حد ہوگئی ہے یار ...!!

مذاکراتِ امن میں دہشت گردوں کی دہشت گردی ٹھیک نہیں ہے...؟

کہاجاتاہے کہ پرانے زمانے میں اگرکسی بھلے اِنسان کو کوئی پاگل کُتاکاٹ لیتاتو اِس کا علاج لوہارکیاکرتاتھا اور پاگل کُتے کے کاٹے کا لوہار کے پاس سیدھاسادہ سا ایک طریقہ علاج یہ تھا کہ لوہا ر ایک لوہے کی سلاخ لیتااور اِسے دہکتے ہوئے انگاروں پر رکھ دیتااور جب سلاخ خُوب دہک کر بالکل لال سُرخ ہوجاتی تو اِس سے مریض کے زخم کو داغ دیتامریض اگرسخت جان ہوتاتو بچ جاتاورنہ عام طور سے تو یہی ہوتاکہ نہ مرض رہتانہ مریض ۔

اگرچہ ہمارے یہاں کچھ عرصے قبل تک حکومت بھی اُن لوگوں کے ساتھ ایساہی کیا کرتی تھی جو دہشت گردی میں ملوث ہوتے یاپائے جاتے تھے اگرچہ آج بھی دہشت گرد تعدادمیں کچھ زیادہ ہیں اور یہ اپنی پوری شدت پسندی کے ساتھ سارے مُلک میں سوات سے لے کر کراچی تک موجودہیں مگر آج حالات بالکل مختلف ہوگئے ہیں اَب دہشت گرد یہ مانیں یا نہ مانیں...؟

مگر حقیقت تو یہی ہے کہ آج حکومت نے اپنی تمام تر قوت(پرانے زمانے کے لوہار کی طرح انگارے اور لوہے کی سلاخ ) رکھنے کے باوجود بھی (دہشت گردی جیسے مرض میں مبتلامریضوں کے علاج کے لئے) اپنی کئی اندرونی اور بیرونی مصالحتوں کی بنا پر اپنی اعلی ٰ ظرفی کا مظاہرہ کیاہے اور اِن کار دیر پا علاج یہ ڈھونڈنکلاہے کہ فی الحال اِن سے لوہار بن کر نہیں بلکہ دانشمندوں کی طرح مذاکرات سے اِن کے مرض کا علاج کیا جائے ۔یوں اِس بناپرجب حکومت نے پندرہ بیس روزقبل(جیسے پاگل کُتے کے کاٹے مرض میں مبتلا) شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کئے تھے تو خودحکومت واپوزیشن سمیت عام شہریوں میں بھی یہ تصوراُبھرکرسامنے آنے لگا تھا کہ اَب شدت پسند(دہشت گردعناصر) فائر بندی پر مائل ہوں گے اور امن کے خاطراپنی دہشت گردی فوری طورپر ختم نہیں تو کم ازکم اِسے کنٹرول تو ضرورہی کرلیں گے مگرجیسے ہی مذاکرات کی گاڑی نے اپنے ٹریک پرچلناشروع کیا تواُدھرہی دہشت گردوں نے اپنی دہشت گردی میں بھی اضافہ کردیااور آج تونوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومت اور حکومتی مذاکراتی ٹیم تو پُرامن مذاکرات کی لولی پاپ کو مزے مزے سے چاٹنے میں ہی لگی ہوئی ہے تواِسی دوران دوسری طرف دہشت گردسانس لینے اور آرام کرنے کے بعد اپنی اُسی طرح کی دہشت گردی سے باز نہیں آرہے ہیں کہ جیسی یہ دہشت گردی مذاکرات سے پہلے کیا کرتے تھے۔

گزشتہ سولہ سترہ دِنوں میں دہشت گردوں کی جانب سے پندرہ بڑے حملے ہوچکے ہیں خواہ وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملہ ہویا پشاورمیں پیش آئے نو دہشت گردی کے واقعات سمیت کراچی کے رزاق آباد میں پولیس بس اور موبائل پر ہونے والا پولیس کی تاریخ کا سب سے بڑا حملہ اِن سب واقعات کے ذمہ دار یہی لوگ یا اِن کے وہ ضدی گروپس ہیں جو مذاکرات کے جھولے میں تو سوار ہیں مگردوسری جانب یہی لوگ اپنی دہشت گردی سے معصوم اور بے گناہ اِنسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل کراپنے دہشت گردانہ عزائم کی تکمیل بھی چاہ رہے ہیں اَب شدت پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر یہی کہاجاتاسکتاہے کہ حدہوگئی ہے یارایک طرف شدت پسندمذاکرات کا ڈھونگ رچاکر حکومت کو بلیک میل کررہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی میں بھی مصروف ہیں۔آج دنیا یہ دیکھ بھی رہی ہے اور اچھی طرح سے سُن اور جان بھی رہی ہے کہ حکومت نے شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرکے مصالحتوں کے جس آسمان کو چھولیا ہے یہ اِس کی ہی ہمت اور اِس کا ہی ظرف ہے کہ اِس کے باوجوس بھی وہ شدت پسندی کے رنگ میں رنگے دہشت گردوں کو مذاکرا ت کی میز پر لا کر اِنہیں سیاسی دھارے میں شامل کرناچاہتی ہے اور پُرامن طریقے سے ساتھ لے کر چلناچاہتی ہے۔

