ایک صحافی ہونے کے ناطے انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لے رہا
ہوں کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے حکومت پاکستان اور طالبان کے درمیان ملک کے نظام
حکومت کے طریقہ کار کے حوالے سے مذاکرات کی کوششیں کی جا رہی ہیں دونوں
جانب سے کسی قدر سنجیدہ کوششیں بھی ہوتی نظر آئی ہیں ۔ایک طرف طالبان حکومت
سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ملک میں' اسلامی شرعی نظام' کا مکمل نفاذ کیا جائے
دوسری طرف حکومت ہیں امادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ انگریزوں کو یہودیوں
کے ممالک میں رائج نظام حکومت' جمہوریت ' جو وہ ہم پر ٹھونس کر گئے تھے پر'
جمہوری آئین' کے اندر رہتے ہوئے عمل کیا جائے ۔اس وقت اس اہم ترین ایشو پر
دنیا کی نظریں لگی ہیں ۔یہودی و عیسائی دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان جو مسلمان
ممالک میں ایٹمی قوت حامل واحد ملک ہے میں ان کی دی ہوئی جمہوریت قائم رہے
گی یا طالبان کے پریشر پر آکر شریعت کے نفاذ کیلئے کوشش کی جائے گی ۔اس
سلسلہ میں برطانوی و امریکی میڈیانے گزشتہ دنوں رپورٹ کیا کہ حکومت پاکستان
کا طالبان سے مذاکرات کرنا بلیک ہول سے بات چیت کرنے کے مترادف ہے،
دہشتگردوں سے مذاکرات بعض اوقات کئے جا سکتے ہیں لیکن ایسوں سے نہیں جو الگ
ریاست یا الگ حکمرانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔' ٹیلی گراف' نے اپنی رپورٹ میں
کہاکہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لئے کمیٹی کی تشکیل بے معنی
ہے۔اخبارنے یہ الزام بھی عائدکیاکہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز طالبان کے
حملے روکنے میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہیں اور عدالتیں بھی دہشت گردوں کو
سزا نہیں دے پا رہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی ریاست کو اس وقت سب سے بڑا
خطرہ عسکریت پسندوں سے ہے جنہوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے کو اپنے
کنٹرول میں لے رکھا ہے اور وہاں پر حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے۔ طالبان ہمیشہ
سے مذاکرات کو دوبارہ منظم ہونے کے لئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے
ہیں اورپھر حملے شروع کردیتے ہیں۔ پاکستانی طالبان ملک کو سخت گیر اسلامی
ریاست میں بدلنا چاہتے ہیں جہاں ملاؤں کی حکومت ہو اور خواتین کو برقعہ
پہننے کی پابندی ہو۔طابان کی طرف سے نامزد کمیٹی سیاسی چال ہے، پاکستانی
قیادت کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کرے۔ ایک بھرپور فوجی آپریشن کرنا
بھی ان کے لئے مسئلہ ہے کیونکہ طالبان کے حقانی نیٹ ورک سے قریبی تعلقات
ہیں اور حقانی نیٹ ورک افغانستان میں کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اچھے طالبان
اور برے طالبان میں تفرق کرنا مشکل ہو گیا ہے اور پاکستانی قیادت کمزور نظر
آ رہی ہے۔ حکومت پاکستان کے عہدیداروں سے مذاکرات اور ملاقات میں طالبان کی
حقیقت اور اہمیت کو واضح کردیا ہے۔ دوسری جانب بعض اسلامی ممالک جن میں
ایران سر فہرست ہے میں بھی طالبان سے مذاکرات کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا،
ایرانی میڈیا رپورٹس میں پاکستانی حکومت کے طالبان سے مذاکرات پر شدیدتنقید
کی جا رہی ہے ۔طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے نامزد رکن مولانا عبدالعزیز جو
کمیٹی سے علیحدگی کا اعلان اس لیے کر چکے کیونکہ ان کی شرط تھی کہ جب تک
مذاکرات میں شریعت کے نفاذ پر بات نہیں کی جاتی وہ مذاکراتی کمیٹی کا حصہ
نہیں بنیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں آئین کی شرط نہ لگائی جائیں،
سب سے بڑا آئین قرآن و سنت ہے، آئین اسلامی ہوتا تو تنازع ہی نہیں ہوتا،
آئین کی بالادستی کی بات کی جا تی ہے جبکہ ہمارا آئین تو قرآن و سنت سے
مزین نہیں بلکہ اس آئین میں کہیں کہیں اسلامی قوانین کے پیوند لگائے گئے
ہیں، ہماری مقننہ کو قرآن و سنت کی مکمل آگاہی بھی نہیں، قوانین کی بنیاد
پر انگریزوں کے قانون کو بنایا گیا۔بارود کے ڈھیر پر اس لئے کھڑے ہیں کہ ہم
