مشرف غداری کیس تماشا بن کر رہ گیا

پرویزمشرف غداری کیس پر پوری قوم شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہے۔پرویز مشرف کے حامی ان کو راتوں رات ملک سے باہر بھجوانے کی خواہش لیے بیٹھے ہیں تو مخالف فوری انصاف کا تقاضا کرتے ہوئے ان کی سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ استغاثہ کے وکلاءبھی یہی چاہتے ہیں، پرویز مشرف کے وکلاءکیس میںسرے سے پیشرفت ہی نہیں ہونے دے رہے۔ وہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر درخواست دے رہے ہیں۔عدالت ان کو سماعت کے لیے عدالت بلاتی ہے لیکن وہ ہسپتال میں ہی ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ہر بار ان کو کوئی نئی مہلت مل جاتی ہے۔31 جنوری کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت نے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے سابق فوجی صدر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔ سابق فوجی صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو جمعہ کو طلب کر رکھا تھا اور اس موقع پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات بھی کیے گئے تھے، لیکن سابق صدر اس بار بھی عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل انور منصور خان نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ سابق صدر 18 فروری کو پیش ہوں گے،جس پر سابق صدر کو پیشی کے لیے 18فروری تک پیشی کی آخری مہلت دیتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف 18فروری کو بھی عدالت پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری اور زرضمانت ضبط کر لی جائے گی، جبکہ پرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے کہا کہ عدالت سابق صدر کی پیشی تک اختیار سماعت کا فیصلہ کر لے، ہمیں سنے بغیر کسی قسم کی کارروائی زیادتی ہو گی۔جسٹس فیصل عرب نے کہا عدالت کے سامنے جوکیس آتا ہے، اسے سننا ہماری ذمہ داری ہے، آپ کی وجہ سے سماعت تین بار ملتوی کرنا پڑی، پرویزمشرف پیش نہیں ہورہے۔

اس سے قبل خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، تاہم سابق صدر نے خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی تھی جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف اگر عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کے نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا سکتے ہیں۔خصوصی عدالت نے کہا کہ اگر ملزم پیش ہو کر یہ استدعا کرے کہ عدالت کی تشکیل اور اس کے دائرہ اختیار سے متعلق دائر درخواستوں پر فیصلہ آنے تک ان کے خلاف فرد جرم عاید نہ کی جائے تو اس پر غور کیا جا سکتا ہے۔ پرویز مشرف پر غداری کیس میں تاحال فرد جرم بھی عاید نہیں کی جا سکی ہے کیوں اس کے لیے ملزم کا عدالت کے روبرو پیش ہونا ضروری ہے۔ اس بارے میں وکیل صفائی بیرسٹر محمد علی سیف نے بتایا کہ ”ہم نہیں سمجھتے کہ عدالت ان پر فرد جرم عاید کر سکتی ہے، جب تک کہ عدالت ہمارے اعتراضات پر فیصلہ نہ کر دے۔“ مقدمے کی آئندہ سماعت 10 فروری کو ہو گی، لیکن اس موقع پر پرویز مشرف کی حاضری ضروری نہیں ہے۔سابق صدر کے وکلاءکا موقف ہے کہ ان کے موکل کے خلاف کارروائی صرف فوجی عدالت ہی میں چلائی جا سکتی ہے اور عدالت نے مشرف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری میں ان کے ضامن میجر جنرل (ر) راشد قریشی کو بھی 18فروری کو طلب کیا ہے جبکہ اس مقدمے کی سماعت 10فروری کو ہو گی۔ اس دن پرویز مشرف کی وکلا ٹیم میں شامل ڈاکٹر خالد رانجھا اپنے موکل کے 3نومبر 2007ءکے اقدام کو خصوصی عدالت میں چلانے کی بجائے فوجی عدالت میں چلانے سے متعلق دلائل دیں گے۔ سابق صدر تاحال خصوصی عدالت میں کسی ایک بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئے اور دو جنوری سے راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی اسپتال میں زیر علاج ہیں۔کیس کی سماعت سے ایک دن قبل پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے سرپرائز کا اعلان کیا تھا۔ جب احمد رضا قصوری سے پوچھا گیا کہ سابق صدر کے حوالے سے پیشی پر سرپرائز کی بات کی تھی، وہ کیا تھی؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا سابق صدر پرویز مشرف کا وارنٹ گرفتاری ہونے کے باوجود خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونا ہی تو سب سے بڑا سرپرائز ہے۔جبکہپرویز مشرف کے وکیل انور منصور نے عدالت کے سامنے یہ انکشاف کیا ہے کہ سابق آرمی چیف کو ہسپتال جانے کا راستہ چودھری نثار نے دکھایا تھا۔ انور منصور نے عدالت کو بتایا پرویز مشرف عدالت آ رہے تھے، گاڑی وزیر داخلہ کے حکم پر ہسپتال کی طرف موڑی گئی۔ انور منصور اپنے دعوے میں اتنے با اعتماد تھے کہ انہوں نے سب کو کھلا چیلنج دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کسی کو شک ہو تو وائرلیس پیغامات کے ذریعے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ گاڑی کس کے حکم پر ہسپتال کی طرف موڑی گئی۔پرویز مشرف کے بار بار عدالت سے غیر حاضری پر بعض سیاسی رہنماﺅں نے انھیں تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ہر صورت آئین اور قانون کے مطابق کاروائی ہو نی چاہیے اور اگر مشرف عدالت میں نہیں آتے تو پر ویز مشرف کے ٹرائل کیلیے عدالت ”اے ایف آئی سی “ ہسپتال میں قائم کر دی جائے۔

