وہ ایک شخص جو متاع دل و جاں تھا نہ رہا
اب بھلا کون میرے درد سنبھالے محسن
11فروری کا دن قائد کشمیر مقبول بٹ شہید کی شہادت کا دن جس روز شہید کشمیر
نے پھانسی چڑ ھ کر ریاست جموں و کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختیاری کے
لیے اپنی جان کی پروا کیے بغیر کشمیریوں کو ان کی منزل کی راہ دکھلا دی اب
کس کو اس بات کی فرصت ہے کہ ان لاحاصل باتون پر غور کرتا پھرے کہ کون کس کا
غلام ہے اور کون کس کا غلام نہیں حقیقت یہ ہے کہ ہم غلام ہیں اور زہنی غلام
ہم اس بات کا شعور نہیں کے آزادی کیا ہے اور غلامی کیا ہے سب سے پہلے تو رب
تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہم ان لوگوں میں شامل نہیں جو کشمیر کی آزادی
کے خلاف سازشیں کریں اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جائیں مقبول بٹ شہید نے
کشمیریوں کو ڈر ڈر کر جینے کا درس نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ باہمت اور
باضمیر شہریوں کی طرح جیو ریاست کے تشخص کے لیے جو عظیم قربانی مقبول بٹ
شہید نے دی کشمیر قوم کا فرد ہونے کی وجہ سے ہمیں اس پر فخر ہے مقبول بٹ
شہید نے ریاستی کے تشخص کی آواز اٹھائی تو پھر پیچھے نہیں ہٹے جان کی بھی
پروانہیں کی اور اپنی جان کی قربانی دے کرثابت کیا کہ وہ کشمیر کا تشخص کسی
کے ناپاک ہاتھوں سے پامال نہیں ہونے دیں گے انہوں نے ریاست تشخص کا ڈھونگ
رچا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی کشمیر کی آزادی کے
مسلئے پر سیاست نہیں کی کاش کوئی اس ریاست کے نام نہاد حکمرانوں سے پوچھ لے
کہ ریاستی تشخص کا ڈونگ رچانے والو دل پر ہاتھ رکھ کر کہو نا کہ تمہیں نواز
شریف سے ملاقات کرنے کے لیے وزیر آعظم ہاوس کی گیلری میں گھنٹوں انتظار
نہیں کرنا پڑا ؟ریاستی اخبارات نے جھوٹ لکھا تھا ؟سابق صدر پاکستان آصف علی
زرداری کی بہن محترمہ فریال تالپور کی آمد پر نیلم ویلی میں پولیس کی
درجنوں سائرن بجاتی گاڑیوں کے درمیاں فلیگ مارچ ہم نے کیا یا آ پ نے ؟ کیا
میری ریاست کے پرچم کی اہمیت اس قدر ختم ہو گئی کہ مملکت خدا داد پاکستان
سے جس بھی سیاسی خاندان کا کوئی شہزادہ یا شہزادی ریاست میں پہنچے تو ہمارے
صدر سے لے کر منسٹرز تک ریاستی جھنڈے لہراتے ہوئی گاڑیوں میں ان کا استقبال
کریں ؟چوہدری مجید صاحب آپ نے کہا تھا کہ میں گڑ ھی خدا بخش کا مجاور ہوں
تو یا بات یاد رکھیں کہ ہمیں کشمیر میں حکومت کرنے کے لیے مقبول بٹ شہید کے
در کا مجاور چاہیے لاڑکانہ کا نہیں ؟کوئی اس شخص سے پوچھے جو کہتا ہے کہ
غیر ریاستی پارٹیوں نے کشمیر کا تشخص مجروع کیا اس سے کوئی پوچھے کہ مشرف
کی حمایت حاصل کر کہ کون اقتدار کے مزے لوٹتا رہا اور موجودہ دور میں وفاق
میں سیاسی سہارا تلاش کرنے کے لیے کون ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے یہ
سوال پوچھنے اور سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ بھارتی زیر انتطام کشمیر کی
اسمبلی کو اگر کٹھ پتلی حکومت کہا جا سکتا ہے تو آزاد کشمیر کی حکومت کو
کیوں نہیں ریموٹ کنٹرول حکومتوں نے کشمیر کی ریاست کا تشخص خراب نہیں کیا
؟ممکن ہے یہ لوگ لاکھوں کشمیریوں سے بچ نکلیں جو ان کا احتساب چاہتے ہیں ان
آزادی پسندوں سے بچ نکلیں جو ان کے خلاف کشتیاں جلا کر نکلے ہیں لیکن ان کو
اس بات کا علم کیوں نہیں کہ ان کو بھی ایک دن خدا پاک کے دربار میں حاضر
ہونا ہے اور وہاں کیا جواب دیں گے یہ کہ ہم نے اقتدار کے آسائشوں کے لیے
دھرتی ماں سے غداری کی ؟ہم نے اپنی دھرتی کی آزادی کی جہدوجہد کے بجائے اس
کو تبائی و بربادی کی طرف دھکیلا ؟ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سماج کے عدالتیں
ان کے برے کاموں کو اچھا قرار دیتی چلی جائیں لیکن کیا ان کو اس بات کی خبر
نہیں کہ سب منصفوں سے اوپر ایک اور بھی ہے منصف اور جس دن ان کے دربار سے
ٹھکرائے ہوئے کسی فقیر نے رب کعبہ کے دربار میں صدا دے دی تو وہاں سے پھر
کوئی ایسا فیصلہ سنایا جائے گا کہ ان کہ صرف بدن ہی نہیں ان کی روحیں تک
کانپ جائیں گی یہ قانون قدرت ہے کہ فتح ہمیشہ حق اور سچ کی ہوتی ہے کشمیر
یوں کو آزادی سے دنیا کی کوئی بھی قوت روک نہیں پائے گی (انشاء اﷲ )مقبول
بٹ کی شہادت سے شروع ہونے والا جہدوجہد آزادی کا یہ سلسلہ عارف شاہد شہید
کی شہادت پر ختم نہیں ہوا ریاست کی مکمل آزادی اور کود مختیار کے لیے
ہزاروں نے لاکھوں کشمیری جان کی قربانی دینے کو تیار ہیں آج مقبول بٹ شہید
کے یوم شہادت پر آزاد کشمیر حکومت حکومت پاکستان سے مطالبہ کرئے کہ مقبول
بٹ شہید کے جسد خاکی کو ورثا ء کے حوالے کیا جائے عالمی امن کی تنظیمیں اگر
امن کے لیے مخلص ہیں تو مسلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل
کیا جائے اور آزاد کشمیر حکومت پاکستانی حکومت سے مطالبہ کرئے کہ عارف شائد
شہید کے قاتلوں کو گرفتار کر کہ ان کو سخت سے سخت سزا دی جائے ایک آزادی
پسند کشمیر ی راہنما کو اس طرح شہید کر دیا جائے تو پاکستان میں بسنے والے
لاکھوں کشمیریوں کو اس بات پر سخت تشویش ہے اور عدم تحفظ کا شکار ہیں ریاست
جموں و کشمیر کے حکمران اگر آج بھی شہید کشمیر مقبول بٹ شہید کے افکار اور
نظریات کی پیروی کریں تو بلکل بھی مشکل بات نہیں کہ ہم آزادی کی نعمت سے
ہمکنار ہو سکیں ۔
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کی جبیں پر
مرقوم تیرا نام ہے کچھ ہو کہ رہے گا
|