شیر نے اِنسان کو کھانے سے انکارکردیا مگرآج اِنسان تو
اِنسان کوہی..؟
شیر،شیرمیں بھی فرق ہے ایک وہ شیرتھے اور ایک ہمارایہ کاغذی شیرہے جو....؟
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری سرزمینِ پاکستان پر اِنسان تو اِنسان مگر
دین اِسلام کے جو خودپکاوسّچامسلمان ہونے کے دعویدار و ہ بھی معصوم
اِنسانوں کے خون کے ایسے پیاسے بنے ہوئے ہیں کہ اِن کی اِس فعلِ شنیع سے
جہاں زمین تھّراگئی ہے تو وہیںآسمان بھی مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا
گلاکٹتے دیکھ کر ٹوٹنے کو ہے مگر مسلمان کہلوانے والے تو اپنے مسلمان بھائی
کا گلاکاٹنے سے باز ہی نہیں آرہے ہیں اور اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں میں
ایسے مصروف ہیں کہ اِنہیں عورتوں ،بچوں اور بڑھوں پر ذرابھی رحم نہیں
آرہاہے ہمارے یہاں تو جیسے مسلمان کہلانے والے اِنسانوں نے معصوم اِنسانوں
کو بم دھماکوں سے اُڑاکر موت کی وادی میں دھکیل کر قبرکی آغوش میں
پہنچادینے کو اپنے دین کی خدمت سمجھ رکھاہے۔
آج ایک طرف تو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرکے اِنسانوں کے گلے کاٹنے والے موجود
ہیں تو وہیں اِسی سرزمینِ خدا پرایسے آدمخوردرندے بھی موجود ہیں جن کی خصلت
اور جبلت میںہی اِنسان کا گوشت مرغوب غذاتصورکیا جاتاہے بیجنگ سے ایک خبریہ
آئی ہے کہ ” شیرنے بیروزگارنوجوان کو کھانے سے انکارکردیا“خبر کی تفصیل کچھ
یوں ہے کہ ” ایک چینی اخبار چنگ ڈوبزنس ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق چین کے جنوب
مغربی صوبے سیچوان کے چنگ ڈوکے چڑیا گھر میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک
27سالہ بیروزگاری سے تنگ یانگ جن ہائی نامی نوجوان نے درخت پر چڑھ کربنگال
ٹائیگرز کے پنچرے میں چھلانگ لگادی اور خودکو آدمخورشیروں کی جوڑی کے سامنے
ڈال دیا، تاہم شیروں نے اِس کی حالتِ زارپر ترس کھایااور اِن آدمخورشیروں
کی جوڑی نے اِس بیروزگارنوجوان کواپنانوالہ بنانے سے بھی انکاردیا،جب شیروں
نے اِسے کھانے سے انکارکردیاتو اِس نوجوان نے ایسی بہت سی اُوٹ پٹانگ
حرکتیں بھی کرنا شروع کردیں کہ جن کے کرنے سے اِن آدمخورشیروں کو غصہ آجائے
مگربظاہر آدمخورمگر اندرسے گزرے وقتو ں کے اچھے اِنسانوں کی طرح نرم دل
رکھنے والے اِن خداترس شیروں کو اِس بیروزگارنوجوان کی حرکتوں پر ذرابھی
غصہ نہ آیااور وہ ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی زندگی سے تنگ اِس
بیروزگارنوجوان کی حرکتوں سے محظوظ ہوتے رہے اور دیکھنے والوں نے یہ بھی
دیکھا کہ جیسے آدمخورشیروں کی یہ جوڑی دنیا کے ظالم اِنسانو ں(شدت پسندوں)
اور ہمارے وزیراعظم میاں نوازشریف جن کی جماعت کا انتخابی نشان بھی شیرہے
اِن سمیت سب کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ” خداکے واسطے اِنسانوں تم
اپنے جیسے انسانوں پر تو ترس کھاؤ۔۔۔تم کسی کے مقدس خون سے اپنے ہاتھ تومت
