برے سے نہیں برائی سے نفرت کیجیے

ایک میٹھا بول اور ایک ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو۔
(القرآن)

چند دن پہلے ایک ٹالک شو دیکھنے کااتفاق ہوا، خبر تھی کہ وینا ملک نے توبہ کرلی،شو بز کوخیر باد کہ دیااب گھر سنبھالیں گی۔ وینا ملک سے کون ناواقف ہے خبر نامے میں انکا ذکر کیا جاتا ہے کہ ریٹنگز ملیں ۔ کچھ انکا انداز اور کچھ ہماری قوم کا مزاج وہ بے حد مشہور ہو گئی۔ہم بھی معاشرے کا حصہ ٹہرے اسی ٹالک شو پر رک گئے۔ ظاہر ہے نیک جو ہیں تو دوسروں کوبرا کہنے کا پیدائشی حق رکھتے ہیں نیا ڈرامہ دیکھنے اور وینا پر افسوس کرنے بیٹھ گئے۔ اس پروگرام نے ہمیں ایک بہت اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ،جس کی میری اپنی زندگی میں کمی ہے۔اس آرٹیکل کا مقصد لوگوں یہ بات پہنچانا اوراﷲ سے معافی مانگنا ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب کی نصیحت نے وینا کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ وہ بھی اس پروگرامیں مدعو کئے گئے تھے۔ انہوں نے کہا ہمیشہ اس بچی کی بری شہرت کا سنا کرتے تھے ،دل دکھتا تھا ، اس کیلیئے دعا کرتے تھے کہ اﷲ اچھی شہرت بھی نصیب کرے ۔ مولانا صاحب نے کہا کہ دین ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ برے سے نہیں برائی سے نفرت کریں،مجرم سے نہیں جرم سے نفرت کریں۔اگر کوئی انسان شدید بیمار ہے تو وہ قابلِ نفرت ہے یا قابل ِرحم؟؟؟

یہی معاملہ برائی کا ہے،جو دل کی بیماری ہے۔کسی کوحقیر تب ہی سمجھتے ہیں جب اپنے بہترہونے کا زعم ہو۔کیا پیارے نبی ﷺ سے بہتر ہوگا کوئی ،وہ دن میں ستر بار استغفار کیا کرتے تھے ، راتوں کو جاگ کر امت کی ھدایت اور بخشش کی کی دعائیں کرتے تھے۔کسی برے کو کمتر سمجھنا اور لعن طعن کرنا، اسکی کردار کشی کرنا مسلمانوں کاطریقہ تو نہیں۔مومنین تو آپس میں کریم ہوتے ہیں۔اﷲ کے بندوں سے محبت کر تے ہیں، کسی کو مشکل میں دیکھ کر بے چین ہو جاتے ہیں۔سورۃالحشرمیں مومنین کی دعا آئی ہے،’ہمارے دلوں میں اہلِ ایمان کے لیئے بغض نہ رکھ‘ ۔
رسول اﷲ نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بھائیوں کو تو ایک دوسرے کا خیرخواہ ہونا چاہیے۔ہم میں سے کتنے ایسے ہونگے کہ برائی میں مبتلا شخص کیلیئے پریشان ہوں اسکے لیے دل سے دعا کریں،اسے اچھی نصیحت کریں، اسکاپردہ رکھیں، اﷲ کے بندے کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کریں۔آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے(الحدیث)

شیخ سعدی نے اپنے بچپن کا واقعہ بیان کیا ہے ، ایک دن وہ اپنے والد کے ساتھ تہجد پڑھنے کے لیئے،سرائے میں تمام لوگ سوئے ہوئے تھے انہیں اپنے اوپرفخر محسو س ہوا، والد سے کہنے لگے دیکھیے سب کیسے سوئے ہوئے ہیں۔ ان کے والد نے جواب دیا ’ایسی بات کہنے سے بہتر تھا کے تو بھی سویا رہتا‘۔

