نظریہ مقبول

ماہ فروری کے آتے ہی کشمیر سمیت پوری دنیا میں تحریک آزادی کشمیر اور شہید کشمیر محمد مقبول بٹ کا زکر عام ہونے لگتا ہے یوں تو 1984میں محمد مقبول بٹ شہادت کے عظیم منصب پہ فائز ہوئے تھے لیکن 31جولائی1988کو شروع ہونے والی مسلح جد وجہد آزادی کے ساتھ ساتھ اس دن کی مقبولیت میں روزافزوں اضافہ ہوتا رہا اوریوں اوائل نوے کو اس تحریک کا عروج کہنا غلط نہ ہوگا،اور ساتھ ہی یہ ۱۱ فروری ریاست کے بچے بچے کے لئے قومی تہوار بن گیا ،یہی وہ خوف بھارت کے عصاب پہ سوار تھا جس نے اسے مجبور کیا کہ وہ شہید کشمیرکے جست خاکی کو تہاڑ جیل میں ہی دفن کر دے تا کہ لوگ اس دن و نام کو اپنی’’ وحدت‘‘ کی علامت نہ بنا لیں، لیکن وہ مبنی بر حق صدا کو ابھرنے سے نہ روک سکاکیوں کے قدرت کو کچھ اور ہی منظور و مطلوب تھا۔۔ ۔اور جب یہ قومی صدا عالمی سامراج کے درو دیوار سے ٹکرانے لگی تو دنیا بھر میں کھلبلی مچ گئی اور بین الاقوامی برادری نے بھارت کو کشمیر سے دستبردار ہونے کے مشورے دینے شروع کر دئیے،بلا شعبہ اس چنگاری کو شعلہ بنانے کا سہرہ لبریشن فرنٹ کی قیادت کو جاتا ہے ۔ایک طرف بھارت اس تحریک کو کچلنا چاہتا تھا دوسری جانب اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام آباد نے ریاست کی تحریک آزادی کو ہتھیانے کے لئے کوششیں تیز تر کر دیں اور جب اس میں ناکام ہوا تو تحریک کی میجر آرگنائزیشن کے حصے بخرے کرنے کی ٹھان لی،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی نام سے کئی گروپ وجود میں آئے اور متعدد نئے نام بھی سننے و دیکھنے کو ملے ۔جن میں سے اکثر نے’’ شہید کشمیر‘‘ کو ہی اپنا قائد کہااور بات یہاں ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ تب سے آج تک ہر وہ آزادی پسند گروپ یا پارٹی جس نے’’ مقبول بٹ‘‘ کو اپنا قائد کہا نے شہید کشمیر کے نظریات و فلسفہ کو اپنے انداز میں پیش کرکے’’ شہید کشمیر‘‘ کے اصل کردارو نظریات کے حوالے سے عوام کو الجھانے کی کوشش کی ۔اس حوالے سے اگر یوں کہا جائے کہ ہر ایک نے شہید کشمیر کے نام کو فقط اپنے لئے استعمال کرنے ک کوشش کی تو غلط نہ ہوگا ،اس لئے کہ شہید کشمیر اس عظیم’’ قومی تصویر ‘‘کا نام ہے جس کے ساتھ ہماری تصویر نہ ہو تو اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا البتہ اس تصویر کے ساتھ ہم اپنی تصویر جوڑ کے لگائیں تو ہمیں فرق ضرور پڑھتا ہے ۔۔۔

شہید کشمیر کی انقلابی جد وجہد بڑی واضع و دو ٹوک ہے اس میں کسی ابہام کا کوئی سوال نہیں ہے ۔محمد مقبول بٹ اور امان الﷲ خان محاز رائے شماری کے سرگرم رکن تھے کہ انہوں نے محسو س کیا کہ تنظیم میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے کہ ہم تحریک کو معروضی تقاضوں کے عین مطابق آگے نہیں بڑھا سکتے ،تو 13اگست1965کو پشاور میں آپ اور امان الﷲ خان کی کوششوں سے نیشنل لبریشن فرنٹ نام سے ایک زیر زمین تنظیم کا قیام عمل میں آیا ، جس کا مقصد تحریک آزادی کشمیر کو دور حاضر کے جدید تقاضوں پر استوار کر کے آزادی کے تین مسلمہ سیاسی سفارتی و عسکری محازوں پر منظم کرنا تھا ۔اور اس کے پیچھے یہ نظریہ کار فرما تھا کہ’’ اپنا اوراپنے دشمن کا خون بہائے بغیر آذادی نا ممکن ہے‘‘اور اپنے دیس کی آزادی کے لئے خود لڑنا اور اس کی حفاظت کو بھی اپنا فرض سمجھنا اس کا موٹو تھا ،اور یہی وہ تنظیم تھی جس نے تحریک آزادی کی سمت کا تعین کیا تھا اور شہید کشمیر اسی تنظیم کے زمہ دار کی حیثیت سے 66میں’’اس پار‘‘ گئے اور وہاں کے نوجوانوں کی مسلح تربیت کے لئے کیمپ قائم کیا ،جس کے دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا،جو کہ بعد میں وہ جیل سے فرار ہو کر آزاد کشمیر پہنچے جہاں انہیں مختلف عقوبت خانوں میں تشدد کا سامنا کرنا پڑھا ،اس کے کچھ عرصہ بعد اسی تنظیم نے بھارتی طیارہ ہائی جیک کر کے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور اس کے بعد لبریشن فرنٹ پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور’’ لبریشن فرنٹ‘‘ تقریباً ختم ہو گیا تھا اور شہید کشمیر ایک بار پھر 76میں اس پار چلے گئے اور وہاں ایک بار پھر نوجوانوں کو سیاسی و عسکری تربیت دینے لگے کہ انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور پھر انہیں 11فروری1984کو تہاڑ جیل میں شہید کر کے احاطہ جیل میں ہی دفن کر دیا گیا ۔