اﷲ کے نزدیک پسندیدہ دین، دین اسلام
نے ہمیشہ ہی کائنات عالم میں امن و مان کو فروغ دینے کی عمدہ مساعی کی اور
فرقہ پرستی، دہشت گردی اور تعصب پر مبنی طرز عمل کی بیخ کنی کی، اس سلسلے
میں اس نے اپنے اور پرائے کا خیال کئے بغیر ہمیشہ ہی امن و شانتی کے قیام
پر زور دیا اور اسی راہ راست کی حمایت اور اس سے وابستگی کا اظہار دین حق
پر گامزن علمائے اہل سنت و جماعت اور مثبت سوچ و فکر کے حامل سیاسی اور
سماجی دانشواران قوم اپنی تحریروں میں لکھتے اور اپنی تقریروں میں بیان
کرتے چلے آئے ہیں اور انشا ء ا ﷲ صبح قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس
لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو صحیح معنوں میں مسلمانی عقائد و
نظریات کا حامل ہے وہ کبھی بھی دہشت گردانہ طرز عمل میں ملوث نہیں ہو سکتا
اور اگر کوئی دہشت گردانہ طرز عمل میں واقعی ملوث ہے تو صحیح معنوں میں وہ
اپنے طرز عمل سے اسلام کو بدنام کررہا ہے اور نام نہاد مسلمان ہے اور اگر
وہ دہشت گردانہ معاملات سے وابستہ نہیں تو اسے دہشت گردوں کی فہرست میں
شامل کرنا انسانیت کے ساتھ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے جہاں ایک طرف بے قصور
افراد کو قید و بند کی مشقتیں جھیلنے ، انہیں اپنے سماج اور معاشرے میں
ذلیل و خوار ہونے کے لئے مجبور کیاجاتا ہے اورانہیں طرح طرح کی آزمائشوں
میں مبتلا کیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب حقیقی دہشت گردوں کو جر ائم کرنے
اور ملک میں آتنک پھیلانے کا مزید موقع دیا جاتا ہے جس سے جہاں ایک طرف ملک
میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہوتا ہے وہیں دوسری جانب ملک کا معاشی ،
اقتصادی اور امن و شانتی کا نظام متاثر ہوتا ہے جو ملک کے لئے نیک فال نہیں
کیوں کہ اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ ’’ غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے‘‘
آمدم بر سر مطلب: سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک کی سا لمیت اور سیکورٹی
کے مد نظرسیمی(اسٹوڈینٹس اسلامک مو منٹ آف انڈیا ) کی نقصان دہ سر گرمیوں
کو دیکھتے ہوئے یکم فروی 2014ء کو اسے غیر قانونی ڈکلیر کر دیا گیا ہے اور
اور اس پر پانچ سال کے لئے مزید پابندی عائد کردی گئی ہے امور داخلہ کے
وزیر مملکت آرپی سنگھ نے سیمی پر پابندی کی وجہ یہ بتائی کہ اس تنظیم کے
ممبران کی سرگرمیاں ملک کی سلامتی اور امن و امان کے لئے رخنہ ڈالنے والی
ہیں اور مرکز کے زیر انتظام ریاستوں میں ان کے تعلق سے کئی کیسیس بھی درج
ہیں ،مرکزی سرکار نے غیر قانونی سرگرمیاں انسداد قانون 1967کے تحت سیمی کو
غیر قانونی تنظیم تسلیم کیا اور اس پر پانچ سال کے لئے مزیدپابندی لگادی۔اس
سے قطع نظر کہ سیمی کے بنیادی مقاصد کیا ہیں ؟اس کی سرگرمیاں کیا ہیں ؟ اور
کیسی ہیں؟ ملک کی سا لمیت کے لئے سیمی کے ممبران کس حد تک خطرنا ک ہیں؟
حکومت کا سیمی کے خلاف پابندی لگانا کس حد تک صحیح اور درست ہے ؟ا اس کا
