جو نہ مذاکرات کا ہنر جانتے ہوں
اور نہ ہی طاقت کے ذریعے دہشت گردی ختم کرسکتے ہوں ایسے رہنمائوں اور
حکومتوں کا کیا کیا جائے! ایک صوبہ کا آئی جی یہ اقرار کررہا ہو کہ صوبہ کی
30 فیصدپولیس کرپٹ ہے، پولیس اور خفیہ اداروں کا یہ عالم ہے کہ امن قائم
کرنے کے بجائے غنڈے اور قاتلوں کوپال رہے ہیں۔ اگرریاست کے طول و عرض میں
حالات کا نقشہ اس طرح ہوکہ روز بےگناہ مارئے جارہے ہوں اور قاتل بابنگ دہل
قتل کا اعتراف کررہے ہوں اور حکومت کو کہہ رہے ہوں ہم تو ایسے ہی مارینگے
تم کیا کرلوگے تو پھرایک ناکام ریاست کا تصور ہی ذہن میں آئے گا۔طالبان سے
مذاکرات حقیقی معنوں میں مذاق بن چکے ہیں۔ وزارت داخلہ کے اپنے بیان کے
مطابق طالبان کے 45سے زائد گروہ ہیں۔ ان میں سے کون پاکستانی ریاست سے نبرد
آزما ہے اور کون عام انسانوں کا قتل عام کررہا ہے؟ فرقہ وارانہ قتل و غارت
گری میں کون مصروف ہے؟ طالبان کا کون سا گروہ کس کی ایما پر اغوا برائے
تاوان کا دھندہ کرتا ہے اور اس کاروبار میں مزید کتنے حصہ دار ملوث ہیں؟
بھتہ خوری، ٹارگیٹ کلنگ، منشیات کی اسمگلنگ، ڈکیتیوں اور دوسرے جرائم میں
کون کون سے گروہ سرگرم ہیں؟ طالبان کے پاس وہ کون سی عسکری تربیت، جدید
اسلحہ یا لاجسٹک سپورٹ ہے کہ حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے؟
مذاکرات میں ایک سرکاری کمیٹی ہے جس میں چار ارکان شامل ہیں اور یہ چاروں
ارکان طالبان کے پہلے سے ہی ہمدرد ہیں جبکہ تعجب ہے کہ طالبان نے اپنی
مذاکراتی کمیٹی میں عمران خان کے ساتھ نواز شریف کا نام تجویز نہیں کیا
کیونکہ 2012ء کے آخر میں طالبان نے نواز شریف، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے
سربراہ مولانا فضل الرحمان اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کی مذاکرات سے
متعلق ضمانت مانگی تھی۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مذاکرات کا راگ الاپ کر اپنی
سیاست چمکانے والے عمران خان اس ڈرامے کی حقیقت اور نتائج سے بخوبی آگاہ
ہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے طالبان کی تجویز کا خیر مقدم تو کیا لیکن
مذاکراتی کمیٹی کا حصہ نہیں بنے۔ کمیٹی میں عمران خان کی نامزدگی سے اب تک
انہیں لبرل سمجھنے والی شہری مڈل کلاس کو تحریک انصاف کے اور خاصکر عمران
خان کےنظریات کا علم ہوگیا ہوگا اور وہ جو عمران خان سے انقلابی امیدیں
وابستہ کیے ہوئے تھے اُن کی اکثریت اب جان چکی ہے کہ تحریک انصاف سیاسی اور
نظریاتی طور پر مذہبی بنیاد پرستوں، خاص کر جماعت اسلامی کی نمائندہ تنظیم
سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور عمران خان سیاسی طور پر منور حسن کے اسسٹنٹ ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو شاید یہ گھاٹے کا
سودا نظر آیا لہذا انہوں نے بھی بات چیت کے عمل سے الگ رہنے کا اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ قیام امن سے متعلق قبائلی جرگہ پر قومی اتفاق رائے کے باوجود
حکومت نے اسے نظر انداز کیا ہے۔ ڈنڈہ بردار عورتوں کے ذریعے پورےاسلام آباد
کو یرغمال بنانے اور درجنوں لوگوں کو شہید کروا کر خود برقعے میں شہادت سے
راہ فرار اختیار کرنے والے لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز بھی ان مذاکرات کے
ذریعے پاکستانی آئین کو ختم کرنے کی کوشش میں پیش پیش ہیں۔
طالبان نے جن پانچ لوگوں کے نام دیئے یہ تمام کے تمام طالبان پرست ہیں ، اس
