غلطی کی کہ جو کا فر کو مسلماں سمجھا

انسداد فرقہ وارانہ بل کے التوا اور غیر معینہ مدت تک کی تا خیر سے ایک بار پھر ہندوستان جیسے عظیم جمہو ری ملک کی جمہوریت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور وہ معزز سیا سی قائدین جو سیکو لر ہو نے کا دعوی بر سر راہ کر تے ہیں ،کا غیر ،سیکولر چہرہ مسلمانان ہند اور اپنی نوائے سروش اور خودی سے یکسر محروم چند کروڑ مسلمانوں کے سامنے نمایاں ہوگیا کہ لاکھ دعوو ں او ر تسلی آمیز جملوں کے با و جود دل میں منا فقت کی ایک مکروہ دنیا آبا د ہے اگر و ہ سیا سی قا ئدین جو خود کو سیکولر ہو نے کے مدعی ہیں آخرش کیوں عین و قت میں نو ائے مکروہ کے ہمنو ا ہو کر انسداد فرقہ وارانہ فساد بل کے ملتوی ہو نے کے سبب بنے ؟؟و جہ صاف او ربا لکل عیاں ہے کہ جب تک ان نام نہاد صحرائے عرب کے ریگزاروں سے آنے والے او ربحر ہند کو عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہو نے والے پردیسی کو کسی فریب میں نہ رکھا جائے تب تک کسی کی بھی سیا سی روٹی پک نہیں سکتی ،کا نگریس پھر کو ئی دوسر ی سیا سی پارٹی جو ان غریب پردیسیوں سے تعبد و تعشق کا اظہار کرتی ہیں، ان کے غیر سیکولر ہو نے کی قلعی کھل گئی او ریہ بھی با لکل صاف ہو گیا کہ اقلیت با لخصوص مسلمانوں کے مسائل کو لیکر کس قدر سنجیدہ او رمتفکر ہیں ۔رہی بات بھا جپا اور دیگر بد عنوان پا رٹیوں کی تو وہ عیا ں ہی ہے کہ فرقہ پرستی کی کھلی مدعی جماعت کیونکر سیکولرزم ہونے کی با تیں کریں۔ ان پا رٹیوں کو تو محض ایک ہی ایشو او رایک ہی نکتہ پر عمل پیرا ہو نا ہے خواہ ملکی اتحاد کا کیوں نہ جنا زہ اٹھ جائے اور ہنستے کھیلتے ہو ئے ہندکا شیرازہ بکھر کر کیوں نہ رہ جائے ان جما عتو ں کو اس سے کو ئی سروکار نہیں اور یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ ان کھلے منکروں کو کیونکر گہوارہ ہند کی شیرازہ بندی کی فکر لا حق ہو نے لگی ؟؟اور کیوں اتحاد و اتفاق کی اقرار کرنے والی ہوں ؟؟

