آج کی دنیا میں کہلائے جانے والے
روشن خیال جنہیں انگریزی میں ILLUMINATI کہا جاتا ہے دراصل یہود کے “ریموٹ
کنٹرول“ سے تربیت یافتہ ایجنٹ ہیں۔ یہ نام نہاد “روشن خیال“ لوگ ہی پاکستان
کا اصل مسئلہ ہیں کہ جو پاکستانی آئین اور قوانین پر عملدرآمد
(Implementation) کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔جب قانون کی عملداری نہیں ہوگی تو
عوام کے لئے نہ تو امن و امان ہوگا اور نہ ہی عدل و انصاف کا نظام۔ ایسا
کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ آئینِ پاکستان کی اسلامی دفعات اور
قراردادِ مقاصد کے شدید مخالف ہیں اور اُن پر عملدرآمد نہ ہونے دینے کے
لیئے ملک میں ہر طرح کی برائیاں اور فواحشات پھیلانے اور نئی نسل کو ان میں
مبتلا کرنے کے لیئے کوشاں رہتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ اپنی سازشوں اور سامراجی طاقتوں کی حمایت سے ہر آنے والی
حکومت، وہ چاہے فوجی ہو یا جعلی طریقہ کار سے آنے والی جمہوری حکومت جو
“لوٹو اور پھوٹو“ کی پالیسی پر عمل کرتی ہے ، پر اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں
اور اُن کے ذریعے آئینِ پاکستان سے متصادم اپنی مرضی کے قوانین بنواتے ہیں۔
اِن ہی روشن خیالوں کے کچھ بڑوں نے ذرائع ابلاغ (Media) پر قبضہ کرکے اپنے
ہم مشرب لوگوں کو ان میں بھر دیا ہے۔ ان کے “تخریبی نقار خانے“ میں نفاذِ
اسلام کے لیئےچیخنے والی “طوطی“ کی آواز کوئی نہیں سُنتا۔ ان کی دلیلوں کے
مطابق پاکستان میں نماز روزے وغیرہ کی تو آزادی ہے(جیسا کہ بتوں کی پوجا
کرنے کی) ، مگر حکومت پر قابض انگریزی سوٹوں میں ملبوس لوگ اور انکی نقّالی
کرنے والے عوام اپنے لباس کی مجبوریوں سے نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔
نماز پڑھنے کی آزادی تو مسلمانوں کو بھارت میں بھی ہے، پھر پاکستان بنانے
کی کیا ضرورت تھی۔
مخلص پاکستانیوں نے بہت کوشش کی کہ مقاصدِپاکستان پر عمل کیا جائے مگر
“روشن خیالوں“ نے جو ملک میں مقتدر تھے، ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے
دیا، اور علامہ اقبال کے بقول پُرانی اور نئی نسل کو “وضع میں تم ہو نصاریٰ
تو تمدّن میں ہنود“ بنادیا ہے۔ اب مرنے والوں کے لیئے فاتحہ پڑھنے کے بجائے
موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں اور عید بقرعید کے علاوہ مساجد میں نمازیوں کی
تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ یہ مملکت میں کرپشن اور لوٹ مار کے نظام
کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اسی لیئے لوگوں کو دولت کی ہوس میں مبتلا کردیا
گیا ہے اور دولت مندوں کی حرام دولت سے کی جانے والی فضول خرچیاں دیکھ کر
عوام بھی زندگی بھر کی کمائی ان فضول خرچیوں پر لُٹانے لگے ہیں۔ جس ایثار و
مؤاخات کی قرآن شریف میں تعلیم دی گئی ہے وہ دور دور تک نظر نہیں آتی۔ گویا
عوام کو ہوس کی سُرخ بتّی کے پیچھے لگادیا گیا ہے۔
اس سے آگے بڑھ کر جب سوات میں قائم قاضی عدالتوں کو جدید عدالتوں سے بدلنے
کی کوشش کی گئی تو سوات کے علاقوں میں ILLUMINATI کے خلاف مزاحمت کا آغاز
ہوا۔ بھر معمولی سی بات پر لال مسجد کی طالبات پر فائرنگ کی، گویا مچھر کو
بندوق سے شکار کیا گیا۔ اس سے مسلمانوں کا حکومت سے تصادم شروع ہوا جو شمال
کے جنگجو مسلمانوں میں پھیلتا چلا گیا۔ حکومت نے فوج کی طاقت سے اسے دبانے
کی کوشش کی مگر کوئی فوج اچانک حملہ کرنے والے گوریلوں پر قابو نہیں
پاسکتی۔ اس خطہ کی تاریخ گواہ ہے۔ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے
دوسرے بدخواہ ممالک کی ایجنسیوں نے بھی اپنے ایجنٹس گوریلوں کے ساتھ خلط
ملط کر دئے۔ اب حکومتِ پاکستان شش و پنج میں مبتلا ہے کہ دیندار اور بے دین
گوریلوں کے درمیان تمیز کیسے کرے ، کس سے مذاکرات کرے اور کس سے نہ کرے۔
مگر جب تک اقتدار کی غلام گردشوں پر نام نہاد “روشن خیال“ قابض ہیں کوئی
بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے اور پاکستان کی سلامتی کو خطرات بڑھتے چلے
جائیں گے۔
یہ دراصل روشن خیال نہیں، بلکہ “تاریک راہوں کے سوداگر“ ہیں، جو لاشوں کے
بہتے خون کی سرخی سے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس لیئے حکومت کا پہلا
کام میڈیا کے ذریعہ ملک میں انارکی کے کانٹے بونے والوں کا سدّباب کرنا اور
پھر عوامی نمائندوں کو Illuminaties سے پاک کرنے کا ہونا چاہیئے جو آئین کی
دفعات 62-63 وغیرہ پر سختی سے عمل کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیئے
الیکشن کے قوانین بدل کر حقیقی جمہوریت بھی لانی لازمی ہے، جو متناسب
نمائندگی کے طریقہ کار سے الیکشن کرانے سے لائی جاسکتی ہے۔ |