بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ہر انسانی معاشرے میں عزت و شرافت کے معیارات ہوتے ہیں اور ہر عام و خاص
اورہرکس و ناقص ان معیارات مطلوب تک پہنچنے کی کوشش و سعی و جہد میں اپنی
عمر کا بہترین حصہ اور اپنے ذہن کی بہترین صلاحیتیں صرف کرتا ہے۔اس ساری
کاوش کے نتیجے میں کچھ لوگ تو اس انسانی معاشرے کے اعلی معیار تک پہنچ پاتے
ہیں اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو محروم رہ جاتے ہیں اور اپنی یہ خواہش اگلی
نسلوں کو منتقل کر کے تو قبروں میں جااترتے ہیں اور بعض اوقات تو قرنوں تک
اس منزل کا حصول ناممکن رہتاہے۔انصاف کا تقاضایہ ہے معیارعزوشرف ایسا ہو
جسے ہر کوئی حاصل کر سکے تب ایک کھلی اورعام دوڑ ہو اور قوت بازو سے جو اس
معیارمطلوب پر پہنچ سکے پہنچ لے۔
’’دولت ‘‘کم و بیش تمام انسانی معاشروں میں معیارعزو شرف سمجھا جاتا ہے۔خاص
طور مغربی تہذیب نے اس معیار کو بہت ہی پزیرائی بخشی ہے،یہودیوں نے اسی کو
اپنی زندگی کا مقصد ہی بنا لیا ہے اورہندو تو دولت کے نام پر لکشمی کی پوجا
بھی کرتے ہیں۔بظاہر دیکھنے میں یہی لگتا ہے کہ دولت سے تمام مسائل حل ہو
سکتے ہیں ،تمام خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں ،دولت کی دیوی جس پر مہربان ہو وہ
معاشرے میں بہت جلد مرکزیت حاصل کر لیتا ہے،سب اس سے محبت کرنے لگتے ہیں
رنگ ،روپ، صحت،تعلقات،تعلیم اورمستقبل گویا اسکی ساری دنیا ہی روشن ہو چکتی
ہے،لیکن کیا اسکے حصول کے مواقع سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں؟ظاہر ہے کہ
اسکا جواب ’’نہیں‘‘میں ہی ہے۔ایک مزدور صبح سے شام تک دھوپ میں کھڑے ہو کر
خون پسینہ ایک کرتاہے ا ور چند سکے ہی کما پاتا ہے جبکہ دوسرا انسان ابھی
ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور کروڑوں اربوں کا وارث بن جاتا ہے۔تب کیا یہ ظلم
نہیں ہے کہ عزوشرف کو دولت سے منسوب کر دیا جائے؟
بعض معاشروں میں ’’صحت‘‘معیار عزوشرف ہوتا ہے۔تاتاریوں کوایک عالم دین نے
اسلام کی دعوت دی،انکے سردار کو بات سمجھ تو آگئی لیکن اس نے کہا کہ ہمارے
ہاں پہلوانوں کی بات چلتی ہے،یہ ہمارا قومی پہلوان ہے آپ اس سے کشتی کر لیں
اور جیت جائیں تو ہم آپ کی بات مان لیں گے۔وقت مقررہ پر پہلوان اوروہ عالم
دین اکھاڑے میں گتھم گتھاہوئے تاریخ گواہ ہے کہ چند ثانیوں کے بعد وہ
پہلوان چاروں شانے چت تھا کیونکہ فتح شکست تو بہرحال اﷲ تعالی ہی کے ہاتھ
میں ہے۔صحت کا معیار رکھنے والا یہ تاتاری قبیلہ مسلمان ہو گیاجس پر علامہ
اقبال نے کہا کہ :
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
ہمارے ہاں بھی ایسے رواج موجود ہیں کہ پورا بکرا کھالینے والے کو اور دودھ
دہی کے کئی گلاس چڑھا لینے والے کو ہیرو مان لیا جاتا ہے اور کشتی میں جیت
جانے والے کی واہ واہ ہو جاتی ہے۔لیکن سوال پھر یہ ہے کہ کیا انسانی معاشرے