جواب تو سیمی اور اس سے وابستہ افراد ہی بہتر طریقہ سے دیں گے۔کیوں کہ ہم
سخن فہم ہیں سیمی کے طر ف دارانہیں ‘‘ سردست ہم سیمی پر پابندی لگانے والی
حکومت سے صرف اتنا پوچھناچاہیں گے کہ اگر سرکاری ایجنسیوں کے بقول سیمی کی
سرگرمیاں ملک کے تئیں مشکوک ہیں اور اس پر پابندی لگانا ضروری ہے تو پھر
آخر کون سی غیبی طاقت ہماری حکومت کو ملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست تنظیم آر
ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی لگانے سے روک رہی ہے ؟ حالانکہ
بر سر اقتدار مرکزی حکومت سمیت تمام ہی ارباب سیاست و اقتداربخوبی جانتے
ہیں کہ چھ سو سالہ قدیم امن و شانتی کی نشانی ’’بابری مسجد ‘‘ کی شہادت اور
اس کی مسماری میں بھر پور حصہ لینے والے نام نہاد رام بھگتوں اور شدت پسند
لیڈرا ن آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمں بجرنگ دل ، وشو ہندو پریشد و
ابھینو بھارت جیسی شر پسند تنظیموں سے وابستہ تھے۔ جس کی وجہ سے ملک میں
فرقہ پرست طاقتوں نے فتنہ و فساد برپا کرنے اور امن و قانون کی صورت حال
خراب کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور بابری مسجد کی شہادت سے ملک میں شر
پسندوں کے حوصلے دن بد ن بڑھتے گئے اوروہ بابری مسجد کی طرح کاشی، متھرا
اور گیان واپی جیسی مسجدوں پر بری نظر لگائے ہوئے ہیں جو ملک کے امن و امان
کے لئے زبر دست خطرہ ہیں اس کے باوجود آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں
پر پر پابندی کیوں نہیں؟۔
اور اس شدت پسندانہ نظریات نے سیاسی وؤٹ بینک کی خاطر ملک میں قریب 60000
سے زائدفرقہ وارانہ فسادات کرائے جس سے ہر لحاظ سے مسلمانوں کو جانی
اورمالی نقصان اٹھا نا پڑا اور مسلمان روز افزوں پسماندگی کی دہلیز پر
پہونچتے گئے ،ملک میں بد امنی اور دہشت گردی کو بڑھا وا ملا اس کے باوجود
اس فرقہ پرست سنگھٹن آر ایس ایس پر پابندی نہیں لگائی گئی ؟ آخر کیوں ؟سمجھوتہ
ایکسپریس دھماکہ اور مالیگاؤں بم بلاسٹ کے ماسٹر مائنڈآر ایس ایس ورکر
اسیمانند نے کیراون میگزین کے نامہ نگار گیتا رگھو ناتھ کو دئے اپنے ایک
انٹر ویو میں کہا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ اور مالیگاؤں بم بلاسٹ آر ایس
ایس کی منظوری کے بعد انہوں نے کیا تھا، میگزین کے نامہ نگار نے دعویٰ کیا
کہ یہ منظوری آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے دی تھی اور ساتھ ہی آرا یس
ایس یونین کے اعلی افسر اندریش کمار بھی تھے ۔ کیراون میگزین نے دعویٰ کیا
ہے کہ گیتا رگھو ناتھ نے 2سال میں 4 بار اسیمانند کا انٹر ویو لیا اور اپنے
دعوی ٰکے پختگی کے لئے گیتا رگھو ناتھ اور اسیما نند کے انٹر ویو کے دوآڈیو
بھی جاری کئے ہیں جس سے سیاسی دنیا میں بھونچال آگیا اور ’’ وقت را غنیمت
شمرد ‘‘موقع کا فائدہ اٹھا کر سیاسی بازی گری کا طوفان بپا ہوگیا قبل اسکے
کہ آرا یس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے خلاف قانونی کارراوائی کرنے کا طریقہ
ڈھونڈا جاتا، اسیمانند آر ایس ایس کے دباؤ میں انٹر ویو دینے ہی سے انکار
کر بیٹھے لیکن اتنی بات تو مسلم ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ اور
مالیگاؤں بم بلاسٹ میں ملوث اسیمانند ، سادھو پرگیہ سنگھ اور کرنل پروہت
جیسے دہشت گردوں کا آر ایس ایس سے دہشت گردی کے فروغ پانیوالے رشتے ثابت ہو
گئے ہیں جس سے اس تنظیم پر پابندی لگانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے مگر اس کے
باوجود آر ایس ایس پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟
کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی جن سے نوجوانوں کو کافی امیدیں ہیں انہوں
نے خود آر ایس ایس کے دہشت گردانہ نظریات تسلیم کرتے ہوئے گجرات میں8فروری
2014ء اپنی ایک ریلی میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ ہم فرقہ پرست
لیڈر(نریندر مودی) کی طرح آر ایس ایس کے ورکر نہیں ہیں کیوں کہ مہاتما
گاندھی کے قتل کا ذمہ دار آر ایس ایس کا ہی نظریہ تھا(جب 30جنوری 1948ء کو
ایک جنونی ہندو آر ایس ایس ورکرنے انہیں قتل کیا ) اسی وجہ سے سردار پٹیل
اس فرقہ پرست تنظیم (آر ایس ایس )پر پابندی لگانا چاہتے تھے۔حیرت ہے ان تما
م حقائق سے واقفیت و آگہی کے باوجو د راہل جی اور ان کی پوری ٹیم نے کبھی
بھی آر ایس ایس کے خلاف پابندی لگانے کی ہمت نہیں کی آخر کیوں ؟ کیا ملک کا
قانونی نظام صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے ہی بنا ہے؟ یا کسی بھی بھید بھاؤ
کے بغیر ملک میں ہندو مسلماور تمام ہی طبقوں کے لئے ملک کا قانون ہے ؟ اگر
سب کے لئے ہے تو پھر آخر کیا وجہ کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں ملک
میں آتنک مچائیں تو ان پر قید و بند کی کوئی پابندی نہیں اور اگر بنام
مسلمان کوئی تنظیم خواہ اس کا وجود حقیقت میں ہو یا نہیں اس کی ذرا سی
سرگرمی مشکوک لگی تو فوراً ہی ان پر پابندی لگادی جاتی آخر کیوں ’’برق گرتی
ہے تو بے چارے مسلمانوں پر ‘‘ کیوں آخر ان فرقہ پرست تنظیموں اور شر پسند
لیڈروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاتی ؟ اور اس کے لئے ’’فرقہ
وارانہ فساد بل‘‘ پارلیمنٹ میں مرکزی حکومت ایمانداری سے پیش نہیں کرتی ؟
اس لئے تنظیم ابنائے اشرفیہ شاخ ہوڑہ کے اراکین اور ذمہ دار ن سمیت تمامی
سیاسی ، سماجی اور ملی قائدین کا مطالبہ حکومت ہند کو منظور کرلینا چاہئے
کہ ہندوستانی سماج کے تارو پود بکھیر نے والی شدت پسند آر ایس ایس اور اس
کی ذیلی تنظیمیں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد وغیرہ پر حکومت ہند پابندی
عائد کرے۔ ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر کے ان کی سرگرمیوں پر روک لگائے
۔ ان کے خلاف کارراوائی کر کے ان کے برے کرتوت کی انہیں سزا دے اور
پارلیمنٹ میں ’’فرقہ وارانہ فساد بل‘‘ پاس کر کے ملک کو فرقہ پرست طاقتوں
کے فتنہ و فسادسے محفوظ رکھے ۔ |