امن یا جنگ

گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہما ری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل وطن
یہ وطن ہے ہمارا تمہا را نہیں
حضرت وا صف علی وا صف فرما تے ہیں کسی بڑ ے کام کو شروع کر نے سے پہلے اس کے لیے قوی جواز اور قوی دلیل کا ہونا ضروری ہے ۔ سفر پر جا نا ہو تو پہلے جا نے والے مسا فرو ں سے حا لا ت سفر معلوم کر لینا ضروری ہے ۔ دریا کشتی کے زریعے عبو ر کر نا ہو تو تیرنے کا علم جا ننا بہتر ہو تا ہے ۔ بڑے کام کیلیے بڑی دلیل ضروری ہے ۔ ہر کام ہر آدمی کیلیے نہیں ۔ علم کا راستہ طے کر نے والے اور طر ح کے لو گ ہو تے ہیں ، تعلیم حا صل کرنے والے اور گھرو ں میں رہنے والے اور ہیں ۔ سفر اختیا ر کرنے والے اور۔ اﷲ کی راہ میں نکلنے والے اور ہیں اور ان کا را ستہ رو کنے والے اور ۔ قوی دلیل جذبہ شہا دت تھا ۔ سجدہ شبیر تھا ۔ بڑا کام تھا ، بڑی دلیل تھی ، بڑا جواز تھا ، بڑا نتیجہ ہے ۔ بڑی با ت ہے ۔گذ شتہ کئی بر سوں سے طا لبان سے مذ اکرات کے تنا ظر میں ڈرامہ رچایا جا ریا ہے جس کا مقصد سیر حاصل نتا ئج نہیں بلکہ محض نام نہا د قوم کو بیو قو ف بنا نا ہے جو ایسے حکمرانو ں کا چنا ؤ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو ان میں سے کم اور اغیا ر میں سے زیا دہ سمجھتے ہیں ہما ری قوم کی بد قسمتی کے جس طر ح ما ضی سے لیکر حال اور حال تا مستقبل مسئلہ کشمیر کے حل کی با ت کر نے وا لے اس پر دوہر ے تہرے فریق کا ہنگا مہ کھڑا کر نے والے اس کی بنیا دی معلو ما ت اور تعلیمات سے ہی نا آشنا تھے من و عن آج پاک افغا ن مذاکرات اور جنگ کا فیصلہ کرنے والے مسئلہ کشمیر کے منصفین اور منتظمین سے بھی کئی بڑھ کر کم عقل ، بے وقوف اور بے سمجھ ہیں ۔طا لبان اور حکمران دونو ں ایک دوسرے کو بیوقوف بنا نے اور نیچا دکھا نے کی بھر پو ر تگ و دو میں لگے ہو ئے ہیں حقیقی پہلو ؤ ں اور سوچ و نظر یا ت سے با دی نظر محض قیا فو ں اور قیا س آرائیو ں سے کام لیا جا رہا ہے اہل ایمان کسی مسلمان مومن پر خو د کش حملہ نہیں کر سکتے ہیں یہ قرآن و حد یث ، اجما ع و قیاس اورتمام تر مکا تب فکر سے ثا بت ہے ما سوائے دہشت و وحشت کی علا مت خو د سا ختہ مفکر ین اور منا ظرین سے اس کے پس منظر میں جھا نک لیا جا ئے تو معمہ حل کیا جا سکتا ہے کہ جس طر ح سے حضرت ابو بکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمان غنی ؓ اور حضرت علی المر تضیٰ ؓ کی اولا د میں سے کوئی نہ کوئی لڑی چل نکلی اور ان کا خمیر زندہ ہے اسی طر ح سے ابو جہل ، فرعون ، شداد ، یز ید ، دجا ل اور شیطا ن کی آل اولا د میں سے بھی بعض موجود ہیں جو اپنے حسب ، نسب اور کسب سے جا نے اور پہچا نے جا سکتے ہیں جس طر ح سے ایک ولی کامل کو پہنچا نے کے لیے کامل نظر کی ضرورت ہے اسی طر ح سے کاملین کے دشمنو ں اور مخالفین کو پہچانے کے لیے بھی انکے اوصاف سے با خبر ہو نا لا زم و ملزوم ٹھہرا ۔