہیں اورپھر قوم کے سامنے یہ رونا پھر روناشروع کردیتے ہیں کہ مُلک و قوم کی ترقی و خوشحالی اُسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب قومی خزانہ بھراہواہوگا اَب جب میرے مُلک میں ایسے حکمران اور ارکانِ پارلیمنٹ ہوں گے تویقیناایساہی کچھ ہوتارہے گاکہ مُلک اور قوم غریب رہیں گے اوراو حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ قومی خزانے سے عیاشیاں کرتے رہیں گے مجھے اِن کے اِس بے حسانہ رویئے پر شاعر کا یہ شعر یاد آگیاہے کہ :۔

یہاں خازن خیانت کر رہے ہیں
یہاں رہزن قیادت کر رہے ہیں
یہاں ہر عالم و فاضِل ہے رسوا
یہاں جاہل امامت کر رہے ہیں

آج جب میرے مُلک کے حاکم اور ارکان پارلیمنٹ ایسے ہوں گے جو خود ٹیکس نہ دیں مگراپنی غریب اور اُس قوم سے جوتن کی ننگی اور روٹی کوترس رہی ہو اِس سے دہائیاں کرتے پھریں کہ قوم قومی خزانے کے لئے ٹیکس دے تو پھر میں اور آپ بھی اپنے حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کو اِس شاعر کی نظرسے دیکھنااور اِس کی طرح سوچنے اور یہ کہنے پر یقینامجبورہوں گے بقول شاعرکہ:۔

ارض وطن سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے آج ہر دردمنددل میں یہی اضطراب ہے
وہ حزبِ اختلاف ہو کہ حزبِ اِقتدار
سچ پوچھئے تو دونوں کی نیت خراب ہے

آج اپنے حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کی عیاری ومکار کو دیکھ کر قوم میں ایک اضطرابی کیفیت پیداہوگئی ہے اور قوم اپنے حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کے یہ احساس رکھتی ہے کہ:۔

روتی ہے آنکھ اپنے ہی ادوار دیکھ کر
اطوار دیکھ کر کبھی کرداردیکھ کر
تاریخ بھی گواہ کہ یارانِ اِقتدار
”بک جاتے ہیں متاع خریدار دیکھ کر“

اور جب ہمارے حکمرانوں اور ارکانِ پارلیمنٹ کا یہ حال ہواور اپنی دادی گیری کے نشے میں چور ہوکریہ سمجھتے ہوں کہ یہ وڈیرے اور زمین دار ہیں صنعت کار ہیں اور ساہوکار ہیں بھلایہ ٹیکس کی ادائیگی نہیں کریں اگراِنہوں نے ایساویساکچھ کردیاتو پھر ان کے ہی ہاتھوں اِن کی موت واقع ہوجائے گی اِن کی اِس سوچ ارو مکاری وعیار ی سے بھر پوررویئے پر شاعر کہتاہے کہ:۔

جن وڈیروں کی حکومت ہے ہمارے مُلک پر
ٹیکس وہ دیں گے زراعت پر یہ کیسے مان لوں
دستخط کردیں گے کیا وہ موت کے وارنٹ پر
” ایں خیال است و محال است وجنوں“

اور اَب آخر میں یہ کہتے ہوئے کہ ہمارے حکمران اور ارکانِ پارلیمنٹ جب تک ایمانداری اور خلوص کے ساتھ ٹیکس کی ادائیگی کو اپنا نصب العین نہیں بنالیتے تو کیا وہ اِس بات کا یقینی تصورکرسکتے ہیں کہ مُلک کی غریب قوم اِن کی عیاشیوں اور مکاریوں اور عیاریوں کے لئے اپنے خون پسینے کمائی گئی قلیل آمدنی سے بھلاکیسے ٹیکس اداکرسکتی ہے، اِس کے لئے بہت ضروری ہے کہ پہلے ہمارے حکمران اور ارکانِ پارلیمنٹ اپنی آمدنی سے باقاعدگی سے ٹیکس کی ادائیگی کو اپناشیوہ بنائیں پھر ہمارے حکمران اور ارکانِ پارلیمنٹ جو مختلف کاروبار بھی کرتے ہیں مگراِس پر یہ ٹیکس چورہیں اَب وہ ایساسب کچھ کرناچھوڑ دیں اور اپنی اِس قوم کی طرف بھی دیکھیں جو روٹی کو ترس رہی ہے اور جن سے متعلق شاعرکا یہ کہنا ہے کہ:۔

کوئی کرتا ہے لائسنسوں کا بزنس
کسی کا کا م ہے ٹیکسوں کی چوری
کوئی محتاج ہے نانِ جویں کو
کوئی نوٹوں سے بھرتا ہے تجوری
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889623 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.