نا جانے کیوں ہمارا مزاج ہی ایسا بن گیا ہے کہ ہماری باتیں لوگوں سے شروع ہو کر لوگوں پر ختم ہو جا تی ہیں۔ ایلینور روز ویلٹ کا قول ہے کہ بڑے لوگ خیالات کو زیر بحث لاتے ہیں، اوسط درجے کے لوگ واقعات پر گفتگو کرتے ہیں جبکہ چھوٹے لوگ لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ قول ہماری قومی ذہنیت کا کتنادرست عکاس ہے، ہمارا یہ حال ہے کہ just for funغیبت کرتے ہیں ،لوگوں کی برائیاں ٹوہ لگا کرڈھونڈتے ہیں اور پھیلاتے ہیں ،مذاق اڑاتے ہیں۔ خواتین ہوں یا مرد جہاں چار لوگ اکھٹے ہوئے خاندان،پڑوسیوں کی باتیں شروع، بڑی عمر کی خواتین ہیں تو بہوؤں کارونا، کم عمر ہیں تو ساس نندوں کی شکایت،شوہر ہیں تو بیویوں کی برائی،افسروں،سیاستدانوں ،پولیس والوں غرض کسی نہ کسی بہانے اپنے آپ کومظلوم ثابت کرنا۔ لیکن اگر عمل دیکھا جائے تو ایک بھی مثبت کام نہیں۔

زیادہ سے زیادہ گھروں میں جھگڑے اور تو تکار کی نوبت آجاتی ہے باہر تو سر جھکانا ہی پڑتا ہے کہ زبردست کا ٹھینگا سر پر۔ ووٹ بھی انھی لوگوں کو دے آئیں گے جن کو گالیاں دیتے چار سال گزارے تھے۔ قربانی کی کھالیں اور زکوٰۃ بھی جان کے ڈر سے غیر اﷲ کو دے دیں گے۔نہ تبدیلی کی خواہش ہے نہ شوق۔ برائی سے روکنا اورنیکی کا حکم دینا صرف اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کے لیئے رہ گیا ہے۔

سورہ حجرات میں اﷲ فرماتا ہے،
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو ں نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔
آپسمیں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو
نہ ایک دوسرے کوبرے القاب سے یاد کرو
اے لوگوں جوایمان لائے ہوبہت گمان کرنے سے پرہیز کرو
تجسس نہ کرو
اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔

دراصل برائی کا بار بار ذکر کر نااسے ترویج دینے کے مترادف ہے،کیا وینا ملک کی تصاویر میڈیا پبلسٹی کے بغیر اتنی شہرت حاصل کرستی تھیں؟؟ کیا عوام نے ان تصاویر کوعبرت حاصل کرنے کے لیئے دیکھا تھا؟؟؟ یہ بھی عام آبزرویشن ہے کہبرے کو برا کہتے رہنا اور اسکی تذلیل کرنا اسے برائی میں بڑھاوا دیتا ہے انسانی فطرت کے مطابق اس کا رویہ ڈفینسو ہو جاتاہے ، زیادہ مار کھانے والے بچے ڈھیٹ بن جاتے ہیں، جن بچوں کو ہر وقت ڈانٹاجائے، برابھلا کہا جائے وہ اپنا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں یا انکی عزتِ نفس ہی مر جاتی ہے۔ اسکے برعکس محبت سخت سے سخت دل مو م کر دیتی ہے جیسے رسول اﷲ نے 23سال میں عرب کی کایا پلٹ دی۔

، اپنی خلیفۃ الارض ہونے کی ذمہ داری کو پہچاننا اخلاص پیدا کرتا ہے، ہر ایک اپنی رعیتکا جوابدہ ہے، اپنی صلاحیت کے مطابق جہاں تک ہو سکے حق پہنچانا ہمارا فرض ہے۔دعوت بھی ایسی نہیں کے کہہ کرذمہ داری پوری سمجھی، دعوت بھی ایسی ہو کہ دل درد محسوس کرے، راتوں کو سجدوں میں پیارے نبی امت کی بخشش کی دعائیں کرتے تھے۔طائف والوں نے تکالیف کی حد کردی لیکن آپ پرامید ہیں انکی نسلوں کی ہدایت کی دعا فرما رہے ہیں۔عبدﷲ بن ابئی منافق اعظم ے کفن کے لیئے اپنا کرتا دے دیا۔ہمدردی اور نرم دلی کی حد کہ جانی دشمنوں کو عام معافی دیدی۔یہ ہے اس عظیم کردار کی جھلک جو اﷲ کے نیک بندوں کو زیباء ہے۔اخلاق کا یہ معیار اﷲ نے ہمارے لیئے مقرر کیا ہے۔

اﷲ ہمارے دلوں کو پاک کر دے، آمین۔
maryam kishwer
About the Author: maryam kishwer Read More Articles by maryam kishwer: 2 Articles with 2474 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.