باوقار صحافت اور سماجی اقدار

 انبیاء اور مرسلین کے دور میں لوگوں کی ہدائت کیلئے ان پر صحیفے اترتے تھے، نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر نبوت کے اختتام کے بعد اب صحیفوں کے نزول کا باب بند ہوگیا ہے۔ماہرین صحافت کا خیال ہے کہ "صحافت" کا لفظ صحیفہ سے ماخوذ ہے اور اگر ایسی بات ہے تو علمائے حق کے بعد صحافی ہی انبیاء و مرسلین کے مقدس مشن کے وارث ہیں مگر اس کیلئے اس کردار و عمل کی ضرورت ہے جو اسوہِ حسنہ کا آئینہ دار ہو، صحافت وہی ہو جو غیر جانبدار نہیں بلکہ حق کی طرفدار ہو، خبروں کی تصدیق کا معیار حدیث کی تصدیق والا نہ سہی مگر اس کے قریب ترین ضرور ہو، صحافت ایسی ہو جو قارئین کو حالات و واقعات سے صرف آگاہ ہی نہ کرے بلکہ لائیحہ عمل اور فکری و شعوری رہنمائی کے ساتھ ساتھ اوامر و نواہی اور حق و باطل میں فرقان بن کر معلمانہ کردار بھی ادا کرے، ہر شعبہ زندگی اور مکاتیب فکر کے افکار، احساسات، خیالات اور خبریں ضروری سہی مگر دیکھا یہ جائے کہ پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا جس سماج کی نمائندگی کر رہے ہیں کیا وہ اس کے ذریعے ان اقدار کے احترام کے بھی ضامن ہیں یا روشن خیالی کے زعم میں اس فکرخام اور خیالات عام کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں جس سے اپنے ہی گھر کی سماجی و اخلاقی اقدار تہس نہس ہو سکتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحافت کے جس journalکے تصور پر ہمارے کچھ دوست مشن کے بجائے کاروبار کو کامیابی کا زینہ سمجھتے ہیں مشن پرور اس پر یقین نہیں رکھتے، اس لئے کہ۔
چاہت میں کیا دنیا داری ، عشق میں کیسی مجبوری

ہر سماج کی اپنی اپنی تہذیبی اور تمدنی احساسات، نظریات اور اخلاقی اقدار ہوتی ہیں، امریکی صحافت جو کچھ پیش کر رہی ہے اس سے یورپ گریز کرتا ہے، یورپ کی صحافت ایشیا میں ناقابل قبول ہے، بھارت سمیت کچھ ایشیائی ممالک میں صحافت جن اقدار کے فروغ میں میراتھن ریس میں مصروف ہے وہ پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا اور جو کچھ صحافت کے نام پر اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں ہمارے کچھ روشن خیال اور مادر پدر آزاد صحافی بھائی کر رہے ہیںباوقار صحافی اس غلیظ کام کو کرنے سے مر جانا بہتر سمجھتے ہیں۔

آج كےپڑهے لكهے ایك صحافی کا موقف بھی یہی ہے کہ ہم صرف وہ بات، نظریہ، انداز فکر اور انہی اقدار کے فروغ كو بڑهاوا دینا چاهئے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو، ایک بھائی اپنی بہن کو اور ایک بیٹا اپنی والدہ محترمہ کو ایک فخر اور مان کے ساتھ اخبار پڑھنے کیلئے پیش کرے کہ سارا "ٹبر" ((Familyبلا جھجک اور آنکھیں چرائے بغیر اپنی مذہبی ، دینی، روحانی، سماجی، فکری، تمدنی اور اخلاقی اقدار کے ساتھ نہ صرف اخبار کا مطالعہ کریں بلکہ وہ اپنی گفتگو اور تحریر میں بھی بڑے مان اور فخر و انبساط کے ساتھ اس کا حوالہ دیں …کہ …ہاں اس اخبارمیں شائع ہونے والا کوئی کالم، تحریر، آرٹیکل محض کاغذ کالا کرنے کیلئے نہیں نہ ہی کوئی نیوز، تبصرہ، فیچر یا تجزئہ نا معتبر اور غیر مستند ہے-

صحافت قوموں کی تاریخ کا پہلا زینہ ہے، اسے عصری یا زندہ تاریخ (Living History) بھی کہتے ہیں، معاشرے کا طرز عمل، خیالات، افکار اور ان سے وابستہ حالات و واقعات آنیوالی نسلوں کیلئے تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں، ہم یہ تو نہیں کہتے کہ۔
ترے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم، دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
ترے ہاتھوں کی حسرت کی شمعوں میں ہم، نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
باوقار صحافی اور صحافتی ادارےهمیشه اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ … چلو تو دھیرے دیھرے، من کی چاہت کے ساتھ، دائمی طور پر بغیر رکے اور بغیر جُھکے، کیونکہ۔
درختوں سے اتر جاتے ہیں جب سوکھے ہوئے پتے
تو موسم کو
برہنہ زرد شاخوں کو
نیا ملبوس پہنانے میں
تھوڑا وقت لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
پہاڑوں کے سروں پر
برف کی تہہ کو پگھلنے
اور پانی کی چمکتی دھار بن کر
خنک اور پایاب دریائوں کو بھرنے میں
تھوڑا وقت لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مری جاں…خواب، جو ہم نے دیکھا ہے
وہ سچا ہے
کبھی اس خواب کی تعبیر سے مایوس مت ہونا
کہ ایسے خواب کو
زندہ حقیقت میں بدلنے میں
تھوڑا وقت لگتا ہے۔

Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 64777 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More