خیبر پختونخواہ اسمبلی 31اکتوبر 2013کولوکل
گورنمنٹ ایکٹ کی کثرت رائے سے منظوری دے چکی ہے۔ 2001ء کے بلدیاتی انتخابات
میں مقامی حکومتوں کا نظام یونین کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل پر
مشتمل تھا جبکہ نئے ترمیم شدہ نظام میں یونین کونسل کو ختم کرکے مقامی
حکومتوں کو تین حصوں ولیج کونسل، تحصیل کونسل اور ضلع کونسل میں تقسیم کر
دیا گیاہے ۔اس نظام کے تحت ولیج کونسل کے انتخابات غیر جماعتی جبکہ تحصیل
اور ضلع کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونے ہیں۔ حکومت نے اختیارات
کی انتہائی نچلی سطح تک منتقلی کیلئے ہر یونین کونسل کو تقسیم کرکے دائرہ
کار ولیج کونسل تک بڑھا دیا ہے جسے عوامی حلقوں کی جانب سے ایک خوش آئند
اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق دیہات میں ہر ولیج
کونسل دو سے دس ہزار تک کی آبادی جبکہ شہروں میں نیبر ہوڈ کونسل چھ سے
پندرہ ہزار تک کی آبادی پر مشتمل ہے۔ دیہی اور نیبر ہوڈ کونسلوں میں
کونسلرز کی تعداد دس ہو گی جن میں پانچ جنرل کونسلر، دو خواتین ، ایک مزدور
کسان، ایک اقلیتی اور ایک یوتھ کونسلر ہوگا۔ دیہی اور نیبر ہوڈ کونسل میں
سب سے زیادہ ووٹ لینے والا کونسلر متعلقہ کونسل کا چیئرمین اور دوسرے نمبر
پر آنے والا کونسلر متعلقہ کونسل کا نائب چیئرمین قرار پائے گا۔ اسی طرح
ولیج اور نیبر ہوڈ کونسل کا چیئرمین بہ لحاظِ عہدہ ممبر ڈسٹرکٹ کونسل اور
نائب چیئرمین بہ لحاظِ عہدہ رورل یا اربن کونسل کا ممبر ہوگا۔ صوبائی حکومت
کی جانب سے ابھی تک کوئی واضح شیڈول سامنے نہیں آیا مگر کہا یہ جا رہا ہے
کہ جنرل کونسلرز کی نشستوں پر انتخاب لڑنے والے اُمیدواروں کیلئے ایک ووٹر
صرف ایک ہی ووٹ اپنے پسندیدہ اُمیدوار کیلئے استعمال کر سکے گا۔ اگر ایک
ولیج کونسل سے پانچ جنرل کونسلرز نے منتخب ہونا ہے تو پہلے پانچ پوزیشنیں
لینے والے اُمیدوار کامیاب جبکہ چھٹی اور اُسکے بعد کی پوزیشنیں لینے والے
ناکام تصور ہوں گے اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا چیئرمین بن جائے گا۔ یہ
بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جس ولیج کونسل میں اقلیت کا نمائندہ نہ
ہوگا وہاں ایک اضافی جنرل کونسلر بھی دیا جا سکتا ہے ۔یوتھ کونسلر کے سوا
باقی نشستوں پر انتخاب لڑنے والوں کیلئے عمر کی کم از کم حد پچیس سال جبکہ
یوتھ کونسلر کیلئے عمر کی کم از کم حد اکیس اور زیادہ سے زیادہ پچیس سال
بتائی جا رہی ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں تحصیل کونسل کے پاس اختیارات زیادہ
ہوں گے جبکہ ولیج کونسلوں کو چالیس فیصد فنڈزصوبائی حکومت فراہم کرے گی۔
حکومتی دعوے کے مطابق ہر کونسل کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں بیس لاکھ روپے
جبکہ انتظامی اخراجات کیلئے پانچ لاکھ روپے سالانہ فراہم کیے جائیں گے۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت یہ بھی دعویٰ کر چکی ہے کہ وہ اپنے پانچ سالہ
دورِ اقتدار میں ہر کونسل کو اوسطاً ایک کروڑ روپے د ے گی، یونین کونسلوں
پر سالانہ ایک سو پچیس ارب روپے خرچ کیے جائیں گے ، ولیج بینک کھولے جائیں
گے اور ولیج کونسل کا چیئرمین جسٹس آف پیس ہوگا۔ صوبائی حکومت کے مطابق نئے
بلدیاتی نظام میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے ولیج کونسل بااختیار اور پاورل
فل ہوگا۔ ولیج کونسل سے منتخب ہونے والے ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی بنے گی
جس کا کام مقامی سطح پر لوگوں کے حقوق کا دفاع کرنا، ولیج کونسل کی سطح پر
چھوٹے ترقیاتی کام کروانا ہوگا۔ نئے نظام میں ولیج کونسلوں کو ایک جرگے کے
طور پر استعمال کیا جا سکے گا تاکہ مقامی باشندے مسائل علاقائی روایات کے
مطابق حل کر سکیں۔ ولیج کونسل کو سب سے مضبوط یونٹ بنایا جائے گا جس میں
تھانہ کمیٹی، بنیادی مرکز صحت کیلئے گورننگ باڈی، اسکولز کیلئے پیرنٹس ٹیچر
کونسل بنا کر تجاوزات کے خاتمے کے اختیارات، ریونیو کمیٹی سمیت دیگر اہم
اُمور چلانے کے اختیارات دیئے جائیں گے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ولیج کونسل کے
انتخابات غیر سیاسی اور غیر جماعتی ہوں گے اور یہاں کسی بھی سیاسی جماعت کا
عمل دخل نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کا پلیٹ فارم استعمال کرکے ولیج کونسل کے
انتخابات میں حصہ لینے والوں کیخلاف کسی بھی مخالف اُمیدوار کی شکایت پر
الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کی طرف کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے،
بلکہ سیاسی نظریات رکھنے والے اُمیدوار صرف تحصیل اور ضلع کونسل سے
انتخابات میں ہی حصہ سکیں گے۔ خیبرپختونخواہ میں ابھی تک بلدیاتی انتخابات
کی تاریخ اور واضح شیڈول آنا باقی ہے مگر اس کے باوجود تمام اضلاع کی یونین
کونسلوں اور ولیج کونسلوں میں انتخابی گہما گہمی جاری ہے۔ یونین کونسل میں
تحصیل کونسل اور ضلع کونسل کیلئے ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف اور
اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ ان
انتخابات میں کامیابی کیلئے اپوزیشن کی جانب سے جے یو آئی (ف)، اے این پی
اور پیپلز پارٹی پر مشتمل تین جماعتی اتحاد بھی بن چکا ہے جبکہ آزاد
اُمیدواروں کا گروپ بھی متحرک دکھائی دیتا ہے۔اسی طرح ولیج کونسل کے
انتخابات میں زیادہ تر نوجوان اُمیدواروں کا انتخاب یقینی نظر آتا ہے۔
صوبائی حکومت صوبے میں بلدیاتی انتخابات مارچ میں کروانے کیلئے الیکشن
کمیشن کو پہلے سے ہی باقاعدہ درخواست دے چکی ہے مگر مارچ کے مہینے میں صوبہ
بھر کے تعلیمی اداروں میں سالانہ امتحانات ہوتے ہیں اور اگر مارچ میں
انتخابات نہ ہو سکے تو پھر اپریل میں الیکشن ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا
ہے۔
|