مذ اکرات سے قبل اس با ت کا ادارک تو ضروری ہو نا چا ہیے کہ دونو ں فریقین کس حد تک ایک دوسرے کو قبول کر تے ہیں ان کا پس منظر اورپیش منظر کیا ہے اس سا رے مسئلہ سے قبل چند باتیں ذہن نشین رکھ لینا بہتر ہیں کیا طا لبان پاکستان میں موجود جمہو ری نظام اور اسکے تقا ضو ں سے واقف ہیں ؟ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قوانین کو تسلیم کرتے ہیں ؟ طا لبان کی مجلس شوریٰ علما ء مجا ہدین نے جو فکری تفصیلی فتویٰ میڈیا اور اس سے وابستگا ن کے خلا ف جا ری کیا وہ انہو ں نے واپس لے لیا ہے ؟ کیا طالبان مسلح افواج پاکستان اور حساس اداروں کے خلا ف جنگ بندی کے لیے بھی مکمل طو ر پر رضا مند ہیں ؟ کیا اس جنگ و جدل میں شہید ہو نے والے مظلو مو ں اور بیگناہو ں کا خون رائیگا ں چلا جا ئے گا ؟ نہیں نہیں مذا کرات کے نام پر قوم سے مذاق درست بات نہیں نام نہا دمسلمانو ں کو یہ تو سوچ لینا چا ہیے کہ یہا ں خون کا بدلہ خون ہی ہے جو کبھی بھی سبو تا ژ نہیں کیا جا سکتا ہے کیو نکہ اس پر حد بندی اﷲ کی عدالت سے نا فذ کی گئی ہے کسی دنیا دار کا کوئی عمل دخل نہیں ہے محب وطن پاکستانی افواج اور بیگنا ہ عوام کا خون قوم سے بدلے کا تقا ضا کرتا ہے ۔ جنگ رہے اور امن بھی ہو یہ ممکن نہیں طالبان سربراہ ملا فضل اﷲ ایک بد یا نت ، بے ایمان اور ناقابل اعتما د شخصیت کا حامل ہے رئیس المنا فقین ہے یہ شخص جو پہلے بھی ۳ دفعہ پاکستان کے ساتھ مذا کرات کی آڑ میں دغا کر چکا ہے ایک مومن کی یہ پہچان نہیں ہے کہ وہ ایک سراغ سے با ر با ر ڈھسا جا تا رہے با شعور مسلما ن اپنی اور اپنے ایمان کی حفاظت اور اسکے تقا ضے جا نتے ہیں غدار ، بد کردار اور مکا ر حکمرانو ں کو طالبان الو بنانا جا نتے ہیں لیکن اہل علم و دانش اس با ت سے بے خبر نہیں ہیں میڈیا ، عدلیہ ، افواج ، خفیہ ادروں اور علما ء و مشا ئخ کے حقوق اور تحفظ کو پس پشت ڈال کر طالبان کے ساتھ کوئی بھی معا ئدہ اور مذاکرہ قابل قبول نہیں ہے ۔ صحا فیو ں کے حقوق کی تر جمان تنظیم رپو رٹر ود آؤٹ با رڈرز کی سالانہ رپو رٹ کے مطا بق گذ شتہ بر س کے مقابلہ میں حالیہ صحا فتی ذمہ داریا ں نبھا نے والو ں کی جان کو زیادہ خطرہ لا حق ہے ۔ فرا نسیسی دا رلحکو مت میں قائم اس تنظیم کی رپو رٹ کے مطا بق شام ، صومالیہ اور پاکستان دنیا کے ان پا نچ خطر ناک ممالک میں شامل ہیں جہا ں میڈیا سے متعلقہ افراد کی جان کو ہمہ وقت خطرہ لا حق رہتا ہے دیگر ز دو ممالک میں بھا رت اور فلپا ئن شامل ہیں ۔ ان دو ممالک نے گذ شتہ بر س ان پو زیشنو ں پر آنے والے ممالک میکسکو اور برا زیل کی جگہ لی ہے ۔ 2012 میں 88 صحا فیو ں کو اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے دوران ہلاک کر دیا گیا ۔ 2012 میں اڑتیس صحا فیو ں کو اغواء کیا گیا ۔ جو تعداد 2013 میں 87 تک پہنچ چکی تھی ۔ سب سے زیادہ صحا فی شام میں اغواء ہو ئے ۔ شام میں 2013 میں 18 غیر ملکی اور 22 مقامی صحا فی اغواء ہو ئے ۔ امریکی فری لا نسر صحا فی جیمز فولی بھی ان میں شامل تھا ۔ شام میں اغواء ہو نے والو ں میں 2013 میں 40 فیصد کی ہلا کتیں ہو ئیں ۔ شام ، صو مالیہ اور مالی جیسے بحران زدہ علا قوں میں اوربھا رت میں با ئیں بازو کی انتہا پسند تنظیمو ں نے کئی ورکر صحا فیو ں کو مو ت کے گھا ٹ اتا ر دیا ۔ اسکے علا وہ دیگر صحا فیو ں کو جر ائم پیشہ افراد مثلا منشیا ت کے کا ر و با ر ، انتہا پسند مسلمانو ں کی زد میں آکر بم دھماکو ں اور پو لیس سمیت بد عنوا ن حکومتی اہلکا رو ں کی ایما ء پر ہلا ک ہو ئے تھے ۔ کئی صحا فیو ں کو ملک چھو ڑنے پر مجبو ر کیا گیا ان میں سے بہت سے اب تر کی ، اردن ، لبنان ، مصر اور دیگر ز یو رپی ممالک میں ابتر اور غیر محفو ظ حالا ت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ 2013 میں 178 صحا فی دنیا بھرمیں اور با الخصوص چین ، انڈیا ، ترکی ،ایران ، شام میں قید و بند کی صعوبتیں بر داشت کر رہے تھے ۔ چند رو ز قبل ہی تحریک طا لبان پاکستان نے پاکستان کے بڑے بڑے اینکرز ، صحا فیو ں کو قتل کر نے کا اعلان کیا ہے اور میڈیا پر سنز کے قتل کے خلا ف با قا عدہ نہ صرف قرآن و حدیث سے فتویٰ جا ری کروایا گیا ہے بلکہ تحریک طالبان پاکستان نے 25 سے زاہد صحا فیو ں ، اینکرپرسن اور میڈیا مالکان کی فہرست بھی جا ری کی ہے ۔ کیا ان لوگو ں سے کو ئی پو چھ سکتا ہے کہ یہ صحا فی ، میڈیا مالکان اور اینکر پرسن قلم کی مشقت کر نے والے کا فر ہیں یا مسلمان ؟ مذ اکرات کو یکطرفہ مو قف سے محفوظ بنایا جا ئے اور ہر اعتبا ر سے اعتما د اور اخلا ص کو ملحوظ خا طر رکھتے ہو ئے اس با ت کو یقینی بنالیا جائے کہ یہ مذ اکرات صرف کسی ایک مخصوص طبقے فریق یا گر وہ کے لیے ہی فا ئدہ مند نہ ہو ں گے بلکہ اجتماعی سطح پر پو ری قوم کے ہر فرد کو ان مذا کرات سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع میسر آئے گا ورنہ بغا وت کر نے والو ں کے خلا ف فوجی آپریشن اور جنگ کا را ستہ بھی برا نہیں ہے ۔
خدا کر ے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیا ت جرم نہ ہو زندگی وبا ل نہ ہو
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
 
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 107003 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More