مگرآج بہرحال ....!حکومتی حکمتِ عملی اور مذاکراتی عمل اپنی جگہہ کچھ بھی ہوں مگر دوسری جانب یہ بات اپنے اندر بے شمار سوالات لئے ہوئے ہے اور اِن سوالات میں سے ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ مذاکراتِ امن میں دہشت گردوں کی دہشت گردی ٹھیک نہیں ہے...؟آج موجودہ حالات میں شدت پسنداپنی جس شدت پسندی کے سہارے یہ درسِ عام کرناچاہ رہے ہیں کہ دینِ اسلام کے حقیقی ماننے والے یہی لو گ ہیں اور یہ ہر حال میں سرزمینِ پاکستان پر شریعت کے نام پر اپنی شدت پسندانہ شریعت کا نفاذ کرناچاہتے ہیں تو اِن کی اِس خودپسندانہ شریعت کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے گی کیوں کہ آج بالخصوص دین اسلام کے ماننے والے اور اِس کی تعلیمات پر چلنے والے سچے کلمہ گو مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر ادیان کے پیروکاراور ذی شعور اِنسان بھی یہ بات اچھی طرح سے مانتے اور جانتے ہیں کہ اسلام زو ر اور جبر اور طاقت کے بدولت زبردستی نہیں پھیلاہے یہ تورہتی دنیا تک کا ایک ایسادین ہے جس نے اخلاص و محبت سے لوگوں کو اپناگرویدہ بنایاہے اور اِن کے درمیان قرآن و سُنت کی ایسی عظیم کتابیں رکھ دیں ہیں جو تاقیامت بنی نوع اِنسان کے لئے رُشدوہدایت کا سرچشمہ ہیں ۔اَب یہ کیسے شدت پسند ہیں جو قرآن و سُنت کو بالائے طاق رکھ کر حکومتی رٹ کو چیلنچ کررہے ہیں اور دھونس و دھمکی سے اپنی شدت پسندانہ شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں ۔

یقینایہ خبرحکومت اور حکومتی مذاکراتی ٹیم سمیت اپوزیشن اور ساری پاکستانی قوم ہر ذی شعوراِنسان کے لئے بھی بڑی حیران اور پریشان کُن ہے کہ ’’ طالبان نے چترال میں صدیوں سے آباداسماعیل فرقے کے قبائل کے خلاف بھی کھلم کھلامسلح جدوجہدکا اعلان کردیاہے طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر جاری 50منٹ کی وڈیو میں کیلاش کے قبائلی افرادکو جواِن کے خیال میں اَب تقریباََ3500نفوس پر مشتمل ہیں اِن لوگوں سے کہا ہے کہ وہ اسلام قبول کرلیں یا مرنے کے لئے تیارہوجائیں تاہم طالبان نے ایک دعویٰ یہ بھی کیا ہے کہ کیلاش کے لوگوں کی بڑی تعداداسلام قبول کرچکی ہے اور جو اِس شرف سے رہ گئے ہیں وہ اسرائیل یا کسی اور کے ایجنڈنہ بنیں یہی اِن کے حق میں بہترہوگا وہ اسلام قبول کرلیں ورنہ ورنہ مرنے کے لئے تیار ہوجائیں اور اِس کے ساتھ ہی طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم مذاکراتی عمل بھی جاری رکھیں گے اور اپنی کارروائیاں بھی کرتے رہیں گے ۔جبکہ شدت پسندوں کی ایسی ہی دھمکیوں اور کارروائیوں کے خلاف حکومت بارہاکہہ چکی ہے کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے ہیں ، ہر حال میں دہشت گردوں کو اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بندکرنی ہوں گیں اور اگر اُنہوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں بند نہ کیں تو پھر حکومت کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گااور پھر کہیں وہی کچھ نہ ہوجائے جس کا مُلک کے اندراور باہرسے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ اگر شدت پسند دہشت گردوں اور اِن کے گروپس کی جانب سے دیدہ ودانستہ ہ مذاکرات سپوتاژ کرنے کے لئے دہشت گردی کی کارروائیاں نہ رُکیں تو پھر حکومت اِن کے خلاف فوجی آپریشن کرنے میں حق بجانب ہوگی...!اَب ایسے میں راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ حکومت کے مذاکراتی عمل کو شدت پسندحکومتی کمزوری سمجھ رہے ہیں اور یہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے باز بھی نہیں آرہے تو پھر آج حکومت کو بھی زمانہ قدیم والے لوہارکی طرح کُتے کے کاٹے کا علاج دہکتی ہوئی لوہے کی سلاخ سے ہی کرناضروری ہوگاپھراِس طرح نہ مرض رہے گااور نہ ہی مریض....!!!! (ختم شُد)

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971374 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.