دہشت گردی ، شاہد علی خان اور مسلمان

بلوچ میں انتخابی مہم زوروں پر ہے، موجودہ اور سابقہ حکمران عوام کو بے وقوف بنانے میں جتے ہوئے ہیں۔ سیاسی شعبدہ بازی اور وعدے وعید جاری ہیں۔ ضمیر تو رہے نہیں البتہ لاشوں کی خرید وفروخت بھی ہو رہی ہے۔ سردار عتیق کا کہنا ہے کہ غیر ریاستی جماعتیں پارٹی عہدیدار نامزد نہیں کرسکتے سیٹ کیا جیتیں گے۔ فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ حکمران دریائے جہلم کی نذر ہونے والے ہیں ان کے جھوٹے وعدوں پر توجہ نہ دی جائے۔ لطیف اکبر کا کہنا ہے بلوچ والے اس بچے کو کامیاب کریں، ہم وزارت کا بوجھ لاد کر اسے واپس لوٹا دیں گے۔

بلوچ کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، اساتذہ اور بچوں سے محروم سکول، ادویات اور ڈاکٹروں سے خالی ہسپتال اور ڈسپنسریاں، غربت کی سطح سے نیچے سسک کر زندگی کی دن گزارنے والے عوام اور بیروزگاری کے ہاتھوں کچلے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کسی سیاسی شعبدہ باز نے کچھ نہیں کہا۔ مسلم کانفرنس، مسلم لیگ، پی پی پی سب اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ کسی کے دامن پر خدمت کا کوئی نشان نہیں جو عوام کے سامنے رکھ سکیں۔لوٹ مار کے ہزاروں نشان ریاست بھر میں منہ کھولے گواہی دے رہے ہیں۔ لمبی لمبی قیمتی گاڑیاں، عالیشان محلات، زرق برق ملبوسات، شاہانہ طرز زندگی سب ہی کچھ ان کی کرپشن کی گواہی دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ عوام کے خدمت گار بھی ہیں اور ان کے بہی خواہ بھی۔ عوام بھی کیا بھولے ہیں، چور کو چور کہنے کے باوجود اس کا ساتھ دیتے ہیں، اس لیے کہ اس بہتی گنگاہ سے کچھ ان کے ہاتھ بھی آجائے۔ کوئی بچے کی نوکری کے ہاتھوں مجبور ہے، کو ئی مالی امداد کا متمنی ہے اور کوئی کسی سڑک، کسی سکول بلڈنگ، کسی ٹھیکے اور کسی تبادلے کے لیے اپنے لاشے کا سودا کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

تحریک آزادی کشمیر کسی کی ترجیح نہیں، ریاست میں اسلامی قوانین کے عدم نفاذ سے بھی کسی کلمہ گو کا کوئی تعلق نہیں، صاف ستھری حکومت بھی کسی نمازی، حاجی اور مبلغ اور عالم دین کی طلب نہیں۔ شہریوں کو تعلیم ، صحت، روزگار اور ذرائع نقل وحمل بھی کسی کی ترجیح نہیں۔ ان کی خواہش اپنی برادری کی کامیابی، ٹھیکے کا حصول، زکواۃ فنڈ سے فیضیابی اور بیت المال سے حصہ بقدر جسہ ہے اور اس طرح کے ذاتی نوعیت کے مسائل ہیں۔ کسی کو نہ اپنی ریاست سے کوئی کنسرن ہے اور نہ اپنے حلقے سے، کسی کو اسلامی قوانین کے نفاذ یا عدم نفاذ سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کا حل کسی کا مسئلہ ہے ۔ آج عوام اور خواص سب کا مسئلہ ’’ذات ‘‘ ہے، ہر کوئی اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔عوام سے سیاست دان تک سب ہی ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور برتاؤ کرتے ہیں۔