پرویزمشرف فرد جرم سے بچنا چاہتے ہیں اس بات کا اظہار چیف پراسیکیوٹر اکرم شیخ بھی کرچکے ہیں کہ پرویز مشرف عدالتی فیصلے کا احترام نہیں کر رہے اور وہ عدالت میں پیش نہ ہونے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کیس قانونی تقاضا پورا کیے بغیر کیس آگے نہیں چل سکتا۔ آخر قوم کے اعصاب کا کب تک امتحان لیا جائے گا۔ جمعہ کے روزپرویز مشرف کی متوقع پیشی کیلئے آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی‘ عدالت کے باہر اور راستے میں گیارہ سو سے زاید سیکورٹی حکام اور اہلکار تعینات کیے گئے تھے اور ہر بار اسی طرح روٹ لگایا جاتا ہے اور گیارہ سو سے زاید پولیس اہل کار تعینات کیے جاتے ہیں جو سرکاری خزانے پر بوجھ ہے۔ یہ پریکٹس ہر تاریخ پر ہوتی ہے۔ اگرپرویز مشرف اتنے بیمار ہیں تو مناسب علاج ان کا استحقاق ہے جو وہ غیر ملکی ڈاکٹروں سے کرانا چاہتے ہیں، حکومت اور عدالت ان کو بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دے رہی تو مشرف کوجس معالج پر اعتبار ہے اسے پاکستان بلا لیاجائے۔ ایک طرف کمانڈو 18 گھنٹے کی مسافت پر امریکا سے علاج کرانے کی درخواست کر رہے ہیں تو دوسری طرف چند میل پر موجود عدالت جانے سے گریزکیا جا رہا ہے۔ اس سے کوئی کیا سمجھے؟ بہتر ہے کہ مشرف 18 فروری کو ہر صورت عدالت پیش ہو جائیں جس کا ان کے وکلاءنے وعدہ بھی کیا ہے۔موجودہ حالات میں تو مشرف غداری کیس تماشا بن کر رہ گیا ہے۔ اگر پرویز مشرف اٹھارہ فروری کو بھی کوئی بہانہ بنا کر عدالت سے غیر حاضر رہتے ہیں تو کیا واقعی ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے جائیں گے یا پھر عدالت میں حاضری کے لیے کوئی اور تاریخ دے دی جائے گی؟
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632783 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.