نے قرآن و سنت سے منہ موڑا، سب سے بڑا آئین قرآن و حدیث ہے، قرآن کو آئین
بنائیں اور آگے چلنے کی کوشش کی جا سکی ہے۔
ادھرحکومتی نمائندوں کی چار رکنی کمیٹی میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفان
صدیقی،آئی ایس آئی کے سابق افسر میجر(ر)محمد عامر،افغانستان میں پاکستان کے
سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور افغانستان و قبائلی امور کے تجزیہ کار رحیم ا
ﷲ یوسفزئی شامل ہیں۔ طالبان کو کمیٹی کی تشکیل میں قدرے دشواری کا اس وقت
سامنا کرنا پڑا جب تحریک انصاف نے عمران خان اور جمیعت علمااسلام (ف)نے
مفتی کفائت ا ﷲ کو ان کی کمیٹی کا رکن بننے سے روک دیا جبکہ مسجد کے خطیب
مولانا عبدالعزیز نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی سے علیحد گی اختیار
کر لی ۔ طالبان کی کمیٹی اب باقی ماندہ نمائندوں مولانا سمیع الحق اور
جماعت اسلامی صوبہ سرحد کے امیر پروفیسر ابراہیم پر مشتمل ہے، طالبان جلد
نئے کمیٹی ممبران کے نام پیش کر سکتے ہیں ۔ ان مذاکرات کا آغاز ایسے ماحول
میں ہونے جا رہا ہے کہ بدامنی کے باعث ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ
کاری مسلسل کم ہو رہی ہے۔مقامی ادارے کرپشن کی وجہ سے ختم ہو نے کے قریب
ہیں،کرکٹ سمیت کھیلوں کے عالمی مقابلے برسوں سے منعقد نہیں ہو سکے۔
حکمرانوں،سیاستدا نوں،فوج ، ملکی سلامتی کے اداروں کے افسران او اہلکارو ں
اور عوام سمیت کوئی بھی دہشت گردی کی وارداتوں سے محفوظ نہیں ہے۔ٹارگٹ کلنگ،
بھتہ خوری اور اغوابرائے تاوان جیسے بھیانک جرائم اب روز مرہ کا معمول بن
گئے ہیں۔ ان عوامل کے باعث قومی زندگی مفلوج ہو چکی ہے۔ان حالات میں حکومت
کو پہلے سے زیادہ سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کی ایک بڑی
تعدادملک میں اسلامی شرعی نظام کے حامی ہے ،گزشتہ عام انتخابات سے پہلے
مختلف اداروں کی طرف سے اس حوالے سے عوامی سروے بھی سامنے آ چکے ہیں کہ ملک
کے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت جمہوری نظام سے تنگ جبکہ اسلامی شرعی نظام
کے نفاذ کی حمایتی ہے ،اگر موجودہ وقت میں اسلامی شرعی نظام کے نفاذ کے
پریشر کو مکمل طور پرطالبان کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے لیکن ملکی حالات
پر نظر رکھنے والے پالیسی سازوں کواس بات پر زور بھی غور کرنا چاہیے کہ ملک
کی معروف دینی و دنیاوی تعلیمی درسگاہوں سے فارغ التعلیم اور زیر تعلیم
نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ بھی ملک میں جمہوری حکومت کی بجائے اسلامی شرعی
حکومت کی خوا ہش مند ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ اس نظام کو طالبان کے ساتھ
منسلک کیے جانے سے وقتی طور پر یہ نوجوان تذبب کا شکار ہیں لیکن کبھی تو ان
لوگوں نے بھی آواز اٹھانی ہے،آپ اتفاق کریں ی نہ کریں لیکن مجھے لگتا ہے کہ
جب یہ پڑھے لکھے لوگ موثر طریقے سے شرعی نظام کیلئے آواز اٹھائیں گے تب
حکومت اور مفاد پرست سیاستدان ان کی آواز وں کو نظر انداز نہیں سکیں گے، اس
لیے حکمرانوں کو آج جو فیصلہ کرنا ہے کر لیں کیونکہ جس آئین کو آج انتہائی
مقدس کہا جا رہا ہے یہ صحیفہ نہیں بلکہ سیاستدانوں نے بنایا ہے اس میں اب
بھی ایسی ضروری تبد یلیاں کی جا سکتی ہیں جو اسلامی نظام کے مطابق ہوں
کیونکہ اسلام صرف عبادت کا نام نہیں یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔مولانا
عبدالعزیز درست کہتے ہیں کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت سے مزین نہیں بلکہ
اس آئین میں کہیں کہیں اسلامی قوانین کے پیوند لگائے گئے ہیں اور ان
پیوندوں پر بھی عمل نہیں کیا جاتا۔حکمرانوں کو چاہیے کہ اگر آئین کی بالا
دستی کے دعوے کرتے ہیں تو یہودیوں ، عیسائیوں کی غلامی سے باہر نکلتے ہوئے
آئین کو اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کیلئے استعمال نہ کریں بلکہ اسلام کی
سربلندی ،امت مسلمہ وریاستی عوام کی بہتری کیلئے استعمال کریں ورنہ باشعور
عوام کا انقلاب ان کے سہانے خواب چکنا چور کرنے میں دیر نہیں لگائے گا ۔
|