کون جیتے گا…… یہ سوال ہر طرف سے پوچھا جارہا ہے۔ امیدواروں اور ان کے سرپرستوں کے دعوے اپنی جگہ…… اصل بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں لالچ، خودغرضی اور دھاندلی جیت جائے گی۔ یہ ہمارے عوام اور سیاستدانوں کی اولین ترجیحات ہیں۔یہی سیاست کی بنیادیں ہیں اور انہی بنیادوں پر پارٹی، عہدے، حکومتیں اور مہمات چلائی جاتی ہیں۔اگر لالچ اور خودغرضی جیتے گی تو ہارے گا کون؟

مقبوضہ کشمیر کے ہر گھرسے ماؤں اور بہنوں کی پکار،مظلوموں کی چیخیں، قیدیوں کی المدد، المدد کی صدائیں نظر انداز کرنے والے، قرآن کے ایک، ایک صفحے پر نفاذ کی پکار کو ان سنی کرنے والے، معاشرے میں ظلم، ناانصافی، کرپشن ، اقربہ پروری اور منکرات کے فروغ میں حصہ ڈالنے والے عوام، علماء ، اساتذہ، بزرگ، نوجوان، خواتین اور صاحب علم و فہم جان لیں کہ مظلوموں کی آہوں کو نظر انداز کرنے والے،قرآن کی پکار کو نہ سننے والے اور ناانصافی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے والے اور منکرات کے فروغ میں حصہ ڈالنے والے سب ہی لوگ تباہی ، بربادی اور سنگین عذاب سے دوچار ہونے سے نہیں بچ سکیں گے۔ذلت اور رسوائی ان کا مقدر بنے گی۔ لعنت کے حقدار قرار پائیں گے اور ایمان اور دنیاوی سکون سے بھی محروم رہیں گے۔

ایک طرف قرآن کے نفاذ کا معاملہ ہے اور دوسری طرف اپنے نفس کو پوجا ہے۔ ایک طرف مظلوم کشمیری قوم کی فریادیں ہیں اور دوسری طرف مفادات ہیں۔ ایک طرف ظلم سے بھرا ہوا نظام ہے اور دوسری طرف ذاتی مفادات ہیں۔ ایک طرف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی پکار ہے اور دوسری طرف قبیلے اور برادری کے مفادات ہیں۔ اگر اختصار سے کہا جائے توایک طرف کلمہ طیبہ ہے اور دوسری طرف نفس کی ضرورتیں ہیں۔ ان میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے؟ جو جیسا انتخاب کرے گا ویسے ہی انجام سے دوچار ہو گا۔

موجودہ نظام شیطان صفت انسانوں کی گرفت میں ہے، جہاں اﷲ کی اطاعت ، نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے بجائے شر کی ہرصورت کو اجاگر کرنے منظم کوششیں جاری ہیں۔ ریاست کے عوام کلمہ گو ہونے ، اﷲ کی کبریائی کو تسلیم کرنے، محمد عربی ﷺ کے امتی ہونے کے باوجود نفاذ شریعت اور مقبوضہ کشمیر کی آزادی کو نظرانداز کرکے ان شیطانوں کے حواری بنے ہوئے ہیں۔ عوام تو کجا خواص اور نام نہاد علماء بھی صف اول میں شامل ہیں۔ اس معاشرے کا کیا بنے گا؟

داعیان دین کہاں ہیں، کیا وہ عوام کے پیچھے چلیں گے یا اس بگڑتی ہوئی صورت حال میں اپنا کوئی کردار ادا کریں گے؟ جو لوگ نفاذ اسلام کی اہمیت سے نابلد ہیں، ان سے شکوہ بے جا ہے، شکایت تو ان سے ہے جو حق کو جانتے، پہچانتے ہیں۔ وہ اپنے دفاتر کی چاردیواری میں فلسفے جھاڑ کر شھادت حق کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، پتہ نہیں کب انہیں یکسوئی حاصل ہوگی اور کب وہ کمربستہ ہوکر میدان میں نکلیں گے۔فریضہ اقامت دین سے ناواقف عوام تو شاید خدا کی ناراضگی سے بچ جائیں لیکن داعیان الی اﷲ ہونے کے علمبرداروں کی سہل پسندی زیادہ توجہ طلب ہے۔
 
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117153 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More