کے سب لوگ صحت کا معیا رحاصل کر سکتے ہیں؟جواب پھر ’’نہیں ‘‘میں ہے کہ قدرت
نے ہر کسی کو تو ایسا جسم نہیں دیا کہ وہ اسکی پرورش کر کے تو پہلوان بن
سکے۔پھر بیماریاں،ذہنی تناؤ اور پریشانیاں ہرکسی کو اس قدر لاحق ہوتی ہیں
کہ تن سازی اور صحت مندی کا حصول ممکن ہی نہیں رہتااور یہ سب کچھ ہو تو بھی
وسائل ومواقع کی کمی آڑے آتی ہے اور یہ شوق ادھورارہ جاتا ہے۔
اکثر انسانی معاشروں میں ’’نسل‘‘بھی عزوشرف کا معیار ہوتی ہے۔جیسے ہندؤں
میں برہمن عزت والا ہے خواہ کتنا ہی برا ہو اور شودر ذلیل اور ملیجھ ہے
خواہ کتنا ہی عمدہ و باصفاانسان ہو۔پنجاب کے قدیم علاقوں میں ’’چوہدری
‘‘اور ’’کمی ‘‘کا تصور،سندھ کے دیہی علاقوں میں ’’وڈیرہ‘‘اور ’’ہاری‘‘کا
تصور اور دنیا بھر کے معاشروں میں کم و بیش اسی طرح کے صدیوں قدیم تصورات
بھی اسی نوع سے مستعار ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا انسان اپنی مرضی سے اپنی نسل
کا چناؤ کرتا ہے؟یاپھر محنت و مشقت کر کے تو اپنی نسل تبدیل کی جا سکتی
ہے؟ظاہر ہے ان کا جواب ’’نہیں‘‘میں ہے۔دولت اور صحت کی دوڑ میں تو پھر بھی
ایک آدھ فیٖد لوگ آ گے نکل سکتے ہیں لیکن نسل کی میں تو یہ منزل ناممکن
الحصول ہے۔تب یہ ظلم نہیں کہ’’ نسل ‘‘کو معیار عزوشرف بنا کر تو انسانوں
میں پیدایشی تقسیم کر کے طبقاتی خلیج پیدا کر دی جائے۔
پھر ایک انسانی معاشرے کے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں وقتی طور پر عزوشرف کے
معیارات بنتے رہتے ہیں ۔مثلاََ ڈرائیوروں میں بہترین گاڑی چلانے والا،طالب
علموں میں محنتی طالب علم،ڈاکٹروں میں شفا بانٹنے والا ڈاکٹر ،معلمین میں
اچھی تیاری کرواکے بچوں کو پاس کرانے والا معلم اورسیاستدانوں میں خوش
اخلاق ،مسائل حل کرنے والااور مرجع خلائق راہنما وغیرہ اپنے اپنے گروہوں
میں عزت و شرف کے مستحق ہوتے ہیں۔لیکن یہ سب بھی وقتی،عارضی اور ختم ہونے
والے معیارات ہیں مثلاََ بس کے بغیر ڈرائیوربیکار ہے،کتب کے بغیر طالب علم
محنت نہیں کر سکتا،دوائیاں نہ ہوں تو ڈاکٹر کس کام کااور آمریت کی موجودگی
میں کوئی لیڈر پنپ نہیں سکتاوغیرہ۔تب ایسا معیار شرف ہونا چاہیے جو ہر وقت
ہر کسی کے لیے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہو ۔
کل انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات میں سے معاشرتی عزوشرف کا معیار’’ تقوی
‘‘کا ہونابہت ساری مشترکات میں سے ایک مشترک ہے۔یہ معیار انسانی معاشرے میں
موجودہر کوئی حاصل کر سکتا ہے،ہر وقت حاصل کر سکتا ہے اور جب تک چاہے اسے
باقی رکھ سکتا ہے چاہے تو صرف اس دنیا میں اور چاہے تو آخرت میں بھی اسکے
ثمرات سمیٹ سکتا ہے۔اس معیار شرف کے حصول کے لیے دولت،صحت،خاندان اورکسی
خارجی و داخلی انسانی و مادی عنصر کی کوئی ضرورت نہیں۔اس معیار کے حصول کے
لیے کسی نسل سے ہونا کوئی ضروری نہیں،کسی علاقے اور کسی جاگیر کی اس پر
کوئی اجارہ داری نہیں اس چشمے کافیض عام ہروقت،ہرکسی کے لیے جاری و ساری ہے
جو چاہے یہاں سے آسودہ ہولے اور دوسروں کو بھی راحت بہم پہنچا لے۔
تقوی کا مطلب ’’خوف خدا‘‘ہے۔جنگل کے اندرایک نوجوان اپنے خیمے میں چراغ کی
روشنی میں مصروف مطالعہ تھا،ایک بھٹکی ہوئی شہزادی نے اس سے پناہ چاہی وہ
اپنا چراغ لے کر باہر آگیا اور شہزادی خیمے میں سدھار گئی۔شیطان نے اس
نوجوان پر حملہ کیا ،اس نے اپنی چھوٹی انگلی چراغ کی لو میں جلائی ،تکلیف
ہونے پر کھینچ لی پھر اس نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ اس آگ کوتو برداشت نہیں
کر سکے اس سے کہیں زیادہ دہکتی ہوئی دوزخ کی آگ کو کیسے برداشت کرو گے؟سات
دفعہ شیطان نے اس پر حملہ کیا سات دفعہ اس نے اپنی انگلی جلائی پھر بلآخراﷲ
تعالی کی رحمت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
امیرالمومنین حضرت عمربن خطابؓ نے بزرگ صحابی حضرت ابی بن کعبؓ سے سوال کیا
تقوی کیا ہے ؟
انہوں نے جواباََ سوال کیا کہ اے امیرالمومنین کیا آپ کبھی کانٹوں والے
راستے سے گزرے ہیں ؟
ــ’’ جی ہاں‘‘
’’کیسے گزرتے ہیں؟
’’اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہوں تاکہ کوئی کانٹا ان میں الجھ کر انہیں داغدار نہ
کردے‘‘
فرمایا’’یہی تقوی ہے۔
گویا اس دنیا سے یوں گزر جانا کہ گناہوں سے دامن آلودہ نہ ہو،بازار سے گزر
جانا لیکن آنکھوں کو میلا نہ ہونے دینا،رزق کمانا لیکن سود اور حرام سے
دسترخوان کوخراب نہ ہونے دینا،موسیقی سے کانوں کوبچائے رکھنا۔لڑائی جھگڑے
میں بدکلامی اورگالم گلوچ سے زبا ن کوپاکیزہ رکھنااور اپنے دیگر معاملات
میں قلب و فکر کی حفاظت تقوی کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔
حضرت بلال،حضرت سمیہ،حضرت یاسر اورحضرت عمار رضی اﷲ تعالی عنہم
دولت،صحت،خاندان،نسل اورعلاقہ ہر لحاظ سے تہی دامن تھے،نسلوں سے غلامی ان
کا مقدر تھی لیکن صرف تقوی کی بنیاد پر انہوں نے ایسامقام پایا کہ
سرورعالمﷺ نے جنت میں حضرت بلال کے قدموں کی چاپ سنی۔آج کوئی والدین اپنے
بچوں کانام فرعون،نمرود،ہامان اور قارون نہیں رکھتے حالانکہ دنیاوی اعتبار
سے یہ کتنے ہی کامیاب لوگ تھے لیکن کتنے ہی والدین ہیں جو قیامت تک اپنے
بچوں کے نام ان مقدس ہستیوں کے نام پررکھتے رہیں گے۔روزمحشر کے اختتام پر
جب جنت الفردوس کے دروازے پر اگلی پچھلی امتوں کے بے شمار لوگ منتظر ہونگے
کہ کب محسن انسانیت ﷺ تشریف لائیں اور اس جنت کا دروازہ سب سے پہلے آپ ﷺ کے
لیے ہی کھولا جائے تو بلالؓ نے آپ ﷺکی سواری کی نکیل تھامی ہوگی ،دروازہ
کھولا جائے گااور اگرچہ جنتی کی حیثیت سے تو خاتم النبیینﷺ ہی پہلے داخل
ہونگے لیکن عملاََسواری کی نکیل تھامے بلالؓ سب سے پہلے اس جنت میں داخل ہو
رہے ہونگے۔
ٓ اس دنیا میں بظاہراگر چہ دولت،دنیا،اقتداراور اعلی نسل کے لوگ ہی عزت
والے ہیں لیکن یہ محض ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔یہ عزت ان انسانوں کی نہیں
بلکہ ان سے وابسطہ مراعات کی ہے۔اہل دولت جب دولت سے محروم ہو جاتے ہیں تو
ان کے تلوے چاٹنے والے انہیں کے سروں پر چھتر لگاتے ہیں،اہل اقتتدارکی
چاپلوسیاں کرنے والے اقتدار سے علیحدگی پر ان کو پہچانتے ہی نہیں کہ تو کون
میں کون؟ اور جس نے نسلی برتری کی بنا پر تفاخر کا انجام دیکھنا ہو وہ
دنیاکے عظیم خاندانوں کے زوال کی داستانیں پڑھ کر دیکھ لے۔حقیقت یہ ہے آج
بھی قبیلہ بنی نوع کے افراد دل و جان سے کسی وصف کی عزت و توقیروتکریم کرتے
ہیں تو وہ ’’تقوی‘‘ ہی ہے۔عبرت کا مقام ہے کہ بادشاہوں کی قبروں پر’’
سیروسیاحت‘‘ کے لیے جایا جاتا ہے جبکہ اولیاء اﷲ کے مزرات آج بھی دلوں پر
حکومت کرتے ہیں۔
اگرانبیاء علیھم السلام اس دنیا میں تشریف نہ لاتے تو جنگل کا بادشاہ
شیر،چیتا اوروحشت و بربریت اور درندگی کی علامت بھیڑیااور ریچھ نہ ہوتے
بلکہ حضرت انسان ہی ہوتا۔انبیاء علیھم السلام نے انسان کو انسانی شعائر سے
آگاہ کیا،اسے خاندان جیسی نعمت عظمی کا ادراک عطا کیا،رشتوں کا تقدس اور
چادراورچاردیواری کی تمیزسکھائی،تہذیب و تمدن کی تعلیم دی اور معرفت الہی
اور تقوی تو ان انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات کا خاصہ تھی ہی جو بنی نوع
انسان کے بھلے مانسوں کی پہچان بنی۔انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات سے ہٹ
کر کوئی تمدن کتنا ہی ترقی کر لے اور اسکی راتیں دنوں سے کتنی ہی زیادہ
روشن ہو جائیں اوراسکی تیزرفتاری سورج چاندستاروں کو ہی مات دے دے اور
اگرچہ اسکے تعلیمی و تہذیبی ادارے ساراسال اوردن رات شاوآباد رہیں لیکن ان
سب کے باوجود وہ تمدن انسانیت سے عاری اورحیوانیت سے قریب تر ہوگا۔بیسویں
صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کے آغاز کے عالمی حالات اس بات کی بہت تازہ
اورناقابل تردیدشہادتیں ہیں۔
انسانیت کا اعلی وصف ’’تقوی‘‘ہی انسانوں میں انسانیت کا ضامن ہے،یہ
’’تقوی‘‘صرف ایک ہی طریقے سے رب ذوالجلال کے ہاں مقبول ہے اور وہ طریقہ
محسن انسانیت ﷺ کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔باقی سب طریقے جو اس کے علاوہ ہیں
گزشتہ انبیاء کی تعلیمات کو مسخ کر کے بنائے گئے ہیں یا پھر تکمیل قرآن
مجیدکے بعد خود سے تراشے گئے ہیں جن کی کہ کوئی سند اﷲ تعالی کی کتاب میں
موجود نہیں ہے۔ایک ایک سنت کو تازہ کرنا،پہلے اپنے پانچ چھ فٹ کے جسم پر
اسلام نافذ کرنااور پھر اپنے گھر کی ریاست میں بزور قوت اس دین کو جاری
کرنا’’ تقوی‘‘کے اولین تقاضے ہیں اور پھر کسی ایسے گروہ کے ساتھ مل جانا جو
دنیا بھر میں اﷲ تعالی کی زمین پر اﷲ تعالی کے نظام کو نافذ کرنے کی محنت
وجدوجہدکر رہا ہواﷲ تعالی کے قرب اور دنیاوآخرت میں فوزوفلاح کامیابی و
کامرانی اور نجات کا ذریعہ ہے۔
|