رنگوں ۔۔۔اور اگر اِسی طرح تم کہیں کہ وزیراعظم ہواور تمہاراانتخابی نشان
شیرہے تو اللہ کے لئے لوگوں کوبیروزگارکرنے کے ایسے اقدامات تونہ
کرواوراپنے قومی اداروں کی یوں کوڑیوں کے دام نج کاری کرکے لوگوں کے پیٹ پر
تو لات مت مارو۔۔۔ کہ وہ بیروزگارہوجائیں اور پھر یہ بھی اِس
بیروزگارنوجوان کی طرح اپنی زندگی سے تنگ ہوکر ہمارے سامنے ہوں اور اِن کی
خواہش ہوکہ ہم اِن کے خون سے اپنے ہونٹ رنگیں تو یہ ہمیں گوارہ نہیں ۔۔۔ہم
کو دیکھوکہ زمانہ ہمیں شیرکہتاہے ہم سے ڈرتاہے مگر دیکھوکہ ہم بھی تم جیسے
اِنسانوں کی طرح نہیں ہیں کہ ہم اپنے مفادات کے خاطر اِنسانوں کی مجبوریوں
سے فائدہ اُٹھائیں اور اِن کے گوشت سے اپنا پیٹ بھریں ۔۔۔اے اِنسانو۔۔۔!ہم
بھی یہ خوب سمجھتے ہیں کہ آج اِنسان ہی اِنسان کے ہاتھوں پریشان ہے، کہیں
کوئی اِنسان ، اِنسانوں کو اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے خاطر ذبح
کررہاہے تو کہیں کوئی اِنسان کاغذی شیربن کرقومی اداروں کواپنے کاروباری
مفادات اور فائدوں کے لئے کوڑیوںکے دام فروخت کرکے اِنسانوں کو
بیروزگارکرنے پر تلاہواہے“شیروں کی جوڑی نے اِس بیروزگارجونوان کو نہ
کھاناتھااُنہوں نے نہ کھایامگرآج کے اُن اِنسانوں کے منہ پر ایسازوردار
طمانچہ زورماردیاہے جواِنسان اور مسلمان بن کر اِنسانوں کے ہی خون کے پیاسے
بنے ہوئے ہیں اور جواقتدارمیں آنے کے بعدلوگوں کو بیروزگارکرنے کی منصوبہ
بندیاںکررہے ہیں۔
بہرکیف..!آج زمینِ خداپر اِنسان کے ہاتھوں جو ہوجائے وہ بھی کم ہے کیوں کہ
آج ہم جس انوکھے انداز اور وسعت پذیر سوچوں کے ساتھ 21ویں صدی سے گزررہے
ہیں اِس میں جو ہوجائے وہ بھی کم ہے،گرچہ آج اِنسان کا دعویٰ ہے کہ اِس نے
اپنے کارناموں سے 21ویں صدی کو زیرِ پاکررکھاہے مگرحالات واقعات اِس بات کے
گواہ ہیں کہ یہ بھی اِنسان کی محدود سے محدودترسو چ ہے ،آج دراصل اِنسان
اپنے جس دعوے پر غرورکررہاہے یہ بھی اکیسویں صدی کی ایک انوکھی مگر ضعیف
سوچ ہے ،یہ سچ ہے کہ اِس صدی میں جو ہوجائے وہ کم ضرورہے مگر اِسی کے ساتھ
ہی آج کے اِنسان کو اِس بات کے لئے بھی تیار رہناچاہئے کہ اِس صدی میں ہر
لمحے جس انہونے اور انوکھے کرشمات اور واقعات کی پیشنگوئیاں کی گئیں ہیں
ابھی تو یہ اِس کاعُشرِ عشیرہے آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا ....؟
بہرحال ..!یہ اکیسویں صدی کا ہی اعزازہے کہ اِس میں ایسابھی ہوا ہے کہ
ہماری حکومت نے شدت پسندوں سے نیک نیتی کی بنیاد پر مذاکرات شروع کئے مگر
شدت پسندوں نے اِس کے خلوص کے پھول کو پیروں تلے مسل کر رکھ دیایہ بھی
موجودہ صدی کا ہی کمال ہے کہ حکومت نے طاقت رکھنے کے باوجود بھی بدنامِ
زمانہ شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کئے مگر شدت پسندوں نے حکومتی پیشکش کو
بھی ٹھکرادیااور اپنی ہی دہشت گردانہ روش پر قائم رہے ۔
یوں آج جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت نے مذاکراتی عمل کو روک دیاہے اور
شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملے شروع کردیئے ہیں یقینا اِس کے ذمہ دار بھی
یہی شدت پسند عناصر ہیں جنہوںنے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے سامنے
حکومتی مذاکراتی عمل کو مذاق جانااور غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرتے رہے
،مگرشاید حکومت اِس سارے عمل میں دوسو فیصد سنجیدہ تھی جِسے سمجھے بغیر شدت
پسند اپنی ضد پر ہی آڑے رہے شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حکومتی فضائی حملوں
سے متعلق اطلاعات یہ ہیںکہ پہلی حکومتی فضائی کارروائی میں حکومت کو بڑی
کامیابیاں ملی ہیں ،اور حکومت نے فضائی حملے میں کئی نامی گرامی ماسٹرمائنڈ
شدت پسندوں کی کمین گاہوں کو نیست ونابودکردیاہے اِس پر حکومت کایہ بھی
کہناہے کہ اگر پھر بھی شدت پسندوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری
رکھیں تو مزید شدت کے ساتھ کارروائیاں کی جائیں گیں۔
آج سب کچھ ممکن ہوسکتاہے طاقتوراگرسرخم کرے تو بھی یہ اِس صدی کا
انوکھاواقعہ ہوگااور اِسی طرح اگر کوئی کم ظرف دہشت گردانہ کارروائیوں سے
اِنسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے توبھی یہ اِس صدی کا منفی اور انتہائی
عبرتناک اور قابلِ افسوس رخ ہوگااور اگردہشت گردوں کے خلاف حکومتی مشینری
حرکت میں آجائے تو یہ بھی موجودہ صدی کا بڑاکارنامہ سمجھاجائے گاگوکہ اِس
صدی میں جابجاجتنے بھی اَنہونے ہوجائیں ہونے دواور حقیقت کی آنکھ سے تسلیم
کرو، کیونکہ موجودہ صدی میں اِنسان ہی اِنسان کے خون کا پیاسہ ہے اورآج ہم
ایساہوتااپنی کھلی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہیں، اِس پر کچھ کا مذمت کرناہے
تو کچھ اپنے عزائم کی تکمیل کے خاطر معصوم اِنسانوں کا گلاکاٹنااپنے
نقطہءنظرکی تسکین سمجھ رہے ہیں ۔
آج درحقیقت اکیسویں صدی کی خیر اور شر کی اِس جنگ میں یہ پتہ لگانابہت مشکل
ہوگیاہے کہ اچھائی کے راستے پر کون چل رہاہے اور اِن دونوں کے درمیان سے
اچھائی کوکہاں سے ڈھونڈنکالاجائے...؟ تاکہ مُلک میں بھائی چارگی اور محبت و
خلوص اور ملی یکجہتی و اخوت و مساوات کی ایک نہ ختم ہونے والی فضاقائم
ہوجائے یعنی مُلک میں ایسادیرپاامن دیکھنے کو ملے کہ شیراور بکری ایک ہی
گھاٹ پر پانی پیتے دِکھائی دیں۔موجودہ حالات میں ہم اپنے مُلک کے لئے یہ
دُعاکررہے مگر درحقیقت بیجنگ میں پیش آئے واقعے نے ہمارے معاشرے کے اُن
اِنسانوں کے لئے بڑاسبق چھوڑاہے آج جومعصوم اِنسانوں کے خون کے پیاسے بنے
ہوئے ہیں اور جو اقتدارمیں آجانے کے بعد اپنے کاروباری مائنڈکی وجہ سے
لوگوں کو بے روزگارکرنے کے حربے استعمال کررہے ہیں یعنی شیر، شیر میں بھی
فرق ہے ایک وہ حقیقی شیرتھے جو آدمخورہو کر بھی مجبور اِنسان پر ترس کھاگئے
اور ایک ہمارایہ کاغذی شیر ہے جو وہ سب کچھ کررہاہے وہ اِسے نہیں کرناچاہئے
تھا....؟ |