ملائم سنگھ او ر اسکی حکمراں جماعت نے ہر بار مسلمانوں کے ووٹ سے ہی اقتدار کی کر سی حا صل کر پا ئی ہے اور یہ جماعت ہمیشہ مسلم نو ازی کا دعوی بھی کر تی رہی ہے لیکن چند ایام بلکہ اسی سال اس جماعت نے جس کھلی منا فقت کا اظہار کیا ہے ہو با لکل قا بل دید او رحیران کن ہے ،مظفرنگر دن رات جلتا رہا اور ہزاروں جانیں اس وجہ سے قربان ہو گئیں کہ مدعیان حفظ و نگہداشت نے مکمل بے اعتنائی بر تی ،مظفر نگرکے مسلم با شندگان اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اور اپنے عزیز و اقارب کی لا شوں کی تد فین تک کو تر س گئے کہ جن کو فر قہ پرستی کی نذر کر دیا گیا اور پھر جب یہ خانماں برباد راحتی کیمپوں میں پنا ہ گزیں ہوئے تو ہر طرح کی ظلم و ستم اور بے مروتی کی سنتیں تا زہ کر دی گئیں ،بھیک مانگنا کس کو کہتے ہیں کشت ہندوستان کہ جن کی زند گی کی بہاریں اسی کی فصل بہاراں کے شمار کرنے میں گذرگئی ،کو بتلا دیا گیا کہ ز ند گی کی و یرانی کیا ہو تی ہے اور جب تک فسا د زدگان کو زندگی او رموت کی کشاکش کا حقیقی ادراک نہ ہو سکا تب تک سیکولر ہو نے کی مدعی جماعت ستم ظریفیوں سے لطف اندوز ہو تی رہی ہاں مگر اظہار افسوس کی کھلی ہوئی منافقت کا پیہم اظہار ہوتا رہا الغرض جب تک مظفر نگر جیسے محبت نگر میں مکمل خون مسلم کی ہولی کھیل نہ لی گئی ،اپنے گوشہ عا فیت میں ہی رہنا غنیمت تصور کیا ؂مظفر نگر کے ہو لناک او رخونچکاں سانحہ سے ذرا قبل پرتا پ گڈھ میں ہونے والے ظلم و بربریت کا تصور کیجئے کہ محض اقتدار کی ہوس کے نشہ نے ایک معصوم او رایماندار خادم وطن ضیاء الحق کو شہید کردیا اوریہ نام نہاد سیکولر پارٹی لفظی دفاع کر تی رہی ،ہنگامے ہو ئے تو جبرا راجہ بھیا جیسے بدنام زمانہ کو وزارت سے سے بے دخل کر دیا لیکن جب ہنگا مہ ٹھنڈا ہوا اور لو گوں کی توجہ مظفرنگر کی طرف مبذول ہو گئی تو بڑی سبک روی کیساتھ اپنی وزارت میں اِس بدنام زمانہ کو شامل کر لیا او راپنی اس دا نشمندی او راحتیاط پر خود ہی پیٹھ تھپتھپا لی اور سمجھاکہ ہماری بزدلانہ حر کتوں کا علم گرچہ ہو رہا ہے مگر ہم نے ان حرکتوں پر اقتدار کے نشہ کی مہر لگا دی ہے تاکہ کو ئی ہماری اس جرات پر گرفت نہ کر سکے۔ ہا ں یہ سچ ہے کہ اقتدار کا نشہ بھی بڑا عجیب ہو ا کرتا ہے بلکہ یہ نشہ اقتدار اپنا ایک جہاں آبا د رکھتا ہے کہ جہاں کسی کی مداخلت کا خوف نہیں ہو تا ہے لیکن یہ خیال کر نا ضرو ری ہے کہ منا فقت لا کھ پر دوں میں چھپی رہے ،عیا ں ہو کر ہی رہتی ہے او رہو بھی کیوں نہ کہ منا فقت کی سرشت عیاں ہو نا ہے۔ اس نام نہاد سیکولر جماعت کی کھلی ہو ئی منا فقت کو دیکھئے کہ مظفر نگرمیں فساد زدگان تمام تر سہو لتوں سے یکسر محروم دو آبہ کی خون منجمد کر دینے والی سردیوں سے نبر د آزمائی کر رہے تھے تو یہ جما عت چند میلوں دور واقع سیفئی میں جشن منا رہی تھی یہاں لو گ سردیوں کو مات دے رہے تھے تو وہاں باپ بیٹے حسن کے شراروں میں سوختہ جاں تھے ،یہاں زند گی ایڑیاں رگڑ رہی تھی تو وہا ں زند گی خو د حسن شعلہ نما پر قربان ہورہی تھی اوریہاں درد،تکلیف کی چیخ و پکاراور آنسو تھے تو و ہاں ساز و آواز اور حسن و مو سیقی کا غلغلہ ہو شربا ۔آخر یہ کیا ہے ؟یہ کھلی ہوئی منا فقت نہیں تو او رکیا ہے ؟ اقتدار کی حصو لیابی کا شوق او ر پھر دعوی اتحاد نے ان کو گرچہ صحرائے عرب کو بھٹکتے ہوئے مکینوں کا غم گسار بنا دیا تا ہم ان کا یہ شوق فراواں کہ فریب دیکر رکھا جائے او ر اپنا الو سیدھا کیا جائے یہ ان کی سراسر حما قت ہو گی ۔

اس سیکولر جماعت کا دعوی اتحاد او رپھر یہ منا فقانہ حر کتیں کس امر کی طرف مشیر ہیں اگر دو سری جما عت ان حر کتو ں کا ارتکاب کرتی تو بات دیگر تھی تاہم دل کو لخت لخت کردینے والا و اقعہ یہ رونما ہوا کہ مسیحا ہی ہماری جانوں کا دشمن بن بیٹھا او ردشمنوں کی سا زشوں میں شریک ہو گیا ۔راقم بڑی حیرانی کا شکار ہو تا ہے کہ یہ منا فقت کیونکر ظاہر ہو ئیں ؟ان و عدوں کا کیا ہو ا جو اپنے انتخابی منشور میں کیاتھا ؟ان اعلانات کو کس کی نظر لگ گئی جو ووٹ کی بھیک مانگتے وقت اس سیکولر جماعت نے کیا تھا اف !یہ مکروہ حرکتیں کیونکر و اقع ہو ئیں ہم تو اپنا دل اس و جہ سے دے بیٹھے تھے کہ و ہ اپنے اخلاص میں سچا ہے لیکن یہ کیا ؟جگر بھی عجیب آدمی تھا کیا خو ب کہہ گیا ع
دل دشمناں سلامت ،دل دو ستاں نشانہ

ہندو ستانی مسلمان کی زند گی او ر پھر سیا سی زندگی صبح آ زادی او رتقسیم ہند کے و قت ہی سے تاریکیوں او رتیر ہ شبی کی شکار ہو گئی کہ ان کو آج تک نہ امید زیست کی شمع فرو زاں نظر آئی ہے او رنہ ہی سیا ہ شب میں کو ئی قا ئد مل سکا جو اپنی را ست قیا دتوں کے ذریعہ تیر ہ شبی میں نئی را ہ تلا ش کرکے اپنے متبعین کو منزل تک لے جا ئے ۔ایک تو کو رانہ تقلید او ردو سرے سیاسی بصیرت کے فقدان نے صحرائے عرب کے بھٹکتے ہوئے مکینوں کو راہ زندگی سے دور کر دیا اور اب ایک ایسا قا فلہ بن چکے ہیں کہ جس کا نہ تو کو ئی قا ئد ہے اور نہ ہی راہ نما بلکہ بے نالہ می رود جرس کاروان ما کی کھلی ہوئی تصویر ہیں ۔عرب کے ریگزاروں میں بھٹکنا ایک زندگی تھی کہ جس پر ہزارہا ہزار زندگیاں قربان ہیں لیکن اس گیتی ہند میں محض ایک زندگی ہزار کلفتوں کی شکار ہو کر تڑپ رہی ہے ؂یہ کلفتیں دامن گیر ہر گز نہ ہوتیں اگر ہم میں سیاسی بصیرت او ربدلتے ہوئے رجحانات کا صحیح ادراک ہو تا او ریہ ہمار ا یہ قافلہ بھٹکتا نہیں بلکہ اپنے و قا ر او رتمکنت کا شہنشاہ ہو تا مگر اف ! یہ بد نصیبی ع
مگر ایک چشم شا عر ہے کہ پرنم ہو تی جا تی ہے

انسداد فرقہ وارانہ فساد بل و قت کی ضرورت او رایک اہم تقا ضا ہے کہ یہ گیتی چمن اپنے ہی طا ئران نو ا سا ز کے خون سے رنگین نہ ہو او ریہ گیتی چمن باربار ویرانی او ربد حالی کی شکار نہ ہو او ریہ بل اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک میں مزید کشت و خون کی ہنگامہ آرائی نہ ہو او رملک کی سا لمیت محفو ظ رہے مگر ہمارے ملک کی بد نصیبی ہے کہ جو کام پل بھر میں ہو جانے چاہئے و ہ صدیوں تک کے لیے التواء کے شکار ہو جاتے ہیں اس بل میں سراسر اقلیت با لخصوص مسلمانوں کا فا ئدہ تھا کہ مسلمانوں کی جان و مال او ردیگر املاک محفوظ رہے او رفرقہ و اریت پر شکنجہ کسا جا سکے ؂؂۔کیونکہ ہندوستان میں عموما فرقہ و ارانہ فسادات کی نذر مسلمان ہی ہو تے ہیں او رسب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہو تا ہے لہذا اس کا نفاذ ضروری تھا لیکن سیکو لر زم کے دعویدار ہی اس کے نفاذ میں التواء او رتا خیر کے با عث بنے ہیں ۔ یہ کھلی ہوئی منا فقت نہیں تو اور کیا ہے؟؟مر زا غالب مرحوم جانے کیوں با ربار یا د آرہے ہیں او ران کے اس شعر کو دہرا کر اپنے غم کو غلط کر نے کی ناکام کو شش کررہا ہوں ؂
دل دیا جان کے کیوں اس کو و فا دار اسد
غلطی کی کہ جو کا فر کو مسلماں سمجھا

Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 26567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.