اور یہ شہید کشمیر کے 1965سے1984کی ساری انقلابی جد و جہد کا خلاصہ ہے اور ساتھ ہی شہید کشمیر کے اپنے دوستوں و ساتھیوں کے لئے جیل سے لکھے گئے خطوط کا مطالعہ کیا جائے تو شہید کے نظریات کے حوالے سے زرہ بھر کوئی ابہام نہیں رہتا کہ وہ ریاست کی 1586و15اگست 1947سے پہلے کی پوزیشن میں ایک آزاد خود مختار مملکت دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لئے وہ اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق محکوم قوم کی تحریک آزادی کو ہر محاز پر منظم کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے قوم کے لئے جس سمت کا تعین کیا خود کو اس سانچے میں ڈھال کر عملی جد و جہد سے ثابت کیا کہ آپ تحریک آزادی کو الجزائر و فسلطین کی تحاریک کی طرح آگے بڑھانے کو کامیابی کا راستہ سمجھتے ہیں اورمیدان کارزار کا زریں اصول کہ اپنا اور دشمن کاخون بہائے بغیر آزادی نا گزیرہے اس کی بنیادبنااور ان کی انقلابی زندگی گواہ ہے کہ وہ تحریک کو انہی خطوط پر استوار کرتے ہوئے اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔اور ان کے آخری بار لائن اف کنٹرول کے اس پار جانے اور وہاں گرفتار ہونے کے بعد جب نیشنل لبریشن فرنٹ عملی طور پر ختم ہو گیا توامان الﷲ خان نے ان کے مشورے سے جے کے ایل ایف کے نام سے تنظیم قائم کی جس کے پرچم میں سرخ رنگ شہید کے اسی فلسفے ’’کہ اپنا اور دشمن کا خون بہائے بغیر آزادی نا ممکن ہے ‘‘ عکاسی کرتا ہے اور وہ تنظیم آج بھی انہی نظریات پر قائم ہے جب کہ اس سے جنمے درجن بھر گروپ جو اپنے آپ کو مقبول بٹ کا پیرو کار کہتے ہیں عسکریت میں ان کا کردارنہیں رہا،ان کے علاوہ بھی وہ تما م آزادی پسند تنظیمیں نوے کی دہائی میں عسکریت اور لبریشن فرنٹ کے ناقد رہیں یہاں تک کہ لبریشن فرنٹ کے ہی سینئر لوگ جب تنظیم میں تھے تو عسکریت کجا این ایل اے کے خاتمے کے لئے سرگرم رہے اور تنظیم سے علیحدہ ہوتے ہی عسکریت کے حامی اور لبریشن فرنٹ کے سیز فائر کے ناقد بنے اور امان الﷲ خان پر نظریات سے انحراف کا الزام عائد کیا،حالانکہ ریاست جموں کشمیر میں لبریشن فرنٹ کے تمام گروپس اور آزادی پسند تنظیموں میں ماسوائے لبریشن فرنٹ امان کے مسلح جدوجہد میں کسی کا کوئی حصہ نہیں رہااوراور نہ ہی کسی نے کبھی اس کی حمائت کی اور آج بھی اس تنظیم کی اعلیٰ قیادت نے بارہا علان کیا ہے کہ مسلح جدوجہد بوجوہ معطل ہے اسے ترک نہیں کیا اوریہ حالات پر منحصر ہے کہ اسے کب دوبارہ سرگرم کا جائے ،اس کے باوجود ہر کوئی بٹ کا دیوانہ و شیدائی ہے اور ان کے نظریات و فلسفے کا داعی ہے ’’لیکن صرف تصویریں بنوانے کی حد تک‘‘جب کہ بٹ صاحب کی تحریکی زندگی میں عسکریت کو ہمیشہ پہلا درجہ حاصل رہا جو کہ عظیم مقبول بٹ کی عملی زندگی سے ثابت ہے لیکن بد قسمتی سے جنہوں نے اپنی ساری سیاسی زندگی میں ایک مچھر نہیں مارا ،وہ مقبول بٹ کے نظریات کو موم کی ناک بنائے پھرتے ہیں اور اپنی من پسند توجیحات پیش کرتے ہیں ۔جدید عوامی مسلح جدوجہد ،و نظریات مقبول سے انحراف کا الزام لگانے والے تنقید کرنے کے بجائے تحریک کو تینوں محازوں پر منظم کر لیں تو ان کی قیادت میں چلنے میں کسی کوقطعی کوئی احتراض نہ ہو گا۔لیکن اپنی خود نمائی و خود پسندی کے لئے شہید کشمیر کے عظیم کردار کو مسخ کرنا اسے نت نئی توجیحات میں پیش کرنا ،شہید کی روح سے نا انصافی ہے۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75421 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.