کے علاوہ دو کٹر طالبان پرست صحافی انصار عباسی اور اوریا مقبول جان بھی
طالبان کی مذاکراتی ٹیم کی لسٹ میں شامل تھے۔ پاکستان کا ہر فرد اس بات سے
بخوبی واقف ہے کہ سرکاری اور طالبان کی بنائی ہوئی کمیٹیاں ایک ہی سکے کے
دو رخ ہیں۔ مذاکرات کے پہلے دن ہی سرکاری کمیٹی کے سربراہ عرفان صدیقی کہہ
چکے ہیں کہ ہم دراصل ایک ہی ہیں۔ میڈیا پرروزانہ رات آٹھ بجے سے بارہ بجے
تک بازار مذاکرات سجتا ہےاور مثبت پیش رفت کے منافقانہ بیانات کے باوجود
مذاکراتی کمیٹیوں کے ممبران اچھی طرح جانتے ہیں کہ شروع سے آخر تک یہ سارا
عمل ایک ڈھونگ ہے اسکے سوا کچھ نہیں۔ میڈیا پر ملنے والی کوریج کو طالبان
پرست کمیٹی کے ممبران اپنے ایجنڈے کی تشہیر، ذاتی شہرت اور سیاسی مفادات کے
لئے استعمال کررہے ہیں۔ دونوں طرف طالبانی رجحان کی نمائندگی کرنے والے
مذہبی انتہا پرست بیٹھے ہیں جسے ریاست کے بعض حصوں کی مکمل پشت پناہی کے
باوجود آج تک 5 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ ان مذاکرات کی حیثیت شریعت کے
نفاذکے لئے حکمران طبقے کے طالبان پرست دھڑے کی آپسی بات چیت اور تبادلہ
خیال سے بڑھ کے کچھ نہیں ہیں۔ جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور مذہبی
انتہا پرستوں کے کچھ دوسرے سیاسی رجحانات کے مطابق پاکستان کا آئین شریعت
سے مطابقت رکھتا ہے اور مسئلہ صرف آئین میں درج اسلامی نکات پر عمل درآمد
کا ہے۔ دوسری طرف زیادہ شدت پسند ملا ہیں جو شریعت کا ذرا سخت ورژن نافذ کر
کے ملا عمر کو امیرالمومنین اور ملا فضل اللہ کو امیر بنانے کی باتیں کررہے
ہیں۔
پاکستان کی 96 فیصدآبادی مسلمان ہے مگر بدقسمتی سے ہمارئے علما اور مذہبی
رہنماوں نے ان مسلمانوں کو سنی، شیعہ، وہابی، دیوبندی ، بریلوی اور بہت
سارئے فرقوں تقسیم کردیا ہے۔ اگر آپ سیاسی یا مذہبی طور پر پوری ایمانداری
سے پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو آپکو پاکستان میں ہندو، عیسائی، قادیانی،
سکھ، پارسی سب مل جاینگے لیکن مسلمان نہیں ملینگے، البتہ سنی، شیعہ، وہابی،
دیوبندی، بریلوی اور بہت سارئے فرقوں کے لوگ ضرور ملینگے، لیکن اگر ایک
مسلمان یہ کہتا ہے کہ وہ صرف مسلمان ہے اور انسانیت پر یقین رکھتا ہے تو
پھر ہمارئے نام نہاد مذہبی ٹھیکیداراُسکو لبرل، سیکولر بلکہ کبھی کبھی اُسے
دہریہ یا کافربھی کہہ دیتے ہیں لیکن کیا مجال اُسکو مسلمان مان لیں، دوسری
طرف منافقت کا یہ حال ہے کہ چند مخصوص مذہبی سیاسی جماعتوں کے نزدیک
دہشتگرد اور ہزاروں انسانوں کے قاتل طالبان نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ اُن میں
سے کسی کے بیٹے ہیں تو کسی کے بھائی، جیسے کہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے
سربراہ مولانا سمیع الحق اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہتے ہیں اور جماعتِ
اسلامی کے امیر منور حسن طالبان کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ ایک طرف حکومت
اس آپسی بات چیت کے زریعے مسائل کا شکارپاکستانی عوام کو بیوقوف بنارہی ہے
تو دوسری طرف خود کش حملوں اور بم دھماکوں کےزریعے معصوم انسانوں کی قتل و
غارت گری مسلسل جاری ہے۔ دہشت گردی کی کم از کم ایک واردات ہر روز ہورہی ہے
جو "طالبان کے طالبان سے مذاکرات" کے فریب کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔ |