سابق آمر پرویز مشرف 2 جنوری سے
راولپنڈی میں امراض قلب کے ایک فوجی ہسپتال آرمڈ فورس انسٹی ٹیوٹ آف
کارڈیالوجی ( اے ایف آئی سی) میں چھپے بیٹھے ہیں، ابھی تک وہ خصوصی عدالت
میں کسی ایک بھی پیشی پر حاضر نہیں ہوئے۔ 31 جنوری کو ہونے والی سماعت میں
خصوصی عدالت نے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے
سابق فوجی صدر کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور اپنے حکمنامے میں
پرویز مشرف کو 7 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا، وہ 7فروری کو
بھی عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو سابق آمر کو پیشی کی آخری مہلت دیتے ہوئے
عدالت کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف 18فروری کو ہرحال میں عدالت حاضر ہوں، اگر
وہ 18فروری کو بھی عدالت پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری اور
زرضمانت ضبط کر لی جائے گی۔ عدالت سے مسلسل غیر حاضری کے بعد اپنی آخری
مہلت پر آخرکار پرویز مشرف نے غداری کیس میں خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہونے
کا فیصلہ کر لیا ہے، ذرائع کے مطابق سابق آمر نے یہ فیصلہ اپنے قریبی
دوستوں اور وکلاءسے مشاورت کے بعد کیا اور ساتھ ہی آج عدالت میں پیش ہونے
کے لیے ایک اپیل بھی تیار کی ہے۔بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف نے
خصوصی عدالت میں حاضر ہونے کا فیصلہ ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہونے اور
زرضمانت ضبط ہونے کے خوف سے کیا ہے۔ سابق آمر کے وکیل احمد رضا قصوری کا اس
حوالے سے کہنا ہے کہ آئندہ سماعت پر پرویز مشرف کی پیشی کے حوالے سے ایک
اور سرپرائز دیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سماعت سے ایک روز قبل بھی پرویز
مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے سرپرائز کا اعلان کیا تھا۔ جب احمد رضا
قصوری سے پوچھا گیاتھا کہ سابق صدر کے حوالے سے پیشی پر سرپرائز کی بات کی
تھی، وہ کیا تھی؟ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا سابق صدر پرویز مشرف کا
وارنٹ گرفتاری ہونے کے باوجود خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونا ہی تو سب سے بڑا
سرپرائز ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے وکیل بظاہر ان سے
وفاداری کا اعلان کررہے ہیں اور پرویز مشرف پر جان نچھاور کرنے کی باتیں
کررہے ہیں ،دوروز قبل غداری مقدمے کی سماعت کے دوران پرویز مشرف کی وکلا
ٹیم میں شامل رانا اعجاز نے سماعت شروع ہوتے ہی کہاتھا کہ وہ پرویز مشرف کے
دوست ہیں اور ان کے دور میں پنجاب حکومت میں وزیر قانون بھی رہے ہیں۔ ان کے
دوست اس وقت مشکل میں ہیں، اس لیے دوستی کا تقاضا ہے کہ پرویز مشرف کی جگہ
انھیں غداری کے مقدمے میں پھانسی یا پھر عمر قید کی سزا دی جائے۔ عدالت اگر
انھیں سزا دے گی تو یہ ان کے لیے فخر کی بات ہوگی اور ویسے بھی وہ جیل کی
ہوا کھانا چاہتے ہیں۔اس سب کے باجود یوں معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف کے
وکیل ہی اسے سزا دلوانے کا سبب بنیں گے، یہ وکیل ہی اس سزا کو طول دے رہے
ہیں ،جو اس سے کروڑوں کی فیس حاصل کررہے ہیں۔ مشرف کے وکلاءاس انداز میں
مقدمہ لڑرہے ہیں جس انداز میں ذوالفقار علی بھٹو کے وکلاءنے ان کا مقدمہ
لڑا تھا اور یہ احمد رضا قصوری میڈیا کو ”سرپرائز “ دیتے دیتے خود پرویز
مشرف کو ایک دن عظیم سرپرائز دیں گے۔
دوسری جانب مسلسل سعودی عرب کی جانب سے اس امکان کا اظہار کیا جارہا تھا کہ
شاید وہ پرویز مشرف کی رہائی کا سبب بن جائے، جب بھی کوئی سعودی رہنما
پاکستان کے دورے پر پاکستان آتا ہے تو مختلف حلقوں کی جانب سے ملک میں
چیںمگوئیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا کہ شاید اس بار سعودی عرب حکومت سے
پرویز مشرف کی رہائی کی بات کرے اور پرویز مشرف کی رہائی کا کوئی سامان کیا
جائے، لیکن اس بار سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی آمد پروفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے بیان سے سارے خدشات دور ہوگئے۔ غداری
کیس میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ بھی سعودی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کے
اعزاز میں عشائیے میں موجود تھے۔ اس موقع پر لوگ پوچھتے رہے کہ سعودی ولی
عہد نے پرویز مشرف کے معاملے پر کوئی بات کی ہے؟ تو پرویز رشید نے اکرم شیخ
کا ہاتھ پکڑ کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ
سعودی ولی عہد یا کسی سعودی سفارت کار نے پرویز مشرف کا ذکر تک نہیں کیا۔
سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز سابق صدر پرویز مشرف کے بارے میں
بات کرنے نہیں آئے۔ جبکہ اس سے ایک روز قبل وزیر اعظم میاں نوازشریف کا بھی
کہنا تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات انتہائی برادرانہ ہیں،
سعودی شاہ عبداللہ کا دورہ پاکستان باہمی رابطوں کو مزید مضبوط کرنے کے لیے
ہے، ان کے دورے کو پرویز مشرف کے تناظر میں نہ دیکھا جائے، سعودی عرب کو
پرویز مشرف کے حوالے سے پیغام پہنچانا ہوتا تو وہ کسی دوسری شخصیت کو بھیج
سکتے تھے۔یہ خیال رہے جب گزشتہ ماہ سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل پاکستان
کے دورے پر آئے تھے تو اس وقت بھی یہی باتیں کی جارہی تھیں کہ اس دورے کا
کچھ نہ کچھ ،کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی مقام پر پرویز مشرف کو فائدہ پہنچے
گا ۔مشرف نے سعودی حکومت کی خواہش پر نواز شریف کو قید سے نکال کر جدہ
پہنچا دیا تھا،یہ ہو نہیں سکتا کہ مشرف جب مشکل میں ہوں تو سعودی عرب کی
طرف سے کسی خواہش کا اظہار نہ کیا جائے، لیکن اس وقت بھی یہی ہوا کہ سعودی
وزیر خارجہ نے پرویز مشرف کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں جب کہ پرویز مشرف کے جرائم کی فہرست
طویل ہو اور کسی جانب سے اسے کسی تعاون کی امید بھی نہ ہو تو ان کا قدرت کے
انتقام سے بچنا مشکل نظر آتا ہے۔ پرویز مشرف نے پاک فوج کے قابل احترام
ادارے کو اپنی ہی قوم کی نظروں میں متنازعہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں
چھوڑی، ایک جعلی ریفرنڈم میں خود کو پاکستان کا صدر منتخب کروایا۔ نائن
الیون کے بعد ایک فون کال پر قومی غیرت کو امریکا کے قدموں میں ڈال دینے کا
جرم بھی پرویز مشرف نے کیا تھا، جس کی سزا ملک میں خودکش حملوں کی صورت سب
کو بھگتنا پڑ رہی ہے، 50 ہزار سے بھی زیادہ تعداد میں شہید ہونے والے بے
گناہ پاکستانی شہریوں کے خون ناحق کے اصل ذمے دار امریکا اور جنرل پرویز
مشرف ہیں۔ لال مسجد میں بے گناہ اور معصوم بچیوں کو فاسفورس اور بارود سے
جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دینا،قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی تذلیل اور
طویل عرصہ تک ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو قید میں رکھنا، صرف اور صرف اپنے
اقتدار کو بچانے کے لیے تمام عدالتی سسٹم کو تباہ کرکے رکھ دینا اور ججوں
کو غیر آئینی طریقے سے ان کے عہدوں سے محروم کر دینا یقیناً پرویز مشرف کے
بہت بڑے جرائم ہےں۔اس کے علاوہ پاکستانی شہریوں بشمول ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو
امریکا کے ہاتھ فروخت کرنا، نواب اکبر بگٹی کا قتل ،کراچی میں 12مئی
2007ءکا خون خرابہ، پاکستانی میڈیا کو زیر عتاب لانا بھی سابق آمر جرائم
میں شامل ہے۔اگرچہ پروزیز مشرف اکثر مقدمات میں بری ہوچکے ہیں لیکن مکافات
عمل سے انکار ممکن نہیں ہے۔قدرت انتقام لے کر رہتی ہے۔
|